ایک عرصہ ہوا لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے آ رہے ہیں کہ ہم امن پسند مسلمان لوگ ہیں۔ ہمیں فتنہ پرستی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے بچنا چاہئیے کیونکہ یہ ہمارے دین کا شعار نہیں۔ تو جناب! آپ کی بات سن بھی لی، سمجھ بھی آگئی اور ہم ماننے کو بھی تیار ہیں لیکن ٹھہریں، اذان ہو رہی ہے۔ آئیں، سامنے اہل حدیث کی مسجد ہے۔ نماز پڑھ لیتے ہیں۔
میں مدینہ مسجد میں نماز پڑھتا ہوں۔
ارے تو کیا یہ مسلمان نہیں؟
نہیں بات وہ نہیں ہے۔ بس میں وہیں نماز پڑھتا ہوں۔
اس بات سے آغاز کا مقصد ایک عام مذہبی ذہنیت کو اجاگر کرنا ہے کہ ایک طرف تو وہ فرقہ واریت اور انتشار سے بچنا چاہتا ہے جبکہ دوسری ہی جانب ایک کلمہ گو کے پیچھے نماز سے گریزاں ہے۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے ایک خاص طبقہ ایک خاص جہت کو اپنے مفاد اور اپنی دکانداری کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ جو معاملہ سلمان تاثیر کے قتل سے شروع ہوا پھر کبھی نہ تھما۔ تا حال کچھ آوازیں صدائے باز گشت کی طرح سنائی دیتی ہیں جن میں کچھ معصوم جانوں کا ضیاع، آہیں اور سسکیاں بھی شامل ہیں۔ کئی ننھے اور کمزور ذہن ان نام نہاد ملاؤں کے مفاد کے چکر میں سولی تک جا پہنچے ہیں۔
ایک کم سن نوجوان کا اپنے استاد کو ابدی نیند سلا دینا کہاں کا دین ہے؟ اس کے ساتھ چند شر پسند عناصر کا ایک طالبعلم کے خلاف پروپیگینڈا کرنا اور لوگوں کا بغیر کسی تحقیق کے اسے اگلے جہان بھیج دینا کون سی دینی تعلیمات ہیں؟
حالیہ ہونے والا واقعہ جس میں احسن اقبال صاحب پر گولی چلائی گئی، بھی اسی بیج کا تنا آور درخت معلوم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کچھ عرصہ قبل آئین پاکستان میں ہونے والی ترامیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان تمام باتوں کے بعد اگر ایک نظر علمائے دین کی حرکات پر بھی ڈال لی جائے تو نتیجہ بہتر انداز میں نکلے گا۔ گذشتہ دنوں سرکاری سطح پر علماء کا اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں علمائے اکرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور کرسیِ صدارت اس شخصیت کو تھما دی جس کے خلاف سڑکوں پر محاذ آرائی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ دوسری جانب ادارے میں منعقد تقریب میں مہمانِ خصوصی اس شخصیت کو بلایا گیا جو آئین میں ترمیم کی ماسٹر مائنڈ تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انکی منافقت کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلا جائے یا پھر کچھ سوچ سمجھ کر حقیقت کو گلے لگایا جائے۔
زیرِ نظر ساری چیزیں جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ ایک طرف دوسرے کے پیچھے نماز سے روکنے والے، عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے نام پر کھلواڑ کرنے والے، انہی لوگوں کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے والے کہ جن کے خلاف ایک کہرام انہوں نے خود مچا رکھا ہے، کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھولی بھالی عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔