معاملہ نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کی ناموس یعنی ختم نبوت مبارک پر حملے سے شروع ہوا۔ یہ ایمانی و ایقانی معاملہ بڑا بلکہ بہت بڑا سیاسی ایشو بن گیا۔ حکومت نے ایسے حساس اور مقدس معاملے کو بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جس کی حفاظت کا ذمہ خود رب کعبہ نے اپنے ذمہ لیا۔ حکومتی بنچوں پر برا جمان “جید” عقل سے فارغ ثابت ہوئے، ان کی عقلوں پر پردہ کیسے پڑا، ان کے لیے حق کو سمجھنا بلکہ محسوس کرنا کیوں ناممکن ہو گیا، معاملہ فہموں کی فہم و فراست کدھر گئی، میڈیا کو بیساکھیاں بنانے والے انہی کو کاٹنے پر کیسے تل گئے، جوڑ توڑ کے گروز جُڑ کر بیٹھنے کے باوجود کیسے شمع رسالت کے پروانوں کے جائز مطالبے کا پُرامن حل کیوں نہ مان سکے؟ اللہ و رسول سے کھلی جنگ کرنے اور ہٹ دھرمی پر بٹ کیسے گئے قرآن و حدیث کے بیان سے آپ بھی سمجھ لیجئے؛
ختم اللہ علیٰ قلوبھم و علیٰ سمعھم وعلیٰ ابصارھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔(البقرہ، آیت 7)
اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم و سمعھم وابصارھم
ترجمہ:یہ وہ لوگ جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے۔ (النحل: آیت 108)
فبما نقضھم میثاقھم لعنھم وجعلنا قلوبھم قسیۃ
ترجمہ: تو ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔ (المائدہ آیت 13)
کلا بل ران علیٰ قلوبھم ما کانو یکسبون
ترجمہ: ہرگز نہیں! بلکہ ان کے کرتوتوں نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا۔ (المطففین: آیت 14)
صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا”جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نشان ہو جاتا ہے ، پس اگر وہ توبہ کرے، اس گناہ سے باز آئے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ زیادہ گناہ کرے تو وہ سیاہ نشان زیادہ ہو جاتے ہیں اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے کلا بل ران علیٰ قلوبھم ما کانو یکسبون(المطففین:14) ۔
ختم نبوت کے اس ازلی ضابطے یعنی اللہ تعالیٰ کے قانون اور پھر آئین پاکستان میں چھیڑ چھاڑ کرنے والے خدا اور مخلوق خدا کی گرفت میں آ گئے۔ نام نہاد “مقتدر” اراکین کی چوری ، اوپر سے سینہ زور پکڑی گئی، جھوٹ پہ جھوٹ بھی نہ چھپ سکے، یو ٹرن اور آپسی اختلافات کے ڈرامے بھی زیادہ دیر نہ چل پائے، ایک مذہبی جماعت کو نومولود اور سیاست سے نابلد سمجھ کر ہلکا لیا، اسی تحریک کے چیئرمین کو علامہ حافظ خادم حسین رضوی کو اسلام آباد آنے دیا، بے یارو مددگار سمجھا گیا۔ ان کے ہزاروں پیروکار ان کے کہنے پر وہاں جمع ہونے لگے، افسوس! حکام تماشائی بنے رہے۔ بڑے بڑے جوڑ توڑ کرنے اور معاملات سلجھانے والے مزاکرات میں ناکام رہے۔
دھرنا مظاہرین کا صرف ایک جائز مطالبہ نہ مانا کہ دین اور آئین کی روح ختم نبوت میں چھیڑ چھاڑ کی ناپاک جسارت کیوں کی گئی، کس نے کس کے کہنے پر کی، چوری پکڑی جانے کے باوجود “کچھ نہیں ہوا ، کچھ نہیں کی رَٹ” یعنی قوم کی آنکھوں میں دھول کیوں جھونکی گئی، صرف جرم نہیں بلکہ اس ظلم کو پھر دبانے کی کوشش کی گئی ۔ دھرنے کا بیسواں روز یعنی 25 نومبر بروز ہفتہ صبح ساڑھے سات بجے دھرنا مظاہرین کے خلاف شروع کر دیا۔ 2 گھنٹے میں آپریشن مکمل کرنے والے وزیر داخلہ احسن اقبال کا دعویٰ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی تو حکومتی پارٹی کے اپنے ہی ایم پی اے اور ایم این ایز ، پولیس اہلکار ، حتیٰ کہ نامی گرامی کارکن گلو بٹ نے بھی ظلم و بربریت اور قتل و غارت کے ذمہ داران پر لعن طعن کرتے ہوئے اپنے لیڈران کے منہ پہ استعفوں کی صورت تھوک دیا۔ ٹھنڈے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں میں رہنے والے بڑے عہدوں کے بدمست ہاتھیوں کے دماغ بھی سُن ہو گئے۔ عکس کے برعکس، عمل کا ردعمل کسی کو سمجھ نہ آیا۔ لمبی بیٹھکیں اور طویل جرگے سب بے سود گئے۔
وزارت دفاع کی طرف سے پاک فوج کو ٹرپل ون برگیڈ کی صورت امداد بھیجنے کی چٹھی لکھی۔ یہاں بھی ان کی مت ماری گئی۔ پاک فوج کو بھی صوبائی پولیس سمجھا، تین سال پرانے کسی خط کو کاپی تو کیا لیکن عجب عجلت میں پرانی تاریخ نہ بدل سکے، کتنی ڈویژن یعنی نفری چاہیے یہ بھی نہ لکھ سکے۔ اس پر بھی بدترین شکست و ندامت ہوئی۔
ہر محاذ پہ نامراد رہنے والے، یہ نامراد اس وقت ریاستی بنیادوں میں بیٹھ گئے جب انہوں نے ریاست کے پانچویں ستون صحافت کو نشانہ بنایا۔ ٹی وی چینلز اور تمام سوشل میڈیا پر پابندی لگا کر حق کا گلا دبایا۔ ایک اور حماقت کی یعنی بڑا محاذ کھول لیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی وفاقی وزیر قانون زاہد حامد سے ملاقات کے بعد 2 وزیروں کے ممکنہ استعفوں کے بعد “شریف اصغر” نے دعویٰ کیا کہ وہ تو پہلے ہی اس حق میں تھے کہ ختم نبوت کے قانون میں چھیڑ چھاڑ کرنے والے ذمہ داران کو سزا دی جائے۔ ساتھ ہی استعفے کا مطالبہ کرنے والی دھرنا جماعت کے خلاف کارروائی کو مسترد کیا۔ دوسری جانب “ہر” خبر سے بے خبر وزیر احسن اقبال نے نام نہاد آپریشن کے حوالے سے اپنی تمام تر ناکامیوں کا نزلہ عدالت پر گرا دیا۔ معصومانہ انداز میں کہنے لگے کہ وہ اس آپریشن سے بے خبر تھے۔ مقامی انتظامیہ نے عدالتی حکم کو مانا ہے۔
ان سے پہلے تقریبا چار سال تک اسی وزارت کے مزے لوٹنے والے چوہدری نثار بھی احسن اقبال پر پھٹ پڑے۔ کچا چھٹا کھول دیا کہ احسن اقبال اپنی نااہلی چھپا رہے ہیں۔ یعنی بے ایمان حکمران جماعت میں کوئی کمان اور کوئی پلان نظر نہیں آ رہا۔ سارا شیرازہ بکھر چکا ہے۔غلطی پہ غلطی ،،، ہٹ دھرمی پہ ہٹ دھرمی اور حماقت پہ حماقت ۔ ۔ ۔