یوم آزادی پر ہر طرف مبارکباد کا سماں تھا۔ بلا شبہ یوم آزادی خوشیوں کا تہوار ہے۔ ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور فخر ہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ ہمارا جینا مرنا پاکستان ہے۔ بیس کروڑ عوام کے نہ تو بیرون ملک اثاثے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس بیرون ملک جانے کے وسائل۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں پاکستانی ہی رہنا ہے۔ ایک طرف یوم آزادی پر جشن آزادی مبارک کے پیغامات تھے دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کا پیغام ملا کہ وہ یوم آزادی کے بعد پنجاب بھر کے اسپتالوں کی ایمرجنسی بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں حیران اور پریشان تھا کہ یوم آزادی پر ہمارے یہ پڑھے لکھے بچے ہمیں کیا پیغام دے رہے ہیں۔ وہ ایمرجنسی بند کرنے کے اعلان کو ایسے بتا رہے ہیں جیسے کوئی بہت فخر کا کام کرنے جا رہے ہوں۔
ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی ایسا جرم کرتا ہے تو وہ اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی کو علم نہ ہو کہ اس نے یہ کام کیا ہے لیکن ہمارے بچے یہ ینگ ڈاکٹرز اب اتنے سنگدل ہو گئے ہیں کہ اپنے چند مطالبات کے لیے اسپتالوں کی ایمرجنسیاں بند کر کے اس کا فخریہ اعلان بھی کر رہے ہیں۔ ہم نے تو یہ پڑھا ہے کہ اسپتال تو جنگ کے دوران بھی بند نہیں ہوتے۔ دشمن جب ہر طرف بمباری کرتا ہے تو اسپتالوں پر بمباری اور حملہ منع ہے۔ امریکا نے افغانستان میں جب ایک اسپتال پر بمباری کی تو امریکا کے صدر کو اس پر معافی مانگنی پڑی۔ لیکن ہمارے یہ بچے نہ جانے جنگ کے اصول بھی بھول گئے ہیں۔ ان کی محکمہ صحت کے ساتھ جنگ ہو تب بھی ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ انسانیت اور جنگ کے مروجہ اصولوں کے تحت اسپتال بند نہیں کر سکتے۔
پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کو اب چودہ روز ہو گئے ہیں۔ ہزاروں آپریشن التوا کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ ینگ ڈاکٹرز اسپتال بند کروانے کے لیے کوشاں ہیں اور محکمہ صحت اس ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے اسپتال کھلے رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ عجیب صورتحال ہے، عجیب بے بسی ہے، ایک ڈیڈ لاک ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے۔ حکومت پنجاب کو اب ان ینگ ڈاکٹرز اور ان کی ہڑتال کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ روز روز کا تماشہ بند ہونا چاہیے۔ اس کا ایک ہی مرتبہ پکا حل ہونا چاہیے۔ایک طرف تو ن لیگ کی قیادت اس ملک کی طاقتور اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کی بات کر رہی ہے۔ ووٹ کی حرمت کی بات کر رہی ہے اور دوسری طرف ان ڈاکٹرز سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ جب آپ ان ڈ اکٹرز سے نبٹ نہیں سکتے تو اسٹبلشمنٹ سے کیا لڑیں گے۔ آپ ہماری جان نہیں بچا سکتے اسپتال کھلے نہیں رکھ سکتے ہمارے ووٹ کی حرمت کی کیا حفاظت کریں گے۔ یہ ینگ ڈاکٹرز اب عوام اور حکومت دونوں کو بلیک میل کرنے پر آگئے ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ پنجاب حکومت کس مخمصے کا شکار ہے۔ پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہے۔ یہ وہ واحد موضوع ہے جس پر عوامی رائے عامہ بھی حکومت کے ساتھ ہے ۔ میڈیا بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ چودہ دن کی ہڑتال میں عوام کا صبر قابل دید ہے۔ میڈیا کی جانب سے ہڑتال کی مذمت کی گئی پھر بھی حکومت طاقت نہیں پکڑ رہی۔ کیوں پنجاب اسمبلی میں ایک سخت قانون نہیں لایا جاتا جس میں اسپتالوں میں کسی بھی قسم کی ہڑتال اور علاج معالجہ کی سہولتوں میں خلل ڈالنا ایک دہشت گردی جیسا جرم قرار دے دیا جائے۔ اسپتال میں ہڑتال کی سزا دہشت گردی کی سزاؤں کے برابر کی جائے۔
کیوں نہیں پنجاب حکومت مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر اسپتالوں میں ہڑتال کرنے والی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتی۔ کیوں نہیں ہڑتال کرنے والے ہر ڈاکٹر کی تمام ڈگریاں یک جنبش قلم منسوخ کرنے کا قانون بنایا جاتا تاکہ ہڑتال کرنے والے یہ ڈاکٹر ڈاکٹر ہی نہ رہیں۔آپ یقین کریں اس قانون سازی کو نہ صرف پنجاب کے عوام بلکہ پورے ملک سے بے پناہ پذیرائی ملے گی۔ کوئی اس قانون کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ کیونکہ اس قانون کی عوام خود حفاظت کریں گے۔ پنجاب ہمت تو کرے باقی صوبے اس کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اگر ہم دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے نئے قوانین بنا سکتے ہیں۔ ملٹری کورٹس بنا سکتے ہیں۔ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں تو ڈاکٹرز کی ہڑتال سے نبٹنے کے لیے ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ یہ بھی انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔ میری نظر میں دونوں ہی برابر کے سنگدل ہیں۔ کسی بھی ایک معصوم شخص کی جان لینے والا دہشت گرد ہے، وہ خود کش ہے یا کوئی اور پڑھا لکھا شخص،دونوں برابر ہیں۔ ویسے تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حکومت پنجاب نے ان ینگ ڈاکٹرز کے آگے نہ جھکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہڑتالی ڈاکٹرز کو نوکری سے فارغ کیا ہے۔ یا کم از کم ان کے خلاف ڈسپلنری ایکشن شروع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ کم ہے۔ ان کے خلاف اس سے بھی زیادہ سخت ایکشن ہونا چاہیے۔
اس ضمن میں قانونی سقم دور کر کے فوری طور پر نئی قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مفادات کی اندھی ہوس میںمیرا اور آپکا خون کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ جب میں پوچھتا ہوں کہ میرا کیا قصور ہے تو کہتے ہیں کہ حکومت کو کہو ہماری بات مانے۔ میں حکومت کو یہ کیوں کہوں کہ آپ کی بات مانے، وہ آپ کو قانون کی زبان سے آپ کو آپ کا بھولا ہوا سبق کیوں نہ یاد دلائے کہ مریض کا علاج آپ کا فرض ہے اور فرض میں کوتاہی کی سزا جیل ہے۔ بس جیل ہے۔ بس جیل ہے۔