لاہور (ویب ڈیسک) تمام رکاوٹیں دور کرتے اور سازشیں ناکام بناتے ہوئے عمران خان کی قیادت میں حکومت عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کیلئے آگے بڑھتی جارہی ہے۔50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ جو کئی دانشوروں کی دانست میں ناقابل عمل تھا وہ منصوبہ اب شروع ہونے کے بعد پایا تکمیل کی طرف گامزن اور نامور کالم نگار محمد یاسین وٹو اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینی طور پر پانچ سال سے قبل مکمل ہوتا نظر آرہا ہے۔جدید ٹیکنیکس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک ہفتے میں ایک منزل بن سکتی ہے۔ پچاس ہفتے میں 50 منزلیں۔چین اس ٹیکنالوجی کو گوادر میں استعمال کر رہا ہے۔ گوادر میں چین نے ایک شاپنگ مال 5 ماہ میں تعمیر کیا ہے۔ شاپنگ مال پر 2، 3 سال لگ سکتے تھے۔ عمران خان کے وژن کے حامل پچاس لاکھ گھر زیادہ تر کچی آبادیوں میں بنیں گے، ان میں زندگی کی ضرویات واش روم، کچن، گیس،پانی بجلی سمیت تمام ضروریات میسر ہونگی جس سے یقینا عام آمی کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہاؤسنگ پراجیکٹ سے 40 انڈسٹریاں جڑی ہیں اور40 مزید جڑیں گی جس سے عمران خان کاایک کروڑ ملازمتوں کا ہدف بھی پوراہوسکے گا۔وزیراعظم نے جے ڈبلیو فور لینڈ کار پلانٹ کاافتتاح بھی گزشتہ روز کیا۔وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ پہلے فیز سے 8ہزار لوگوں کو روزگار مل رہا ہے اور بالواسطہ 40ہزار مزیدلوگوں کو روزگار ملے گا۔فیصل واوڈا نے اپنے طور پر دوستوں سے ملکر ملازمتیں دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے،عمران خان کے دیگر ساتھی بھی ان کے وژن کو عملی شکل دینے کیلئے سرگرم ہے۔عمران خان اور انکے ساتھی اس عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوں تو ایک کروڑ ملازمتوں کا ہدف بھی پانچ سال سے قبل پورا ہوسکتا ہے۔حکومت اپنے ایجنڈے پروگرام اور منشور کے مطابق اپنی پالیسیوں کا نفاذ کر رہی ہے۔عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے جاری و ساری ہیں۔ ایسے منصوبوں کو ہر پاکستانی کی سپورٹ ہونی چاہیے ۔جس طرح قومی ایشوز پر یکجہتی ویگانگت ہوتی ہے، فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بھی ایسی ہی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔مگر اپوزیشن فلاحی منصوبوں تو کیا بعض قومی ایشوز پر بھی حکومت کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ عمران خان نے ایک دفعہ پھر لوٹ مار کرنے والوں کے کڑے احتساب کا دوٹوک اعلان کیا ہے وہ کسی طور پر کسی کو بھی این آرو دینے پرتیار نہیں۔لیگی حلقے باربار استفسار کرتے ہیں این آراو کون مانگ رہا ہے۔ شہباز شریف جس طرح سے پاکستان سے لندن چلے گئے اوروہیں ٹکے ہوتے نظر آتے ہیں، میاں نواز شریف عدالت جا کے لندن جانے کی ضد نما درخواست کر رہے ہیں۔ اب بھی یہ لوگ معصومیت سے کہتے ہیں کہ ان آر او کون مانگ رہا ہے۔عمران خان نے واضح کیا ہے کہ کرپشن سے دولت بنانے والوں کا برا حال ہوتا ہے، اس طرح دولت بنانے والا ایک بھائی لندن بھاگ گیا ،دوسرا کوشش کر رہا ہے۔آج واقعی لوٹ مار کے ذریعے پیسہ بنانے والوں کی حالت قابل رحم ہے۔مگرملکی ،قومی اور عوام کی پستیوں کے ذمہ داروں کے ساتھ وہ جس حال میں بھی ہو ںکسی رعایت کی ضرورت نہیں ہے۔یہی عمران خان کا اٹل فیصلہ اور عوام الناس کی خواہش ہے۔شہباز شریف جتنی مشکلوں سے قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بنے اتنی ہی آسانی سے یہ عہدہ چھوڑ دیا۔ اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا گیا ،مظاہرے ہوئے، پیپلزپارٹی شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنانے کیلئے مسلم لیگ نون کے شانہ بشانہ تھی۔ حکومت کو قانون سازی کے حوالے سے بلیک میل کرکے یہ عہدہ حاصل کیا گیا ۔ عمران خان شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بادل نخواستہ بنانے بنانے کوبھی اپنی غلطی قرار دیتے اور اس غلطی کے ازالہ شہباز شریف کو اس عہدے سے ہٹانے کیلئے کوشاں تھے۔ شہباز شریف نے انکی مشکل آسان کردی۔ شہباز شریف نہیں پارلیمانی لیڈر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا وہ لندن جا بیٹھے ، کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ وہ لندن جا بسے ہیں آج یا کل سیاسی پناہ کی خبر آسکتی ہے۔ مگر انکے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ جلد واپس آئیں گے ،انہوں نے جلد واپس آنا ہوتا تو اتنے بڑے فیصلوں کی ضرورت نہیں تھی ۔ جو فیصلے کیے گئے ہیں وہ بھی خاص ذہنیت کے عکاس ہیں۔ جس طرح وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو ان کی جگہ آصف علی زرداری بہت سے مقدمات میں مطلوب اور ماخوذ راجہ اشرف پرویز کو لے آئے تھے، اب شہباز شریف کی جگہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے شاہد خاقان عباسی کو سینئر نائب صدر اور مریم نواز سے سمیت 16رہنماؤں کو نائب صدر بنا دیا۔مریم نواز سزایافتہ اور الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہیں جبکہ نائب صدر بنائے جانے والوں میں بہت سے نیب کو مطلوب اور کرپشن کے سنگین مقدمات کی زد میں ہیں۔ ان میں خود شاہد خاقان عباسی اور نامزد پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف بھی شامل ہیں سزا یافتہ طلال چودھری اور حنیف عباسی پر نوازش کرکے قانون اور عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑایا گیا ہے،عدالتی مفرور اسحٰق ڈارکو بھی عہدے سے محروم نہیں رکھا گیا۔جہانگیر ترین کے کابینہ اجلاس میں شرکت پر طوفان اُٹھانے والے اب خاموش ہیں۔عمران خان کے عام آدمی کیلئے دل میں نرم گوشہ اور کرپٹ لوگوں کیلئے سخت اور غیر لچکدار رویئے سے علامہ اقبال کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ۔۔۔ رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن