تحریر : صباء اکرم
دنیا میں موجود تمام انسانوں کے درمیان کوئی نہ کوئی رشتہ ہوتا ہے۔ ایک انسان کے گرد بسنے والے لوگوں کے ساتھ مختلف رشتے ہوتے ہیں وہ خود ایک بیٹا، خاوند، باپ ،بھائی کے رشتے سے منسلک ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں بھی ہوتا تو ایک رشتہ ہوتا ہے انسانیت کا۔ لیکن ان سب رشتوں سے بڑھ کر ایک مضبوط رشتہ ہوتا ہے نکاح کا۔ میاں بیوی کے درمیاں وہ رشتہ ہوتا ہے جو نہ صرف ان کا جسموں بلکہ روحوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ تمام رشتہ داروں اور گواہوں کی موجودگی میں سب کی رضا مندی سے ایک لڑکی اور لڑکے کو نکاح جیسے مضبوط بندھن میں باندھا جاتا ہے لیکن بعد میں وہی رشتہ دار میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیاں پھیلا کر ان کی پرسکون ازدواجی زندگی کو اجیرن کردیتے ہیں۔
بعض اوقات نکاح جیسے مقدس رشتے کو آڑ بنا کر رشتہ دار اپنے پرانے گھریلو جھگڑوں کا بدلہ لینے لگتے ہیں پہلے اپنے اچھے اخلاق اور خوشامدی لہجے سے دوسروں کو رام کرتے ہیں اور رشتہ طے کرلیتے ہیں، رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکی کے والدین سے ان کی حیثیت سے زیادہ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں اور شادی کے بعد جاہلانہ باتوں اور ہرکام میں نکتہ چینی کرکے لڑکی کے احساسات کو مجروح کرتے ہیں ۔ ایک لڑکی شادی کے بعدنئے ماحول اور نئے گھر کے عادات واطوار کو سمجھنے کی بجائے روکھے اور سنگدل رویوں سے دلبرداشتہ ہوجاتی ہے لیکن نکاح جیسے مضبوط بندھن میں بندھی ہوتی ہے اس لئے اپنے جیون ساتھی کی خوشی کیلئے خندہ پیشانی سے سب کچھ برداشت کرتی چلی جاتی ہے۔
ایک عورت اپنی پوری زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے وہ لوگوں کے گرم و سرد رویے برداشت کرتی ہے لیکن اپنے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑتی ، لیکن بعض مرد دوسروں کی باتوں پر یقین کرکے اپنی شریک حیات سے متنفر ہوجاتے ہیں اور نکاح جیسے عظیم و مقدس رشتے کو طلاق جیسے نا پسندیدہ عمل سے آلودہ کردیتے ہیں ۔ جبکہ بعض اوقات میاں بیوی کی آپس میں کوئی ناچاقی نہیں ہوتی وہ اپنی زندگی میں خوش ہوتے ہیں ، لیکن انہیں خود سے جڑے رشتوں کا پاس رکھنا ہوتا ہے ۔ لڑکی کے والدین اپنی باتوں یا لڑائی جھگڑوں کا بدلہ لینے کیلئے لڑکی کو سسرال سے میکے لے آتے ہیں اور مختلف مطالبات کرتے ہیں جن میں سے الگ گھر کا مطالبہ سرفہرست ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ پرانی فضول باتوں کا بدلہ لیں گے لیکن ایسا کرنے سے وہ دو زندگیوں کی خوشیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ رشتہ داروں کی لڑائی میں میاں بیوی کے مقدس جذبات و احساسات کا مذاق بتایا جاتا ہے۔
ایک شادی شدہ زندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے لڑائی جھگڑوں سے ہمارے معاشرے میں بہت سے معاشرتی و اخلاقی مسائل جنم لے رہے ہیں آج کل کی نوجوان نسل جب نکاح کے بعد ہونے والے گھریلو جھگڑے اور مسائل دیکھتی ہے تو وہ اس اس مقدس رشتے کا نہ صرف مذاق اُڑاتی ہے بلکہ اس رشتے کو اپنی زندگی کی خوشیوں کا دشمن قرار دیتی ہے۔ بعض نوجوان تو اسے پھانسی کا پھندا بھی کہتے ہیں۔
ہم خود ہی اپنے جاہلانہ طرز عمل سے اپنے معاشرے میں برائیاں پھیلانے کے موجب بنتے ہیں ہماری نوجوان نسل جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے ناجائز تعلقات استوار کرتے ہیں، وہ مغربی معاشرے اور مغرنی کلچر کی تقلید کرتے ہیں ، جبکہ نکاح جیسے عظیم رشتے سے گریز کرتے ہیں۔ مسلم معاشرے میں ایسی برائیاں تب جنم لیتی ہیں جب گھریلو آرام و سکون لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ یہ لڑائی جھگڑے نوجوان نسل کے دل و دماغ پر برے اثرات چھوڑتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو نکاح جیسے مقدس رشتے کی اہمیت و قدر کرنا سیکھائیں اور اپنے بڑوں کو بھی پرانی باتیں بھلا کر دوسروں سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کریں۔ کیونکہ سچے اور پر خلوص رشتے وہ ہوتے ہیں جو ہمیں مفت میں مل جاتے ہیں لیکن ان کی قیمت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب یہ ہم سے کھو جاتے ہیں۔ رشتوں کی رسی کمزور تب ہوتی ہے جب انسان بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتا ہے، اس لئے اپنے ذہن کو ہمیشہ مثبت سوچ کی راہ پر چلانا چاہئے اور ایسے لوگوں کی اصلاح کرنی چاہئے جو دوسروں کی پرسکون زندگی میں فساد برپا کرتے ہیں تب ہی ہمارا معاشرہ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی منزل کا سفر طے کر پائے گا۔
تحریر : صباء اکرم