تحریر : رشید احمد نعیم
”ہیلو”
”رشید احمد نعیم ؟؟”
”جی بیٹا! بول رہا ہوں ”
”انکل مجھے کچھ کہنا ہے ”
”جی بیٹا ! بو لیے ”
”کیا آپ میری گزارشات اپنے کالم میں شائع کر دیں گے ؟” ”بیٹا! آپ بات کریں، قابلِ اشاعت ہوئیں تو پوری کوشش کروں گا کہ ان کو قرطاس پر بکھیر کر ایڈیٹر صاحب کی خدمت میں پیش کر دوں۔آگے ان کی مرضی اور صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اخبار کی زینت بناتے ہیں کہ نہیں۔ میرا شمار ابھی کالم نویسوں میں نہیں ہوتا۔ میں تو صحافت کا ادنی سا طالب علم ہوں۔ ابھی سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہوں مگر ایڈیٹر صاحب تک آپکی آواز پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا ” ” انکل! دراصل آپ سے اس لیے رجوع کیا ہے کہ آپ نے حال ہی میں ایک کالم بدعنوانی اور بدانتظامی کا دوسرا نام پنجاب ایگزمیشن کمیشن لکھا ہے جو ہم بچوں کو تو سمجھ نہیں آ سکا مگر اساتذہ اکرام کو یہ کہتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ حقائق کے مطابق لکھا ہے۔
امتحانات کے انعقاد کے سلسلے میں ہونے والی بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ اسی اخباری تراشے سے آپکا نمبر لیکر فو ن کر ر ہا ہو ں” ”جی بیٹا ! آپ با ت کر یں ” ”انکل ! میں اور مجھ جیسے لا کھو ں بچو ں نے پنجا ب ا یگز میشن کمیشن کے تحت پا نچو یں کا ا متحا ن دیا ہے اس میں جو سو ا لیہ پر چہ جا ت د ئیے گئے ہیں وہ ہماری ذہنی سطح سے مطا بقت نہیں رکھتے تھے ۔ ہم بچو ں کویہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ paper setterنے کس تر قی یا فتہ ملک کی سر ز میں پر بیٹھ کر کن امید واروں کو سا منے رکھ کر پر چہ جا ت تر تیب دئیے ہیں۔کیو نکہ سو الا ت کو اس قدر پیچید گی سے تیار کیا گیاتھا ۔کہ ٩ ١٠سا لہ بچے اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔
اگر اس امتحا ن کے ذر یعے اسا تذہ کی ا ہلیت و کا ر کر د گی جا نچنا مقصودہے تو پھر ہمیں قر با نی کا بکرا کیو ں بنا یا جا رہا ہے ؟؟ براہ راست اسا تذہ سے ٹیسٹ لیا جا ئے اور ان کی تر قی واپ گر یڈیشن اس ٹیسٹ سے مشر وط کی جا ئے مگر اسا تذہ کی گر دن زنی کے لیے ہمیں بطور سیڑھی استعمال نہ کیا جا ئے۔ اگر اس امتحان یا ٹیسٹ کو بنیاد بنا کر اہمارے مستقبل پر کُند چھری چلانی ہے تو پھر ہم بچوں کا مطالبہ ہے کہ یہی ٹیسٹ ارکانِ اسمبلی سے بھی لیا جائے اور اُن کی اسمبلی رکنیت کو اِسی ٹیسٹ کی کامیابی سے مشروط کر دیا جائے۔
ہم سو فیصد دعویٰ سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ 70/80 فیصد ارکانِ اسمبلی اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے اور انشاء اﷲ ٹیسٹ میں ناکامی کی صورت میں اسمبلی نشست سے محروم ہونے والوں میں ہما رے وزیرِتعلیم سرِفہرست ہو ںگے انگلش بی کا سوالیہ پر چہ جو ہمیں دیا گیا ہے وہ تر قی یا فتہ مما لک کے بچے حل کر سکتے ہیں یا پھر مہنگے ترین سکو لز کے وہ بچے جنہیں پیدا ئشی طو ر پر ہی تمام سہو لیات ز ند گی اور تعلیمی ما حو ل میسر ہو تا ہے۔
پسماندہ علا قے سے تعلق ر کھنے والا طا لب علم روانی سے اردو بول اور لکھ نہیں سکتا ۔ انگلش میں مضمو ن نو یسی کے جو ہر کس طر ح د کھا ئے گا ؟کلاس پنجم کے لئے PEC کے دانشوروں کا بنایا ہوا انگلشB کا پیپر ہمارے سامنے آیا تو دیکھ کر اوسان خطا ہوگئے کیونکہ جو کچھ بھی یاد کیا ، لکھ لکھ کر دیکھا ،امی ابو کو زبانی سنایا ، نیند سے بوجھل آنکھوں کو جن جن سوالات پر گاڑا وہ سب روٹھ گئے۔
کتاب میں موجود سبھی اسباق نے منہ موڑ لیا ،یاد کی گئی کہانیاں اور مضامین ان دیکھی راہوں میں کھو گئے ، مشقوں میں دیئے سوالات یادِ ماضی بن کے رہ گئے اور سچ میں ایسے لگا جیسے ہمارا حافظہ واقعی چھن چکا ہے ہم طلبا اپنی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں طے شدہ مواد یاد رکھتے ہیں اسے باربار دہراتے ہیں تب جاکر اسے زبانی لکھ پانے کے قابل ہوتے ہیںہم میں سے 50 فیصد کی ابھی اردو میں بھی ایسی مہارت نہیں ہوتی چہ جائے کہ انگلش میں مضمون نویسی میں جوہر دکھانے کا مظاہرہ کیا جائے یہ فہم و فراست سے عا ری لوگ بچو ں کے مستقبل سے کیو ں کھیل ر ہے ہیں۔
خدا کے لیے پنجاب ایگزمیشن کمیشن کے منحو س ادارے کو ختم کیا جا ئے اور امتحا نات کا نظا م محکمہ تعلیم کے سپرد کیا جائے ورنہ تعلیمی قا بلیت واہلیت دم تو ڑجائے گی اور تعلیم جیسی بنیا دی ضرورت غریب کے لیے خواب وحسر ت کا روپ دھار لے گی۔کیونکہ اس طر یقہ ِامتحان میں کا میابی کا انحصار اہلیت وقابلیت یا تعلیمی صلا حیت پر نہیں ہے بلکہ ”تیرتُکا” یا دولت پر ہے۔
نوٹوں کی بر سا ت یا سفارش کی نو ازشات کے سا ئے تلے کا میابی کے میڈل سینے پر سجا ئے جا رہے ہیں ”نوٹ وکھا میرا مو ڈ بنے”کی ضرب المثل شا ید اسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر تخلیق کی گئی تھی۔
ہم بچوں کی وزیر اعلی پنجاب سے درخواست ہے کہ امپو ر ٹڈملا زمین پر نہیںبلکہ مقامی ما ہر ین ِتعلیم پر مشتمل ایک تحقیقا تی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس بات کا جا ئزہ لے کہ پانچو یں جماعت کے سوالیہ پرچہ جات بچوں کی ذہنی سطح سے مطا بقت رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگرجواب نفی میں آئے تو پھر ہماری اور ہمارے والد ین کی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو نے کی خواہش کے ان قا تلو ں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے جو کرتے کراتے کچھ نہیں اور قومی خزانے کو بھاری تنخوا ہوںاور مراعات کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں انکل اب تو ہماری مظلو میت پر کسی شاعر نے نظم بھی لکھ ڈالی ہے۔
پرچہ انگلش 5 th کلاس
بچے بیٹھے سب حیران اے ہے Pec دا امتحان
انگلش دا جد پرچہ ہویا کلا کلا بچہ رویا
منہ اُس ہنجواں نال ہے دھویا سمجھ نہ آوے کدرے جان
اے ہے Pec دا امتحان
ہر پرچے دا معیار تے ویکھو دو دھاری تلوار اے دیکھو
بچے رون تے تکن سانوں اک لفظ اے لکھ نہ پان
اے ہے Pec دا امتحان
ہرسوال سی اک پہاڑ اینی ڈاڈھی مار نہ مار
بچے دا وی تک معیار صدقے جانواں تیرے جوان
اے ہے Pec دا امتحان”
بچے کی بات سن کر میں تو حیران ہوں کہ کیا بولوں؟ جس ملک میں پوری اتھارٹی بھرپور اختیارات کے باوجود PIA کے ورکرز کی طرف سے کی گئی ہڑتال کو ٹھیک طرح سے Manage نہ کر پائے، جہاں دہشت گردی کا جن منہ زور گھوڑے کی طرح بے قابو ہو،جہاں مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہ لیتا ہو، جہاں بے روزگاری لوگوں کی جان لے رہی ہو، جہاں ملازمین اپنی پروموشن کا انتظار کرتے کرتے ریٹائر ہو جائیں،جہاں روٹھ کر گھر سے نکلی ہوئی کرکٹ سالوں واپس نہ لائی جا سکے، جہاں پی ایچ ڈی،ایم فل اور میٹرک سبھی کو ایک ہی پلڑے میں رکھا جائے، جہاں اساتذہ کو اپ گریڈیشن کی جھوٹی سچی خبروں میں الجھانے میں فخر سمجھا جائے ،جہاں سائنسدان اور ناخواندہ کا و وٹ وزن میں برابر ہو، اگر ہم یہ سب برداشت کر سکتے ہیں تو وہاں 9 سال کے پانچویں کلاس کے طلبا کو نصاب میں سے پیپر دے دیا جاتا تو کوئی آسمان نہ ٹوٹ پڑتا اور نہ ہی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا۔
تحریر : رشید احمد نعیم
ایڈریس………………. صدر الیکٹرونک میڈیاحبیب آباد پتوکی
موبائل نمبر…………….0301.4033622
شناختی کارڈ نمبر………… 35103-04046892-7
ای میل…………………rasheed03014033622@gmail.com