تحریر : شاہ فیصل نعیم
خود طالب علم ہوتے ہوئے میں اپنی زندگی میں جن طالب علموں سے متاثر ہوا وہ اُن میں سے ایک تھی ۔ دنیا کے ٢٥ سے زائد ممالک گھوم چکی تھی، ٧ زبانوں پر عبور حاصل تھا اور مزید سیکھنے کاجنون، شاید ہی زندگی میں کبھی دوسرے نمبر پر آئی ہو، بزنس ٹائیکون بننا اُس کا مقصد تھا اور کروشیا میں٦ ماہ کے لیے اپنے ملک قزاقستان کی نمائندگی کر رہی تھی اور میں پاکستان کی۔اُس کا نام کافی لمبا تھا جس کا تلفظ میری کافی تگ ودو کے باوجود ٹھیک ادا نہیں ہوتا تھا میں نے اُس سے کہا: “یار اپنے نام کے معاملے میں کوئی درمیانی راستہ نکالو ۔ یہ مجھ سے ٹھیک طرح ادا نہیں ہوتا آپ مجھے اپنا نِک نیم بتا دو تو آسانی ہوگی”۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی : “شاہ! آپ مجھے نازا کہہ سکتے ہو”۔
جب بھی اُس سے کلاس میں ملاقات ہوتی یا باہر کہیں میرے پاس بیٹھتی تو اپنی محبوب ڈائری میں کچھ نا کچھ لکھ رہی ہوتی اب مجھے تجسس لگا رہتا کہ ناجانے یہ کیا لکھتی رہتی ہے کوئی کہانی یا سفر نامہ تو معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک تو کسی کی ڈائری پڑھنا بُری بات اور اُوپر یہ عذاب کہ ڈائری ایک ایسی زبان میں لکھی ہو جو آپ کی سمجھ سے باہر ہو۔ ایک دن میں نے اُس سے پوچھ ہی لیا: “نازا! کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں”؟ وہ میری طرف متوجہ ہوئی: “کیوں نہیں شاہ”۔ “یہ آپ ہر وقت ڈائری میں عجیب و غریب الفاظ میں کیا لکھتی رہتی ہو”؟ وہ مسکراتے ہوئی کہنے لگی : “او مائی ڈئیر شاہ! میں نے یہ مہینہ ختم ہونے تک کون کون سے اہداف حاصل کرنے ہیں ، کون سا کام کب کرنا ہے اور ہر کام کے لیے کتنا وقت دینا ہے وہ سب میں نے یہاں تفصیل سے لکھا ہوا ہے”۔
پھر وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگی: “شاہ ! تمہیں پتا ہے کہ اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر ایک گھنٹہ اپنا ٹائم پلان کرنے پر لگائیں تو ہم روزانہ کے ٢٤ گھنٹوں میں ایسے ٧ گھنٹے بچا سکتے ہیں جو ٹائم مینج نا کرنے کی وجہ سے روز ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں کافی عرصہ سے یہ پریکٹس کر رہی ہوں اور آہستہ آہستہ میرا دماغ چیزوں کو خودپلان کرنا شروع کر دے گا جس کی وجہ سے میرا وہ ایک گھنٹہ بھی بچنا شروع ہو جائے گا جو مجھے ٹائم پلان کرنے کے لیے لگانا پڑتا ہے”
یہ بڑے پتے کی بات ہے اگر آپ کو اس کی سمجھ آجائے تو آپ اپنے وقت یعنی زندگی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گزار سکتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کم ہی ناکام ہوتے ہیں پھر وہ پلان چاہے کامیابی کے لیے ہوں یا ناکامی کے لیے۔
ہم ہر روز اپنا بہت سارا وقت جو پلاننگ نا ہونے کی وجہ سے فضول کاموں میں اُلجھ کر ضائع کر دیتے ہیں اُس کو کام میں لاکر مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ چاہے آپ طالبِ علم ہیں یا پھر روزگار کے لیے تگ ودو کرتے انسان آپ اپنی گزرتی اور گزرنے والی زندگی پر غور کر سکتے ہیں آپ اپنی زندگی کو ایک پلان میں ڈال کر اس سے کہیں بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں جو ابھی تک آپ نے کیے ہیں۔ آپ ہر روز سکول ، کالج، یونیورسٹی یا دفتر جاتے ہیں ان اداروں تک پہنچنے کے لیے آپ کو کتنا وقت لگتا ہے؟۔
آپ وہ وقت کیسے گزارتے ہیں؟ کیا آپ گاڑی میں بیٹھ کر روڈ سے گزرتی گاڑیوں کو دیکھتے رہتے ہیں؟ کیا آپ سڑک کنارے لگے سائن بورڈ ز کودیکھتے رہتے ہیں؟یا کچھ اور کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آرہی۔ اب یہاں رکیں اور ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ آپ اس وقت کو کیسے کارآمد بنا سکتے ہیں؟ آپ اپنی فیلڈ سے متعلق کوئی کتاب پڑھ سکتے ہیں، کوئی لیکچر سن سکتے ہیں، کوئی کام مکمل کرسکتے ہیں یا کچھ اور۔
آپ اپنے پاس ایک پاکٹ سائز ڈائری رکھیں جس میںآپ ہفتے یا مہینے کو آپ نے کیسے گزارنا ہے ؟ تحریر کریں۔ہو سکتا ہے آپ کو ابتدا میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ وقت کو ایسے ترتیب دینے کے عادی ہو جائیں گے اور یہ عادت آپ کی زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ آپ اپنے طور پر ایک چھوٹا سا سروے بھی کرسکتے ہیں۔ اُن لوگوں پر جو زندگی کو پلان کے تحت گزار رہے ہیں اور جو پلان کے بغیر۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ وہ لوگ جو زندگی کو بغیر کسی پلاننگ کے گزار رہے ہیں اُن کے ہاں مسائل ہی مسائل ہیں اور ایسے مسائل جو اُنہوں نے خود اپنے لیے پیدا کیے اور پھر خود ہی اُن کا شکار ہو گئے۔
تحریر : شاہ فیصل نعیم