تحریر: نعیم الرحمان شائق
جب سے ہمارے ہونہار طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوئے ہیں ، اخبارات نے “پکڑے گئے” جیسے لاحقے والی خبریں شائع کرنا شروع کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر،”اردو کے پرچے میں 24 طلبہ نقل کرتےہوئے پکڑے گئے ” ، “حیاتیات کے پر چے میں 10 طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے” وغیرہ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ایسی خبریں بالکل اچھی نہیں لگتیں اور اچھی لگنی بھی نہیں چاہئیں ۔ کیوں کہ ان خبروں سےہمارے ذہین ، ہو ش یار ، لائق اور ہونہار طلبہ و طالبات کی شرمندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ، مگر مستقبل کے معماروں کی ایسی بے عزتی ہر گز ۔۔ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔
جس طرح ڈگری، ڈگری ہوتی ہے ، چاہے وہ اصلی ہو یا نقلی ، بالکل اسی طرح امتحانات ،امتحانات ہوتے ہیں۔ پرچے ، پرچے ہوتے ہیں ، چاہے ان کو نقل کر کے پاس کیا جائے یا بغیر نقل کیے۔ہمیں نقل کرنے والے اور نقل نہ کرنے والے ۔۔۔ دونوں قسم کے طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ کیوں کہ جتنے نقل نہ کرنے والے بچے مستقبل کے معمار ہیں، اتنے ہی نقل کرنے والے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں ۔ ہمیں دونوں قسم کے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کسی بھی قسم کے بخل سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ ویسے بھی بخیل آدمی کو کوئی پسند نہیں کرتا ۔ جو بچے بغیر نقل کیے امتحانات دیتے ہیں ، وہ ہمارے لیے قابل ِ فخر ہیں اور جو نقل کر کے امتحانات پاس کرتے ہیں ، وہ بھی ہمارے لیے قابل ِ فخر ہیں ۔ بلکہ وہ زیادہ قابل ِ فخر ہیں ، جو “بے چارے ” نقل کے ذریعے امتحانات پاس کرتے ہیں۔
اگر آپ نقل کے سخت نقاد ہیں تو ضرور باضرور آپ کو کسی ایسے امتحان گاہ کی ضرورت ہے ، جہاں نقل کے بغیر ہمارے مستقبل کے معماروں کے لیے ایک لفظ لکھنا بھی جوئے شیر لانے کے مساوی ہوتا ہے۔ یقینا ایسے امتحان گاہ کی سیر کے بعد آپ نقل کے سب سے بڑے حامی بن جائیں گے ۔ حامی کیا۔۔ بلکہ نقل کے “مبلغ” بن جائیں گے اور مستقبل کے معماروں کو اس “کار ِ خیر” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بھر پور تاکید کریں گے۔ کیوں کہ ایسے امتحانی مرکز کا منظر ہی عجیب ہوتا ہے ۔ بچے ہمہ تن مصروف ِ کار نظر آتے ہیں۔ کبھی یہاں جھانکتے ہیں تو کبھی وہاں۔ کبھی یہاں سے کوئی “پرّا” لیا تو کبھی وہاں سے۔ کبھی واٹس اپ کے ذریعے اپنے پرانے دوستوں اور “ہم عمر” اساتذہ کرام سے مدد لی تو کبھی اسکول کے “ہم درد” پرنسپل کو فون کرکے نگران کی سخت گیری کی شکایت کر دی۔
کبھی کبھار اسمارٹ موبائل کے ذریعے آگے بیٹھے ہوئے “مستقبل کے معمار” کی کاپی کی تصویر کھینچ کر وہی سب کچھ اپنی کا پی میں لکھنا شروع کر دیا ۔ طلبہ کی اس “مصروفیت” سے بڑے بڑے لوگوں کا دل پسیج جاتا ہے ۔ نقل کے بڑے بڑے نقاد ،اس کے حامی بن جاتے ہیں۔
نقل کرنا بھی ایک آرٹ ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آرٹ اظہار چاہتا ہے ۔آرٹ بڑا حساس ہوتا ہے ۔ اگر اس کو اظہار کا موقع نہ ملے تو یہ فورا مر جاتا ہے ۔اگر آپ نقل کر آرٹ نہیں سمجھتے تو آپ کو “نقال طلبہ ” کے امتحان گاہ کی سیر کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ جب آپ وہاں کی ہوا کھائیں گے اور ہو نہار بچوں کو نقل کا آرٹ استعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے تو خود بہ خود ہمارے خیال سے متفق ہو جائیں گے ۔ جو لوگ تعلیمی سرگرمیوں میں نقل کے مخالف ہیں۔
دراصل وہ ایک ایسے آرٹ کی موت چاہتے ہیں ، جو ہمارے ہو نہار ، ذہین اور لائق طلبہ و طالبات کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے ۔ قارئین انصاف سے کام لیں ۔کیا ایسے آرٹ کی موت واقع ہونی چاہیے ؟ بے شک اس سوال کے جواب میں آپ”نہیں “۔۔ بلکہ “ہر گز نہیں ” کہیں گے ۔ ہمارے خیال میں اپنے ہو نہار بچوں کی نقل کی طرف بڑھتی ہوئی والہانہ رغبت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے اس آرٹ کی خوب تشہیر ہونی چاہیے ۔ ہونہاروں اور مستقبل کے معماروں کو اس آرٹ کے اظہار کو بھر پور موقع دینا چاہیے ۔تاکہ ان کا آرٹ نہ مرے۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا: کراچی
رابطہ: 03212280942
ای میل:
shaaiq89@gmail.com