تحریر : شاہ بانو میر
یہ ایک گھر ہے جہاں ہماری طرح کی ایک فیملی رہائش پزیر ہے آج کافی بڑی تعداد میں پاکستانی اکٹھے ہیں وجہ ہے ایک حادثے میں اس خاتون کے دو بھائیوں کی المناک وفات ہم سب خاموش کہنے کو جیسے کوئی لفظ نہیں تھا – صبار شاکر خاتون بڑے حوصلے سے چیخوں کو حلق سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی – اور اسی لمحے اس کا چہرہ نجانے کیسے نیلا ہو جاتا برداشت کرنا بہت کمال کا ہنر ہے اتنے میں ان کی والدہ کا فون آتا ہے ممتا پے بے تحاشہ پیار آیا جب وہ بوڑہی ضعیف خاتون اپنے جگر گوشوں کے دکھ کو بھلا کر دیار غیر میں بیٹھی بیٹی کو کیسے دلاسہ دے رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں دیکھو دو ہی بھائی تھے تمہارے سوچو اللہ کی کیا رضا ہوگی باپ تمہارا نہیں ہے اگر ان میں سے کوئی بچ جاتا اور وہ کسی ایسی معذوری کا شکار ہو جاتا کہ ہسپتال میں طویل عرصہ رہنا پڑ جاتا تو کون رہتا ہسپتال؟ کیا تمہاری چھوٹی بہن اسکی دیکھ بھال کرتی؟ یا میں بوڑھی جان؟ حوصلہ کرو اللہ کے ہر کام می بہترین مصلحت ہوتی ہے
جو ہوا اس میں ہمارے گھر کی عورتوں کے اللہ نے پردے رکھے ورنہ نجانے کس کس کی منت کرنی پڑتی اس مصروف دور میں کوئی کتنی دیر تک کسی کیلئے وقت نکال سکتا ہے – جہاندیدہ خاتون کا تجربہ غم پر حاوی تھا – دور اندیش خاتون کی باتیں ہم سب بھی سن رہے تھے اور پھر جیسے ماں نے کچھ پڑھ کر کچھ کہا اور وہ خاتون جیسے پرسکون سی ہو گئیں پشاور سانحہ کے تقریبا جتنے شھداء کو اب تک دیکھا وہ ماشاءاللہ اچھے گھرانوں کے بچے لگ رہے تھے متمول اور تہذیب یافتہ پڑھے لکھے والدین کے بچے جن کے بچے بھی 2 تھے یا 3 اور ایسے میں بیٹا 1 ہی تھا وہ تو جیتے جی زندہ لاشوں میں بدل کر رہ گئے -جو شہید ہو گئے ان کیلئے حکومت وقت نے سکول کالج ان کے نام کر دیئے – ان کو شہداء کا خطاب مل گیا
وہ رہتی دنیا تک امر ہو گئے زندہ ہو گئے – وہ قومی ہیرو بن گئے – ان کے دوست احباب سب بڑے ہوں گے بوڑھے ہوں گے لیکن یہ ترو تازہ ایسے ہی اسی عمر میں تھم گئے – اور ہمیشہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے نسل در نسل ان کے خاندان میں پیدا ہونا اپنا فخر سمجھے گی – کیونکہ یہ دشمنوں کی سفاکی کی بھینٹ چڑھے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے – کچھ اس سکول میں شائد درمیانے طبقے سے بھی طالبعلم ہوں گے – یہ ایک ایسی ہی خاتون ہیں جو لباس سے سفید پوش دکھائی دے رہی ہیں – جو بتا رہی ہیں کہ ان کے بچے کا جسم علاج میں تساہلی کی وجہ سے معذور ہو گیا ہے – اوروہ بتائے ہوئے امدادی اداروں میں جاتی ہیں اس کا کیس لے کر تو اسکو ذلیل کیا جاتا ہے دھتکارا جاتا ہے
افسران شکل دیکھ کر کہتے اس مصیبت کو نکالو وہ رو رہی تھی کہ اسکا نوجوان بیٹا ح+غیرت سے روتا ہے جب وہ اس کے سب کام کرتی ہےاس کا بیٹا اپنی موت کی دعا مانگتا ہے- اللہ اکبر کیسا اذیت ناک واقعہ ہے – ایک طرف تو انعامات کی بھرمار دوسری جانب زخمی کوغازی کو محض غربت کی وجہ سےمناسب علاج کی سہولت بھی فراہم نہیں کی جا رہی؟ آج اتنے عرصے بعد یہ بات دماغ میں ایکدم ایک کلپ دیکھ کرتازہ ہوگئی -کہ بعض اوقات طویل معذوری سے شائد موت بہتر حل ہوتا ہے -یہ کلپ ہماری نمائشی سپورٹ دعووں کی قلعی کھول رہا تھا سانحہ پشاور کی مصیبت زدہ ماں رو رہی تھی بلک رہی ہے کلپ فیس بک پر پھیلایا جا رہا ہے اللہ کرے کہ کسی حکومتی نمائیندے کی نگاہ سے گزر جائے کسی نہ کسی طرح کسی موبائل میں یہ پیغام ریکارڈ کروانے میں کامیاب ہوگئی اس مختصر سے پیغام میں شھداء کے والدین کیلئے خاص طور سے ایک پیغام ہے کہ جو نقصان ہوا آپکا وہ تو کبھی کوئی بھی کسی طرح سے پورا نہیں کر سکتا رہتی
دنیا تک شہید بچے ہمارے ہیرو بنے رہیں گے ان کی توقیر وقت کے ساتھ بڑھے گی موت سب کو آنی ہے مگر وہ زندہ ہیں اور رہیں گے ذرا اس بچے کی جانب دیکھئے علاج میں حکومتی تساہل کے باعث آپکا بچہ بھی نوجوانی میں عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتا تو ایسے ہی گڑگڑاتے ہوئے آپ کو اس کیلئے اس ملک کے حکمرانوں کے سامنے رحم کی بھیک مانگنی پڑتی کیونکہ یہاں سب ڈرامہ ہے دھوکہ ہے ہر نقصان پر ہر نا اہلی پر ضروری نمائشی پروگرام سجا دیا جاتا ہے اور باقی آہ و بکاہ کو غریبوں کی عادت ہے شور مچانے کی یہی سوچ کر نظر انداز کیا جاتا ہے شہداء عظمت پا گئے اور جو ایسے معذور رہ گئے وہ زندگی کو گھسیٹ گھسیٹ کر جی رہے ہیں
آج ضمیر مضطرب ہے اس تفریق پر ایک ہی ملک ایک ہی شہر ایک ہی سکول ایک جیسے بچے ایک وہ کہ سارا ملک تعظیم کیلیے کھڑا اور ایک یہ کہ ضروری علاج معالجے سے بھی محروم کیوں؟ کیا موت یا ایسی زندگی جو آپ کے بچوں کی بھی قسمت ہو سکتی تھی؟ سوچیئے کونسا انداز بہترین ہے؟
تحریر : شاہ بانو میر