تحریر: رانا اعجاز حسین
خود پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کہتے ہیں کہ ملک میں برے طرز حکمرانی اور سفارشی کلچر نے جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، ہم اس بات کا تو رونا رو رہے ہیں کہ نجانے ملک سے کب سفارشی کلچر اور اقربا پروری ختم ہوگی اور ملک میں گڈ گورننس آئے گی، غریب عوام ایسے نظام کے لئے ترس گئے ہیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بدعنوانی کو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیماری ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، جس کا خاتمہ ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں اصلاح اور خود احتسابی سے ہو گا، دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔ گڈگورننس کے عمل کو مضبوط بنانے کیلئے اسکے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کردیں۔ مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے انصاف کی فراہمی بنیادی چیز ہے۔ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات میں 60 فیصد مقدمات سرکاری محکموں کی بے حسی، نااہلی اور بد انتظامی کا نتیجہ ہیں، 20 فیصد مقدمات بددیانتی پر مبنی ہوتے ہیں’ کرپشن اور منفی سوچ ان معاملات کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ معاشرتی خامیوں پر قابو پانے تک خوشحال اور اسلامی معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔”
چیف جسٹس صاحب کے بیان پر عوام پاکستان شکر گزار ہے کہ کوئی تو ان کے مسائل کو سمجھ کر ان کے جذبات کی ترجمانی کرتا نظر آیا۔حکومت تو طرز حکمرانی میں موجود خامیوں کو ماننے کے لئے ہی تیار نہیں ہے۔ ہر حکومت کو عوام کی اصلاح تو مقصود ہوتی ہے ، حکومتیں عوام کی اصلاح ، عوام میں قانون پسندی ، ایمانداری، دیا نتداری کے فروغ کے لئے کوششیں اور کاوشیں بھی کرتی ہیں ، مگر اپنی اصلاح اور عوام کے لئے رول ماڈل بننے پر قطعاً توجہ نہیں دی جاتی۔ جس طرح پہاڑوں پر پگھلنے والی برف کا پانی نیچے ڈھلوان پرندی نالوں سے ہوتا ہوا میدانوں اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے ، بالکل اسی طرح عوام میں قناعت، دیانت، امانت ، کفایت اور فرض شناسی کے احساسات حکمرانوں سے رعایا میں منتقل ہوتے ہیں ، کیونکہ ہمیشہ اصلاح احوال اور تبدیلی کی ترغیب ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے ، مگر اس اصول اور قاعدے کے برعکس ہمارے حکمران عوام سے تبدیلی اور متذکرہ اوصاف کے متقاضی نظر آتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام حکمرانوں کے پیروکار ہوتے ہیں ، حکمران جو رنگ اختیار کرتے ہیں ، عوام خود اس رنگ میں رنگتے چلے آتے ہیں ، حکمران جو ڈھنگ اپناتے ہیں عوام بھی اسے اپنا لیتے ہیں ۔ حکمرانوں کا جو مزاج ہوتا ہے ، عوام کا بھی وہی مزاج بن جاتا ہے۔ناقص طرز حکمرانی ، معاشرے میں پھیلی کرپشن کے باعث عوام بھی قانون کی دھجیاں بکھیرتے اور گراں فروشی کرتے نظر آتے ہیں۔
مشہور عربی مقولہ ہے کہ ” الناس علیٰ دین ملوکہم” کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں جیسا حکمران ہوتا ہے ویسی اس کی رعایا ہوتی ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہے، مسجد نبوی میں دربار خلافت لگا ہوا ہے ، جس میں خلیفہ سیدنا عمر فاروق داماد رسول سیدنا علی المرتضیٰ دیگر صحابہ کرام کے ساتھ موجود ہیں،اتنے میں مصر کے محاذ سے لشکر اسلام کے سپہ سالار کاقاصد مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ امیر المومنین کی خدمت میں لیکر حاضر ہوتا ہے ۔ سیدنا عمر فاروق قاصد سے خط لیکر پڑھتے ہیں ، جس میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں کو ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا ” امیر المومنین … الحمد اللہ میرے سپاہی اتنے دیانتدار ، زمہ دار، فرض شناس، اور خدا ترس ہیں کہ دوران جنگ اگر کسی مجاہد کو معمولی سی سوئی بھی ہاتھ لگی ہے تو وہ بھی میرے پاس جمع کروائی ہے اور کسی مجا ہد کو اشرفیوں کی تھیلی یا سونے کی ڈلی بھی ملی ہے تو وہ بھی اس نے اپنے پاس رکھنے کی بجائے مجھ تک پہنچائی ہے۔” سیدنا عمر فاروق جیسے جیسے خط پڑھتے جاتے آپ کی آنکھوں سے آنسو جھلکتے جاتے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک آنسوؤں سے ترہوجاتا ہے ۔ سیدنا علی امرتضیٰ یہ صورتحال دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محاذ جنگ سے شاید کوئی بری خبر آئی ہے جس نے امیر المومنین کو پریشان اور دکھی کردیا ہے ۔
آپ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں امیر المومنین سیدنا عمر فارو ق سے دریافت فرماتے ہیں یا امیر المومنین ! خیریت تو ہے آپ کیوں رورہے ہیں ؟ سیدنا عمر فاروق سیدنا علی المرتضیٰ کی فکر مندی دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے بھا ئی یہ خوشی کے آنسو ہیں ۔ یہ کہہ کر آپ خط حضرت علی کے حوالے کردیتے ہیں ، حضرت علی ساری صورتحال جاننے کے بعد علم و حکمت پر مبنی وہ ایمان افروز تبصرہ ارشاد فرماتے ہیں جو رہتی دنیا تک ایک ایماندار اور صاحب کردار حکمران اور اس کی ٹیم کی پہچان اور شناخت قرار پاتا ہے۔ سیدنا علی الرتضیٰ فرماتے ہیں” امیر المومنین یہ اسلامی سپاہیوں کی دیانت اور امانت نہیں بلکہ آپ کے عدل اور کردار کا کمال ہے۔ اگر آپ فرض سناس، امین ، عادل اور خداترس نہ ہوتے تو آپ کے سپاہی کبھی بھی ان اوصاف کا مظہرہ نہ کرتے اور ان میں کبھی یہ وصف پیدا نہ ہوتا ۔” سیدنا علی کا علم و حکمت سے بھر ا یہ تبصرہ سربراہ مملکت اور ارکان ریاست کے حوالے سے مکمل اور جامع ہے۔آج اس اصول اور قاعدے کی روشنی میں ہمیں اپنا کوئی حکمران اور اس کے معاونین کی ٹیم پوری اترتی دکھائی نہیں دیتی۔
قوم کا ایک ایک فرد آج اس بات کا گواہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے ہر حکمران نے اپنے پیش نظر صرف ایک بات رکھی کہ عوام کو اصل حقائق سے دور رکھ کر ان کی آنکھوں میں دھول کیسے جھونکی جاسکتی ہے اور انہیں بے وقوف کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرز عمل اور طرز فکر کی روشنی میں قوم میں محنت ، دیانت ، قناعت، ایمانداری اور فرض شناسی کے جذبات کیونکر پیدا ہوسکتے ہیں ۔ آج ہمارے موجودہ قومی بحران ، اخلاقی پستی، معاشی پسماندگی، سیاسی بد نظمی اور معاشرتی مسائل کا اصل سبب جرائت مند ، مخلص، صاحب فکر و نظر اور اعتماد کی دولت سے مزین قیادت کا فقدان ہے۔ کسی مفکر نے سچ کہا ہے کہ ” قوموں اور ملکوں کی موت کبھی بھی وسائل کی کمی کے سبب نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا تباہی غرقابی طوفانوں اور سیلابوں سے ہوتی ہے ، بلکہ نااہل ، خوشامد پسند، بزدل، کم فہم ، کوتاہ نظر اور مفاد عاجلہ کی رسیا قیادت قوموں کی لٹیا ڈبوتی ہے۔” آج حکمران اپنی بد نظمی اوربد انتظامی کے باوجود اگر عوام کی اصلاح کی خواہش رکھیں تو ان کی یہ خواہش پوری ہونا ممکن نہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران اپنی اصلاح کریں، اپنا طرز عمل، طرز بیان، طرز حکمرانی اس قدر اچھا بنائیں کہ عوام ان کی تقلید کرتے ہوئے خود اپنی اصلاح کرتے ، قانون کی پاسداری کرتے نظر آئیں ۔
تحریر: رانا اعجاز حسین
ای میل :ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033