تحریر: میر افسر امان
ویسے تو نواز حکومت کی موجودہ ٹرم بہتر انداز میں چل رہی ہے مگر سودی قرضوں پر محب وطن لوگوں کی تفتیش بڑھ رہی ہے حتہ کہ نواز شریف کے اپنے سینیٹر نے ایک بیان میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زیادہ لیے گئے قرضوں کی واپسی مشکل ہو جائے گی اور پاکستان دیوالیہ ہو کر دشمنوں کی گریٹ گیم کے تحت ایٹمی قوت سے محروم کر دیا جائے گا۔ سودی قرضوں کی بات تو بعد میں کریں گے پہلے نواز حکومت کی اندرونی اور بین الالقوامی طور پر تصدیق شدہ کارکردگی بیان کرتے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے انٹرنیشنل ٹرانسپرنسی نے رپورٹ دی ہے کہ نواز حکومت کے موجودہ دور میں کوئی بڑی کرپشن نہیں ہوئی ۔ جبکہ پہلی حکومت کے اہلکاروں کے کرپشن کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ اب بھی سند ھ حکومت کے اہلکاروں کو رینجرز اور نیپ پکڑ دھکڑ کر رہی ہے ۔ پاکستان کی مسلح افواج کی جاری ضرب عضب کی کامیابی کی دنیا کے سارے ملک تعریف کر رہے ہیں جس کا سہرا( کریڈیٹ) بھی نواز حکومت کو جاتا ہے۔ کراچی میںٹارگیٹڈ آپریشن بھی کامیابی سے جاری ہے۔ شہر کی روشنیاں واپس لوٹ آئی ہیں تاجروں نے بر ملا اس کا اظہار کیا ہے کہ تیس سال بعد کھل کر کاروبار ہوا ہے۔
کراچی کا عام شہری بھی خوش ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان میں بھی پہلی دفعہ امن قائم ہوا ہے اور بلوچستان میں ہر طرف پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ ملک میںدہشت گردی کو ختم کرنے میں بھی نواز حکومت کا بڑا رول ہو گا۔ بین الاقوامی طور پر ایک اور بھی کامیابی ملی ہے اور بھارت کے ناجائز واویلے کے باوجود امریکا نے بھی ایف ١٦ جدید لڑاکاہوائی جہاز دینے کی منظور ی دے دی ہے۔ ملک میں دنیا کا سب سے بڑا ترقی کا منصوبہ اقتصادی رہداری بھی شروع ہو چکا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی میں گرین بس منصوبے مکمل ہو کر کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اور اب لاہور میں آرنج ٹرین کا منصوبہ زور شور سے چل رہا ہے۔ ملک میں جگہ جگہ بجلی سکے منصوبے بھی زیر تعمیر ہیں۔ ملک میں سیاسی رواداری کا مظاہرا کرتے ہوئے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں اکثریتی پارٹیوں کو حکوتیں بنانے دی گئیں ۔ حالانکہ دوسری پارٹیوں سے مل کر نواز لیگ اتحادی حکومتیں بنا سکتی تھی۔
ملک کا خزانہ بھی زر مبادلہ سے بھرا ہوا ہے۔یہ ساری باتیں نواز حکومت کے کارنامے ہیں جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اپوزیشن کو بھی اس مثبت کامیابی کاخیال رکھ کر حکومت پر تنقید کرنی چاہیے۔ مخالفت برائے مخالفت جو پیپلز پارٹی نے شروع کی ہوئی ہے وہ کسی طرح بھی صحت مند جمہوریت میں شمار نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے زمرے میں آتا ہے۔ آزاد کشمیر میں ایک واقعہ جس میں ایک شہری کی جان چلی گئی کو جنگ کا سما بنا دیا گیا ہے آزاد کشمیر میں پہلی دفعہ یوم سیاہ منا کر اپنی ازلی دشمن جو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پرظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے کو غلط پیغام دیا گیا ہے۔نواز حکومت کی سب کامیابیوں اور ترقیاتیں پروگراموں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جس بات پر محب وطن حلقوں کو تفتیش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ یہ سب کچھ مانگے تانگے کے پیسوں ہو رہا ہے۔جب سود درسود بڑھتا جائے گا تو واپسی مشکل ہو جائے گی۔ ایک نجی ٹی وی کے اینکر کے مطابق اگلے ماہ حکومت کو تین ارب واپس کرنے ہیں۔ اس لیے مذید سخت شرائط پر بین الاقوامی سوکاروں سے قرض لینا پڑے گا۔ یہ سود خور بین الاقوامی اداروں ،جو یہودیوں کی مالکیت میں چلتے ہیں کا پرانا چنگل ہے جس میں ملکوں کو پھنساتے ہیں۔
اس کو ملائیشیا کے صابق صدر تنکو عبدلراحٰمان نے ایک وقت ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ ”جس ملک کو تباہ برباد کرنا ہو اسے آئی ایم ایف کے قرضوں کے جھال میں پھنسا دو” کیا لگتا نہیں کہ نواز حکومت آئے دن قرضوں پر قرضے لے کر بظاہر اپنے زر مبادلہ کے ذخاہر میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور نواز حکومت کے وزیر خزانہ بڑی شوخی سے اس بات کو قوم کے سامنے رکھتے بھی رہتے ہیں۔ نواز حکومت اس بات کی زرا برا بر بھی فکر نہیں کر رہی کہ پاکستان کا ہر شہری سوالاکھ روپے کا بیررونی قرضوں کی وجہ سیمقروض ہو گیا ہے۔ یہ قوم کے لیے تشویش کا مقام ہے۔اس لیے تجزیہ کا راس بات پر زور دیتے رہتے ہیں کہ نواز حکومت قرض لیکر جو پیسہ لوگوں کے آرام کے لئے گرین بس اور آرنج ٹرین پر خرچ کر رہی ہے کوئی سمجھداری کے فیصلے نہیں ہیں لوگ آرام حاصل کرنے کے بجائے سفر کے لیے کچھ مدت مذید تکلیف برداشت کر لیتے ۔
یہ پیسہ اگر صرف بجلی کے جلد مکمل ہونے والے پرو جیکٹ پر خرچ کر کے ہنگامی طور پر بجلی حاصل کر کے ملک کے بند کارخانے چلا دیے جاتے تو معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگتا ۔ملک میں اشیا ء تیار ہوتیںاور تیار کردہ مصنوحات بیرون ملک ایکسپورٹ کر کے جو پیسہ کمایا جاتا وہ ہی اصل پیسہ ہوتا ہے۔ قرض پر حاصل کیا گیا پیسہ ملک کی ترقی کا موجب نہیں بن سکتا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب خود کاروباری شخصیت ہیں۔ نہ جانے ان کے دماغ یہ بات کیوںنہیں آتی اور وہ قرضے کے بعد دوسرا قرضہ حاصل کرتے جاتے ہیں جو کسی طرح بھی ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ایک دوسری بات کہ نواز حکومت نے بھی پہلی حکومتوں کی طرح انڈسٹری کے مالکوں ،جس میں سیاسی لوگ بھی شامل ہیں ،
جو ایک پرانے حربے کے طور پر اپنی انڈسٹری کو دیوالیہ شو کر کے قرضے معاف کروا لیتے ہیں اور اور ایک اور انڈسٹری قائم کر لیتے ہیں کو بائیس ارب روپے کے قرضے اپنے چونتیس ماہ کے دور حکومت میں معاف کر دیے ہیں۔ اس کی رپورٹ وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ میں ایک لسٹ کے تحت پیش کی ہے۔ کیا یہ ڈگر پرانی حکومتوں کی طرح نہیں ہے۔ غریب قوم سے ٹیکسوں کے ذریعے حاصل شدہ پیسے کو امیر سیاسی کارخانہ داروں کو معاف کر دیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ عمل قوم کو کسی طرح پسند نہیں ہے اور نہ ہی سودی قرضے حاصل کرنا پسند ہے۔اے کاش کہ ہماری سیاسی حکومتیںاپنی پائوں پر کھڑا ہونا سیکھ جائیں اور قرضوں کے جال سے بچیں۔
تحریر: میر افسر امان