تحریر:ایم پی خان
پاکستان کے تقریباً تمام محکموں میں کرپشن اوربدعنوانی کابازارگرم ہے۔ایسی حالت میں عوام کی نظریں صرف اورصرف عدلیہ پر ہیںاورعدلیہ ہی پوری قوم کے لئے امیدکی آخری کرن ہے ، جوکرپشن اوربدعنوانی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اورعوام کو فوری انصاف مہیاکررہی ہے۔عدالت عظمیٰ سے لیکر عدالت ہائے عالیہ اورپھرضلعی سطح پرسیشن اورسول عدالتوں کاایک وسیع اورمربوط نظام موجودہے ۔ جہاں عدل وانصاف تک رسائی اورعوام کے بنیادی حقوق کاتحفظ یقینی بنایاجاتاہے۔ چونکہ عدالتی نظام کی بنیادی اکائی ماتحت عدالتیں ہیں۔نظام عدل میں ماتحت عدالت بنیادی اہمیت کی حامل اس لئے ہے کہ عوام انصاف کے حصول کے لئے سب سے پہلے اسکے دروازے پر دستک دیتے ہیںاورمقدمہ بازی کاآغازیہاں سے ہوتاہے۔اگرماتحت عدالت یالورکورٹ میں ایک موثرنظام کے تحت مقدمہ کی سماعت ہوجائے تومقدمہ حتمی طورپر تصفیہ ہوجاتاہے اورعدالتی نظام پر مزید بوجھ نہیں بنتا۔ماتحت عدالتوں میںمنصفین کے ساتھ ساتھ عدالتی ملازمین کابھی بہت بڑاکردارہوتاہے۔
جج تب ہی سکون اوراطمینان سے مقدمہ کی سماعت اورتصفیہ کرسکتاہے ، جب انکے ماتحت ملازمین فرض شناس، ایماندار، وقت کے پابند، خوش اخلا ق اورذمہ دارانہ صلاحیتوں کے مالک ہوں۔الحمدللہ، پاکستانی عدلیہ میں چیک اینڈبیلنس کاایک موثرنظام موجودہے، جوعدلیہ میں کام کرنیوالے افسران اورملازمین کی کارکردگی کاگہراتجزیہ کرتے ہیں اوراسکی بنیادپر انہیں جزا اورسزادی جاتی ہے۔عدلیہ کے اس موثراورشفاف نظام کانتیجہ ہے کہ پاکستان میں صرف اس ادارے پر عوام پورا اعتماد کرتے ہیں ۔پاکستان کا عدالتی نظام پہلے کے مقابلے میں کافی بہترہواہے اورانصاف تک رسائی کے پروگرام کے تحت مقدموں کی سماعت اورفیصلوں میں کافی تیزی آئی ہے ۔ اس سلسلے میںمنصفینِ عدالت سمیت عدالتی ملازمین کی ذمہ داریاں بھی کافی زیادہ ہوگئی ہیں اوراکثرعدالتوں میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے عدالتی عملہ عدالت کے مقررہ اوقات سے زیادہ کام کرتے ہیں۔عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ عدالتی عملے کاہوتاہے۔
انکے مقدمہ کی دستاویزات، معلومات اورانکی مزیدپیشیوں کے لئے دورانیہ کاتعین بھی عدالتی اہلکاروں کے فرائض کاحصہ ہے۔اسی طرح مقدمات کاریکارڈ، انکی تفصیل، نئے آنے والے مقدمات ، انکی مختلف فہرست ہائے بنانااورپھران فہرست ہائے کو آگے عدالت عالیہ تک بھجوانابھی عدالتی اہلکاروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔بعض عدالتوں میں مقدمات کی تعدادہزاروں میں ہوتی ہے۔ اسطرح ایک ایک مقدمہ کی نوعیت،اس میں موجود تمام دستاویزات کی تفصیل، ہرتاریخ پیشی کی کیفیت ، اس پرہونے والے عدالتی حکم کی تفصیل، ہرفریق مقدمہ اورمقدمہ میں موجوددیگرتمام افراداورشہادت دینے والے افرادکے ساتھ تحریری رابطہ کرکے انہیں مقدمہ کی کیفیت سے باخبررکھنا،مقدمہ کی مسل کو درست کرنا، اسکے صفحات کوترتیب دیناوغیرہ ایک بہت وقت لیوا اورمشکل کام ہوتاہے، جوعدالتی اہلکاروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی طرح جب عدالتی سماعت کے بعد جج کسی مقدمہ میں فیصلہ یاحکم صادرکرتاہے تواسکے لئے مقدمے کے مندرجات اورپھر اس پر تفصیل لکھنے کے لئے عدالت میں علیحدہ اہلکارہوتے ہیں، جو جج کے املاکردہ فیصلہ یاحکم کو لکھ کر کمپوزکرتے ہیں۔
ان تمام امورکو احسن طریقے سرانجام دینے اورعدالتی نظام کو بہترین طریقے سے چلانے کے لئے عدالتی اوقات کاردیگرمحکموں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں اورہفتہ کے دن انکی چھٹی بھی نہیں ہوتی۔تاہم موجودہ دورمیں عدلیہ میں آفسروں سمیت ملازمین کی محنت شاقہ ، حوصلہ، ہمت اورجذبے کانتیجہ ہے کہ عوام مطمئن ہیں۔ انکے مقدمات تیزی سے تصفیہ ہورہے ہیں اورانہیں جلد انصاف مل رہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عوام کاسب سے زیادہ اعتماد عدلیہ پرہے۔چونکہ عدالتی کام بہت حساس اوراہم نوعیت کاہوتاہے ، کیونکہ عوام کے حقوق عدالتوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔لہذا ماتحت عدلیہ کے ملازمین کے مسائل طرف حکومت کی توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔سب سے اہم مسئلہ ماتحت عدلیہ کے ملازمین کے لئے سروس سٹرکچرکاہے۔چونکہ عدالتوں میں ملازمین کی بھرتی عدلیہ کے افسران کی نگرانی میں ہوتی ہے اوریہاں مکمل طورپر میرٹ کی بنیادپر اہلکاروں کی بھرتی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عدالتی ملامین میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ہوتی ہے، لیکن انکے لئے ترقی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اگرانہیں یہاں اچھے پیکجز دئے جائے، تووہ کسی اورمحکمے میں جانے کی کوشش نہیں کریں گے اوریہاں رہ کر وہ عدالتی امورمیں مزید مہارت حاصل کرسکیں گے۔
چونکہ ماتحت عدلیہ کے ملازمین اورعدالت عالیہ کے ملازمین کی بنیادی مراعات میں بھی کافی تفاوت ہے ۔ عدالت عالیہ کے ملازمین کو کافی مراعات مل رہی ہیں، انکی تنخواہیں اوردیگر الاونسزبھی ماتحت عدالتوں کے ملازمین کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ماتحت عدالتوں کے ملامین احساس کمتری کے شکارہیں۔لہذا حکومت کو اس ضمن میں خصوصی توجہ دینی چاہئے تاکہ عدالتی ملازمین ، خواہ عدالت عالیہ میں ہوں یاماتحت عدالتوں میں، کویکساں مراعات اورتنخواہیں دی جائیں۔ مزید یہ کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں عدالتی ملازمین کی تنخواہیں اوردیگرالاونسز بھی برابرہونے چاہئے، تاکہ مہنگائی کے اس دورمیں عدالتوں میں کام کرنیوالے ملازمین کو سکھ کاسانس نصیب ہوسکے اورانکی زندگی کاسفربھی آسودگی کے ساتھ چلتارہے۔ وہ اپنے بچوں کواچھی تعلیم دلاسکے اوروہ ذہنی طورپر اس قدرمطمئن اورپرسکون ہوں کہ اپنے فرائض کو بہترین اندازمیں نبھاسکے اورعدالتی نظام روانی کے ساتھ چلتارہے۔
اس طرح ضلعی سطح پر ملازمین کے لئے رہایش کی کوئی سہولت نہیں اوراکثرملازمین رہائش نہ ہونے کے باعث بہت دوردرازسے ڈیوٹی کے لئے آتے ہیں ، جس وجہ سے انکے قیمتی وقت کاضیاع ہوتاہے اورکافی پیسہ بھی خرچ ہوتاہے۔ لہذا اگرحکومت ضلعی سطح پر عدالتی کالونیاں بنائے اورعدالتی ملازمین کو رہائش کے لئے گھرفراہم کرے ، توماتحت ملازمین کابڑامسئلہ حل ہوجائے گا۔ عدالتی ملازمین میں سپرنٹنڈنٹ ، جوکہ صوبائی کیڈر کاعہدہ ہوتاہے اوروہ مختلف ضلعوں میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں ، لیکن کسی بھی ضلعے میں انکے لئے رہائش موجودنہیں اوروہ سٹیشن سے دورکہیں کرایہ کے گھرمیں رہائش پذیرہوتے ہیں۔ لہذا سپرنٹنڈنٹ عدالت کے لئے رہائش کی فراہمی بھی بہت ضروری امرہے۔
دوردرازے آنے والے ملازمین کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے آسان اقساط پر بغیرسودکے قرضوں کی فراہمی سے بھی انکابہت بڑامسئلہ حل ہوسکتاہے۔حال ہی میں پنجاب اورصوبہ خیبرپختونخواہ میں حکومت نے ملازمین کی ترقی کے احکامات صادرکئے ہیں ، تاہم ماتحت عدالت کے کچھ ملازمین تاحال ترقی سے محروم ہیں ، جن میں سے سٹینوٹائپسٹ ، سٹینوگرافر ، کمپیوٹرآپریٹروغیرہ شامل ہیں ۔ اگرحکومت سنجیدگی سے ماتحت عدلیہ کے ملازمین کے مسائل کی طرف توجہ دے ، انہیں اچھی تنخواہوں کے ساتھ پرکشش مراعات دے ، توعدالتی ملازمین کی زندگی میں خوشحالی آئے گی اوروہ بہترین اندازمیں عدالتی امورچلانے کے قابل ہونگے۔ اسی طرح پاکستانی عدالتی نظام دنیاکے بہترین عدالتی نظاموں میں شمارہوگا۔
تحریر:ایم پی خان