تحریر: ممتاز امیر رانجھا
گزشتہ روز وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ اٹک میں اپنے گاؤں شادی خان میں اپنے گھر سے متصل ڈیرے پر روایتی انداز سے علاقہ مکینوں کے مسائل سن رہے تھے کہ ایک کم بخت خود کش حملہ آور نے خود کو ان کے ڈیرے پر پہنچ کر اڑا دیا جس کے نتیجے میں پوری عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ عمارت کے زمین بوس ہونے کئی قیمتی جانیں جام شہادت نوش کر گئیں اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔اس کے بعد سے کئی واقعے کے فوری بعد مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں شروع کردیں جب کہ اٹک سمیت راولپنڈی اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ بھاری مشینری نہ ہونے کے سبب امدادی کارروائیوں میں دشواری درپیش آتی رہی۔
دوسری جانب وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر رپورٹ طلب کر لی ہے اور کہا ہے کہ ”شجاع خانزادہ کی شہادت سے ملک سچے پاکستانی سے محروم ہو گیا، شجاع خانزادہ کی شہادت کے صدمے کو اپنے الفاظ میں بیان سے قاصر ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شجاع خانزادہ کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی”۔
صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے وزیرداخلہ پنجاب کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ پر خود کش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شجاع خانزادہ کی شہادت کو ملک و قوم کے لئے بڑا المیہ قرار دیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ شجاع خانزادہ پر خود کش حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، شجاع خانزادہ تحریک انصاف کے بانی ارکان میں شامل تھے۔
واضح رہے کہ وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ جنوبی پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف سرگرمیوں میں پیش پیش تھے اور حساس اداروں نے بھی اپنی رپورٹس میں پانچ بار ان پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے تھا لیکن یہ بہادر فوجی افسر کسی سے ڈرنے والے نہیں تھے شجاع خانزادہ کے نصیب میں شہادت کا عظیم تمغہ لکھا تھا سو یہ اعزاز لیکر وہ اس دنیا فانی سے چلے گئے۔اس سے پہلے آرمی میں بطور افسر بھی انہوں نے بہت اعلیٰ دور گزارا ہے۔ نہایت ایماندار اور جفاکش انسان تھے ۔آرمی نے انہیں کئی تمغات سے نواز ا ہے۔ شجاع خانزادہ شہادت موت مر کے امر ہو گئے اور دہشت گردی کرنے والے اپنے لئے جنہم کو واجب کر گئے۔ یاد رہے کہ شجاع جانزادہ کے ساتھ ڈی ایس حضرو شوکت شاہ بھی شہیدہو گئے ۔موصوف پندرہ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
اسی ہفتہ ایک بہت بڑی شخصیت نے اس دنیا سے کنارہ کشی کر لی۔ 15 اگست 2015 کو جنرل حمید گل ریٹائرڈسابقہ ڈائرکٹر جنرل آئی ایس آئی اپنے اہل خانہ کے ساتھ مری گئے تھے، وہاںان طبیعت اچانک خراب ہوگئی جس کے بعد ان کو ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہاں ہسپتال میں کچھ دیر کے بعد78 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔موصوف ہائی بلڈپریشر کے مریض تھے ،ان کی وفات کی وجہ دماغ کی شریان بتایا جاتا ہے۔ان کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں افراد کی شرکت ان کے ساتھ والہانہ محبت کا ثبوت ہے۔حمید گل کے خاندان کا تعلق سوات سے ہے، آپ معروف قبیلے یوسفزئی سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کے دادا فیض خان جمعیت المجاہدین کے رکن تھے
شاہ اسماعیل شہید جب سوات سے گزرے تو ان کے ساتھ مل گئے اور پھر شاہ اسماعیل کی شہادت کے بعد لاہور آگئے،کچھ سال کے بعد پھر سرگودھا میں زمین ملی اور وہاں آباد ہوگئے۔آپ کی پیدائش 20 نومبر 1936 سرگودھا ہوئی۔ آپ نے 1957 سے 1992 تک آرمی میں اپنی بے مثال خدمات سر انجام دیں۔مرحوم جنرل حمید گل نے پاک بھارت 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔اس کے علاوہ افغانستان میں 1989ء کی جنگ میں اہم کردار اد ا کیا۔انہیں آرمی کی طرف سے ستارہ بسالت اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔حمید گل معروف ہائی رینکنگ پاکستانی فوجی آفیسر میں شامل ہیں۔
اس دنیا میں ہر انسان کا دوسرے انسان سے نظریاتی اختلاف رہا ہے اگرچہ مرحوم جنرل حمیدگل سے احقر کی طرح کئی لوگوں کو بعض نکات پر اختلافات رہے ہیں لیکن ہم سب کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرحوم محب وطن، ذہین، قابل اور انسانیت سے محبت کرنیوالے انسان تھے۔ پاکستانی عوام اور پاکستان کے لئے انہوں نے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیں۔
احقر جب کالم کمپائل کر رہا تھا تو اسی دوران کراچی میں جنا ب رشیدگوڈیل پر قاتلانہ حملہ ہوا۔بات پھر وہی آتی ہے کہ دہشت گرد چاہے کوئی بھی ہو۔اس کو حکومت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ضرور ملے گی انشاء اللہ۔ہم سب کو چاہیئے کہ ہم سب مل کر اس وطن کے دفاع کے لئے من تن دھن تک لگا دیںچاہے اپنی جان تک کیوں نہ چلی جائے۔ہم سب کو ایک دن شجا ع خانزاہ شہید اور مرحوم جنرل حمید گل کی طرح اس دن فانی سے چلے جانا ہے اور زندگی کا مزہ یہی ہے کہ ہم اس دنیا اور اگلی دنیا میں سرخرو ہو کر جائیں۔اللہ تعالیٰ سب کو سرخرو کرے۔آمین
تحریر: ممتاز امیر رانجھا