8 اگست 2016ء کو کوئٹہ کے وکلاء اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کو شہید کردیا گیا پھر ستمبر اور اکتوبر میں دہشت گردی کے المناک واقعات ہوئے جس میں بلوچستان کی ابھرتی ہوئی پولیس قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور اب 12 نومبر 2016ء شاہ نورانی کے مزار پر خودکش دھماکہ ہوا جس سے تاحال ساٹھ سے ستر افراد شہید ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بہت لرزہ خیز واقعہ ہے کہ غریب لوگ اپنی حاجت روائی دُعا خیر اور عقیدت کے طور پر شاہ نورانی کے مزار پر جاتے ہیں، اُن پر خودکش حملہ بربریت اور انسان دشمنی کی بدترین مثال ہے۔ اس مزار پر سیکورٹی کے مناسب انتظام کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی ۔ دُنیا میں مختلف اقوام اور عقائد کے لوگ رہتے ہیں اور ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدےکے مطابق زندگی گزارے، مگر اِن لوگوں نے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، بلوچستان ہو یا سندھ مختلف جگہوں پر صوفیائے کرام کے مزارات، دور دراز علاقوں، پہاڑوں اور صحرا میں واقع ہیں، اسلئے کہ یہ درویش، صوفی، بزرگ اور مذہبی شخصیات ایسے علاقوں میں لوگوں کی رہنمائی کیلئے جاتے تھے جہاں کوئی مشکل سے ہی پہنچ پاتا تھا، مسلمانوں کے حالات، روایتوں، عقائد اور اُن کے طور طریقوں کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد گمان یہ ہے کہ دُنیا کے انسان دشمن اداروں اور اسلام دشمن دانشگاہوں کی تجویز پر امریکی حکومت نے القاعدہ، داعش اور دیگر جماعتوں کو تخلیق کیا اور مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرکے اُنکا خون بہایا اور بہا رہے ہیں۔ ایک مقصد تو مسلمانوں کو ایذا اور اُن کی آبادی کو کم کرنا دوسرے اُن کی طاقت کو مجتمع ہونے سے روکنے یا اُن کے معدنی وسائل کو اپنے لئے استعمال کرنےاور اُن کی حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنا رہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد تو وہ خوفزدہ ہوگئے تھے، 1983ء میں جب ہم ایٹمی طاقت بن گئے تھے تو دُنیا بھر کے اخبارات اسلامی ایٹم بم، مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک ہلالی دائرہ بنایا کہ پاکستان اُن کی حفاظت کیلئے دستیاب ہوگا، مگر پاکستان میں ایک طرف نہ تو پاکستان کے حکمرانوں، اُن کے دانشوروں اور اُن کو بیورو کریسی میں وہ ویژن تھا جسکا خطرہ مغرب خوامخواہ محسوس کررہا تھا اور مسلمانوں کو ہدف بنا رہا تھا، مگر بہرحال ایک امکان موجود تھا کہ مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ حاصل کرنے کی خواہش موجود ہے اور جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو تمام مسلمان دُنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی، جبکہ بھارت اور اسرائیل نے 1982میں کہوٹہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایامگر پاکستان کو بروقت اطلاع ملنے پر بھارت اور اسرائیل کو یہ حملہ ملتوی کرنا پڑا۔ اب بھارت ہمیں اسرائیل کے ساتھ ملکر حملہ کرنے کا عندیہ دے رہا ہے، جسکا موثر جواب دیا جانا ضروری ہے ، اسکے علاوہ امریکہ داعش کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے، القاعدہ اور داعش کے بنانے کا اعتراف ہیلری کلنٹن نے اپنے ایک انٹرویو میں کرلیا کہ انہوں نے ایک فرقہ کو استعمال کرکے سوویت یونین کو توڑا اور اُس کیلئے انہوں نے پاکستان کے اداروں کی مدد حاصل کی۔ اس طرح اب وہ داعش کو استعمال کررہے ہیں کہ وہ روس کو نقصان پہنچائے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کو پایہء تکمیل تک نہ پہنچنے دے۔ سی پیک نے 13 مئی 2016ء کو کام کرنا شروع کردیا، یہ اس طرح ممکن ہوا کہ خاموشی سے کام ہوتا رہا اور چینی جہاز کی سری لنکا روانگی اور راہداری کا افتتاح کردیا گیا۔ اِس راہداری کی حفاظت کا کام فوج کے ذمہ ہے، چنانچہ راہداری کا افتتاح آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حصے میں آیا اور جہاز کی روانگی کا افتتاح وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کیا اور یوں یہ کام شروع ہوگیا، مگر اس سے پہلے 12 نومبر 2016ء کا واقعہ ہوگیا۔ نومبر میں حساس اداروں کی نشاندہی پر رینجرز، ایف سی اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کرکے حب میں کالعدم تنظیم جنداللہ پاکستان کا امیر عارف عرف ثاقب انجم کو ہلاک کردیا، یہ شخص کراچی، سندھ اور بلوچستان میں حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا اور وہ دہشت گرد تنظیم جنداللہ، القاعدہ، داعش اور جماعت الاحرار کے اشتراک سے کارروائیاں کرتا تھا اور اسکو ’’را‘‘ اور افغان ایجنسی کی مدد حاصل تھی۔ قانون نافذ کرنے والوں نے اسکی کمین گاہ سے ایک ہزار کلو سے زائد دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا۔ اِسکے علاوہ کراچی میں منگھوپیر میں دہشت گردوں کے خلاف کمربستہ ادارے سی ٹی ڈی نے خطرناک ملزمان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ اِس سے ایک روز پہلے رینجرز نے تین دہشت گردوں کو ہلاک بھی کیا تھا مگر انسانی دشمن مقامی آبادی میں اس طرح چھپے ہوئے ہیں کہ اِن کی تلاش مشکل ہوگئی ہے تاہم پاکستان کے ادارے اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ داعش کی شام میں شکست کے بعداس کے دہشت گردوں کو افغانستان میں جمع کررہا ہے، اس میں بھارت اسکا مکمل ساتھ دے رہا ہے۔ شاہ نورانی کے واقعہ کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کرلی ہے اور جس لڑکے نے خودکش دھماکہ کیا وہ افغانی تھا۔ اب یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد داعش میں شامل ہورہی ہے، بھارتی سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈول نے 2014ء میں شام اور عراق کا دورہ کیا تھا، وجہ تو یہ بتائی گئی تھی کہ وہاں پھنسے ہوئے بھارتیوں کو نکالنے کیلئے گئے ہیں، دراصل انہوں نے داعش سے رابطہ کیا اور اِس رابطہ کو قندھار میں موجود قونصل خانہ عملی جامہ پہنا رہا ہے، وہ داعش اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ، پاکستان میں دہشت گردی کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے منصوبے بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور خصوصاً صوبہ خیبرپختونخوا کے بعد اب بلوچستان میں پے در پے خودکش حملے ہورہے ہیں۔ بھارت یہ کوشش کررہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی ہیئت تبدیل کرکے اُسے داعش بنا ڈالے، اس پر تحریک طالبان پاکستان میں کچھ نہ کچھ بغاوت ضرور ہوگی کہ تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے مقاصد ذرا ہٹ کر ہیں اگرچہ دونوں کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ اِسکے علاوہ حزب اسلامی جو حکومت افغانستان کا حصہ بن گئی ہے اسکا یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ وہ داعش کے ساتھ اتحاد کرنے پر غوروفکر کررہی ہے، مگر شاید اُن کا مقصد افغانستان حکومت کو ڈرانا مقصود ہو کہ جلد سے جلد حزب اسلامی کے ساتھ معاہدہ کرلیا جائے ورنہ اُسکے ارادے خطرناک ہیں، اب وہ حکومت میں شامل ہوگئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اُن کا موقف کیا ہوگا۔ بھارت طالبان کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے جو افغان طالبان سے ناراض ہوجاتے ہیں یا وہ داعش میں شامل ہورہے ہیں۔ بہرحال بھارت کھلم کھلا پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کررہا ہے اور مسلسل افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، جو ریاستی دہشت گردی کی ایک مثال ہے۔ پاکستان کو زیادہ چوکس رہنا چاہئے اور دُنیا بھر کے ممالک کو عالمی امن کو بڑھتے خطرے سے نمٹنے کیلئے بھارت کو وارننگ دینی چاہئے۔