لاہور (ویب ڈیسک) اب تک ملک بھر کی تمام خفیہ ایجنسیوں سمیت ایف آئی اے اور پولیس‘2 نومبر کے حالیہ دھرنے کے پس پردہ کنٹریکٹرز تک نہیں پہنچتی ‘اس وقت تک اس کی معلومات اور کارکردگی ادھوری رہنے کے ساتھ ساتھ آیندہ بھی لہو کے گھونٹ پلاتی رہے گی۔ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ
نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم لاہور اور گوجرانوالہ اور شیخوپورہ اور موٹر وے سمیت جی ٹی روڈز کی سطح پر ” کنٹریکٹرز نے اپنے مارک کئے گئے‘ پوائنٹس پر اپنی نفری کو بروقت ڈیپلائے کردیا تھا اور یہ نفری شام تک اپنے فرائض دینے کے بعد کسی دوسری جگہ اور اگلی دن کسی تیسری جگہ کارکردگی دکھاتی رہی۔ لاہور میں جس طرح پوائنٹس منتخب کئے گئے‘ یہ ان کنٹریکٹرزکی کارکردگی کا منہ بولا ثبوت تھا اور ان کی سب سے بڑی کارکردگی یہ تھی کہ تحریک لبیک کے تمام احتجاج کو انہوں نے ہائی جیک کرتے ہوئے اپنے ماتحت کر لیا تھا‘ ماسوائے تین نومبر کے ‘جب مولانا فضل الرحمن کا حمایت یافتہ لائو لشکر ‘تحریک لبیک کا احتجاج ہائی جیک کرنے کے بعد نواز لیگ کے کارکنوں کے ساتھ مل کر تباہی اوربربادی پھیلاتا رہا ۔عسکری 10‘ لاہورسے آگے ائر پورٹ روڈ پر ایک بدمعاش اور لفنگا قسم کا جوان اپنے ساتھ بیس پچیس کے قریب موالی ٹائپ لڑکوں کو لئے سڑک بلاک کئے ہوئے تھا اور وہاں کھڑے پولیس افسران( ان پولیس اہلکاروں سے پوچھا جا سکتا ہے) کو گندی گالیاں دیتے ہوئے دھمکیاں دیتا ہوا انہیں فوری طور پر وہاں سے بھاگ جانے کو کہہ رہا تھا۔
جب نماز مغرب کا وقت ہوا‘ تو میرے دوست نے وہاں نماز ادا کرنا شروع کر دی اورساتھ ہی دھرنے والوں کو بھی نماز میں شامل ہونے کا اشارہ کیا تو سوائے تین مولویوں کے کوئی بھی نماز میں شامل نہ ہوا اور وہ گینگسٹرز اور اس کے اوباش قسم کے ساتھی وہیں کھڑے سگریٹ پھونکتے ہوئے فحش یاوہ گوئی کرتے رہے؛ اگر لاہور پولیس یا ملک کی حساس ایجنسیاں ذرا سی بھی کوشش کریں ‘تو عسکری 10 کے قریب ائر پورٹ روڈ کے اس دھرنے پر تعینات پولیس‘ جو ان موالیوں کے سامنے بھیگی بلی بنی کھڑی رہی‘سے مزید معلومات لے سکتی ہیں‘ تاکہ ان کے کنٹریکٹر زتک پہنچا جا سکے۔ وہ لوگ‘ جو ابھی تک کنٹریکٹر کے لفظ کے گھورکھ دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں ‘ان کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ ” ریمنڈ ڈیوس‘‘ بھی امریکی سی آئی اے کا ایک کنٹریکٹر ہی تھا او ر پانچ دس نہیں‘ بلکہ حسین حقانی اور رحمان ملک کی ملی بھگت سے پی پی پی کے دور حکومت میں سینکڑوں کی تعداد میں ان کنٹریکٹرز کو تھوک کے حساب سے ویزے دیتے ہوئے پاکستان داخل کیا گیا تھا ۔بلاول بھٹو‘ قومی اسمبلی میں” قدم بڑھائو وزیر اعظم عمران خان۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کہہ رہے تھے‘
تو جوش مسرت سے تحریک انصاف سمیت پورا ایوان ‘ بلاول کی جانب ممنونیت سے دیکھتے ہوئے زور زور سے ڈیسک بجا رہا تھا‘ جبکہ ایم ایم اے کے لوگ منہ پر ہاتھ رکھے معنی خیز نظروں سے مسکرائے جا رہے تھے‘ کیونکہ انہیں بلاول کے ان میٹھے الفاظ کے اصل مقاصد کا بخوبی علم تھا ۔کیا تحریک انصاف‘ واقعی یہی سمجھتی ہے کہ بلاول بھٹو صاف دل اور خلوص نیت سے عمران خان کا ساتھ دینے کی بات کر رہے تھے ۔ کیا وہ سمجھتے نہیں کہ بلاول کے ان الفاظ کے پیچھے کوئی اور مقصدتھا۔ یہ تو سب نے دیکھا کہ بلاول بھٹو زبانی نہیں ‘بلکہ لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہے تھے اور ظاہر ہے یہ تقریر انہیں کسی نے لکھ کر ہی دی تھی ‘تقریر لکھوانے والے اس سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے‘ جن میں سے ایک پاکستان کے لبرلز طبقے کو خوش کرنا اور دوسرا عالمی رائے عامہ کے سامنے سیکولر ثابت کرتے ہوئے امریکہ اور یورپ کو اپنے روشن خیال ہونے کا یقین دلانا تھا۔کیا تحریک انصاف نے بلاول بھٹو سے پہلے خورشید شاہ کی تقریر نہیں سنی‘ اس کے معانی اور الفاظ کی گہرائی نہیں دیکھی‘ جن میں وہ وزیر اعظم عمران خان کی قومی رابطے پر کی جانے والی مختصر سی تقریر کے دوران عجب مضحکہ خیز انداز میں مونچھوں کو حرکت دے رہے تھے۔
تحریک لبیک اورنواز لیگ کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی پر دھرنوں کی تیاریاں اور فیصلہ آنے کے بعد پورے ملک کو جن سائنٹیفک طریقوں سے بلاک کیا گیا‘ یہ اچانک نہیں‘ بلکہ ایک سوچی سمجھی اور انتہائی ماہر لوگوں کی پلاننگ کا نتیجہ لگ رہا تھا اور لاہور میں اس سلسلے میں خواجہ سعد رفیق‘ ملک ریا ض ‘ شیخ روحیل اصغر سمیت بلال یاسین کے بارے میں با وثوق ذرائع بتا رہے ہیں کہ ان کا توڑ پھوڑ اور گاڑیاں جلوانے میں انتہائی کلیدی کردار رہا۔۔۔۔آئی ایس آئی‘ ملٹری انٹیلی جنس‘ آئی بی‘ سپیشل برانچ‘ رینجرز انٹیلی جنس اور مقامی تھانوں کے مخبروں کے دودنوں کے دھرنوں کے دوران لئے گئے سنیپ شاٹس اور ویڈیوز کو روک روک کر ان کی فرانزک رپورٹس کے ذریعے باقاعدہ تصدیق کرنے کے بعد نادرا سے وہ تمام چہرے شناخت کرائے جائیں ‘تو پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نواز لیگ کے کم از کم پانچ ہزار سے زائد لوگوں کی شناخت ہو جائے گی اور ان سے کی جانے والی تفتیش سے معلوم ہو جائے گا کہ ان سب کو کون کتنے میں کہاں سے لے کر آتا رہا؟۔میرے پاس موجود ایک ویڈیو ہے‘ جس میں کچھ لڑکے ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور موٹر وے پر کھڑی ہوئی گاڑیوںمیں سواریوں کو گندی گندی گالیاں بکتے ہوئے توڑنا پھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ دس پندرہ منٹ تک ایک ایک کرتے ہوئے اچھی طرح گاڑیوں کا حشر نشر کرنے کے بعد ان میں سے ایک دوسرے ساتھیوں سے کہتا ہے” ہن نکل چلو‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا دھرنے یا سپریم کورٹ کے فیصلے سے کسی قسم کا سرو کار نہیں تھا۔ عمران خان کی تقریر اپنی جگہ‘ جسے کچھ ناقد جلد بازی سے تشبیہ دے رہے ہیں ‘لیکن ایک فیصلہ جو انہوں نے بہت ہی اچھا کیا ‘وہ بلاول کی ہلا شیری پر ”قدم بڑھانے‘‘ کا ارادہ تبدیل کرنے کا تھا‘ کیونکہ اگر وہ اپنا قدم بڑھا نے کے بعد پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھتے ‘تو ساتھ دینے کی بات کرنے والے ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے ‘جو لال مسجد پر جنرل مشرف کے ساتھ پی پی پی کے لبرل‘ ترقی پسند اور بھارت نواز میڈیا نے جون2007 ء میں کیا تھا۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی‘ جس سے میں بھی فیض یاب ہو چکا ہوں‘ ایک سوال و جواب کے سیشن میں وہ اینکرز جو آج ہمیں ہر چینل پر جنرل مشرف کو صلواتیں سناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔۔ان کی ویڈیوز موجود ہیں کہ کس طرح جنرل مشرف پر الزامات لگا کر کہہ رہے تھے کہ آپ افتخار چوہدری کی عدلیہ آزادی تحریک سے توجہ ہٹانے کیلئے لال مسجد والوں کو خود ہی شہ دے کر اسلام آباد والوں کی زندگیاں اجیرن کئے ہوئے ہیں‘جس پر جنرل مشرف ان سے کہنے لگے؛ اگر میں نے لال مسجد والوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا تو آپ لوگوں نے مجھ پر تنقید کرنی ہے‘جس پر تمام لبرل اور ترقی پسند اور انگریزی اخبارات پر چھایا ہوا ٹولہ کھڑے ہو کر کہنے لگا؛ہم آپ کی مکمل سپورٹ کریں گے‘ آپ قدم تو بڑھائیں۔ اور جیسے ہی جنرل مشرف نے ان کے کہنے پر لال مسجد آپریشن شروع کیا‘ تو پیچھے سے یہی امریکی ٹولہ جس میں پی پی پی کے دانشور اور اس کا حامی گروپ پیش پیش تھا‘ جنرل مشرف پر پتھر برسانا شروع ہو گئے‘ جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔