تحریر : شہزاد عمران رانا
پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریک دن جسے کوئی محب وطن پاکستانی نہیں بھول سکتا جب وکلاءکی عدلیہ بحالی تحریک کے دوران 12مئی 2007کو اُس وقت کے معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سند ھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کے لئے کراچی آنے کا فیصلہ کیا تو حکمران صدر جنرل پرویز مشرف کی ” اہم حلیف جماعت “نے اُس معاملے میں بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا اور باربارمعزول چیف جسٹس کو کراچی آنے سے خبر دار کیاجبکہ اِس کے برعکس سند ھ ہائی کورٹ بار کے عہدیداروں نے معزول چیف جسٹس کو کراچی ائرپورٹ پرشاندار استقبال کے بعد ریلی کی شکل میں ہائی کورٹ بار لانے کی حکمتِ عملی طے کی تو حکمرانوں کی” اہم حلیف جماعت“نے بھی وکلاءکے مقابلے میں اپنی الگ ریلی نکالنے کا اعلان کردیا اور معزول چیف جسٹس کوکراچی آنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاسمیت مختلف تجزیہ کاروں نے اِس تاریک دن کے آنے سے پہلے ہی جنرل پرویز مشرف کی” اہم حلیف جماعت“ کے ” ریلی پر ریلی “کے فیصلے کو خطر ناک قرار دیا تھا اور پھر وہ دن آیا جب دہشت گرد وں نے پورا کراچی کنٹینرزلگاکر بلاک کرکے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی اِس دن 50سے زائد افراد کو ہلاک کیا گیا کراچی کے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس دن غیر فعال نظر آئے پورا دن الیکٹرانک میڈیا اِس حوالے سے تصاویر دکھاتا رہااور خبریں نشر کرتا رہا جبکہ اِس دن حکمرانوں کی” اہم حلیف جماعت“ کا کراچی شہر کے مرکزی علاقے میں جلسہ بغیر کسی تعطل سے جاری رہا جس سے اِس جماعت کے قائد نے حسب ِ معمول لندن سے اپناٹیلی فونک خطاب بھی کیاجبکہ اِس دوران جلسے کے اِردگرداورباقی تمام شہر میں معصوم لوگوں کی لاشیں گرنے کا عمل جاری رہا۔یاد رہے کہ گذشتہ سال سے لاہور ہائی کورٹ نے اِس سیاسی جماعت کے قائد کے لندن سے ٹیلی فونک خطاب پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
پورا دن معزول چیف جسٹس کو ائر پورٹ پر ہی محصور رکھا گیا اور شام کو حکومتِ وقت نے اِن کے ساتھیوں جن میں اہم وکلاءراہنمابھی شامل تھے کی سندھ بدری کے احکامات جاری کردئیے جس کی وجہ سے معزول چیف جسٹس سمیت تمام افراد کو واپس جانا پڑا ۔اِس تاریک دن کی ایک اور خاص بات اُس وقت کے حکمران صدر جنرل پرویز مشرف نے اِسی دن کی شام اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دونوں مکے ہو ا میں لہراتے ہوئے اسلام آباد کے جلسے اور کراچی کے قتل و غارت کو ”عوامی طاقت “کا مظاہرہ قرار دیا۔
اب 19جولائی 2016یعنی پورے 9سال بعدسابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی حمایتی اور کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے راہنماوسیم اخترکو ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا ہے اور اب 12مئی 2007کے مقدمہ کو بھی دوبارہ کھول دیا گیا ہے وسیم اختر اُس وقت مشیرِ داخلہ سندھ تھے جنہوں نے اُس وقت ایک دن قبل 11مئی 2007اےک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے معزول چیف جسٹس کو کراچی نہ آنے کا مشورہ دیتے ہوئے دھمکی دی کہ ” موصوف کو کہتا ہوں کہ کراچی نہ آنا ، ورنہ اچھا نہیں ہوگا“۔یاد رہے کہ وسیم اختر اُس وقت کے حکمران سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کی ” اہم حلیف جماعت“ کے راہنما ہیں۔اِس سلسلے میں گذشتہ دو روز سے الیکٹرنک میڈیا پر وسیم اختر کی جانب سے ایک اعترافی بیان کی خبر چل رہی ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے تمام تر قتل وغارت گری کے احکامات دینے کا اعتراف کرلیا ہے جبکہ وسیم اختر نے بذریعہ خط اِن خبروں کی تردید کردی ہے کہ انہوں نے کوئی اعترافی نہیںبیان دیاہے۔
اگر ایسا کوئی بیان کوئی ملزم پولیس کو دفعہ 161ض ف کے تحت دے تواِس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔قانونی حیثیت صرف اُس بیان کی ہوتی ہے جو زیرِ دفعہ 164ض ف کے تحت روبرو مجسٹریٹ دیا جاتا ہے خاص طور پر ایسے بیانات کی اہمیت ایک وکیل سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا۔ اب اِس سلسلہ میں چند گرفتاریا ں عمل میں لائی گئی ہیں جبکہ باقی ملزمان کی گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔یادرہے کہ یہ مقدمہ پہلے بھی کئی بار کھلا اور پھر بند ہوچکاہے مگر اِس مقدمہ میں گرفتاریا ں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔
اُس وقت اَس معاملے پر اقبال کاظمی ایڈووکیٹ نے سند ھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر” سوموٹو ایکشن “ لیا گیا مگر جس کے نتیجے میں ا قبال کاظمی ایڈووکیٹ اغوا ہوئے اورپھر دہشت گرد عناصر کی طرف سے سند ھ ہائی کورٹ کا گھیراﺅ کیا گیا جس کے بعد یہ مقدمہ بند کردیا گیا تھا۔صرف اقبال کاظمی ایڈووکیٹ خود اکیلے اغوا نہیں ہو ئے بلکہ بعد میں اِن کی اہلیہ کو بھی اِس مقدمہ کی پاداش میں اغوا کیا گیا تھا۔ جس کے بعدبزرگ وکلاءراہنما رسول بخش پلیجو سمیت کئی انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی کے لئے بھر پور آوازاٹھائی مگر اُن کی داد رسی نہیں ہوئی جس کے وہ آج بھی منتظر ہیں اور یقین رکھتے ہیںکہ انشاءاللہ ! ضرور ہو نگے پورے انصاف کے تقاضے۔
تحریر : شہزاد عمران رانا