تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل
کسی بھی انسان کی یاداشت اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ وہ اپنے اوپر کی گئی زیادتی کو زندگی کے کسی موڑ یا مقام پر بھلا پائے یا فراموش کر دے۔ انسانی دماغ ایک ایسی مشین ہے جو دن رات نت نئی جستجو میں مصروف رہتا ہے،اسی دماغ کی بدولت اچھے اور برے اعمال کا آغاز ہوتا ہے کچھ لوگ زندگی کی صعوبتیں ، تکالیف اور مسائل برداشت کرتے ہوئے مثبت سوچ کے ذریعے اپنے راستے میں حائل دیواروں کا پھلاندتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں اور کچھ خود اعتمادی کے فقدان کی بدولت نہ صرف اپنی بلکہ دیگر بے ضرر اور کمزور انسانوں کا مستقبل اور زندگی تک تباہ و برباد کر دیتے ہیں ایسے انسان ہر جگہ ہر خطے میں موجود ہیں ایسے لوگوں کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے کیونکہ انہیں لوگوں نے اپنے عمل اور رویے سے زمین پر بسنے والے کئی انسانوں سے جینے کا حق چھین لیا ہوتا ہے ایسے انسان اتنے قابل یا دور اندیش نہیں ہوتے جتنا وہ تصور کرتے ہیں
یقینا ہر انسان کی زندگی میں کئی بار کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حالات و واقعات پر قابو نہ پا نے کی صورت میں تشدد پسندی کا راستہ اپنا یا جائے ،اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر اتنی قوت برداشت نہیں رکھتا کہ ناخوشگوار حالات میں انہیں صبر و تحمل اور دور اندیشی سے حل کر سکے،کئی افراد اصول پسند ہوتے ہوئے بھی برے گردانے جاتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے اور برائی کا ساتھ نہیں دیتے جبکہ ایک بری سوچ رکھنے والے انسان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، انسانی سوچ یا اس کا دماغ ہی تمام عوامل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
پیاری ممی،عزیز والد صاحب۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ گھر چھوڑ دونگی کیونکہ میں آزاد ،اکیلا اور بنا کسی سہارے زندگی جینا چاہتی ہوں میرے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مجھے گمشدہ تصور کر کے میری تلاش شروع کی جائے،ہاتھ سے تحریر کردہ اس مختصر خط کے چوبیس سال بعد یہ واضح ہوا کہ اٹھارہ سالہ الزبتھ جو اس وقت اٹھارہ برس کی تھی آسٹریا کے ایک چھوٹے قصبے سے اچانک غائب ہو گئی لڑکی کا والد پولیس سٹیشن پہنچا اور خط پیش کیا تاکہ پولیس کسی کے کہنے پر الزبتھ کی تلاش نہ شروع کر دے،یہ خط لڑکی نے اپنے والدین کے گھر کے تہہ خانے میں بیٹھ کر تحریرکیا اور دستخط کرنے کے بعد اپنے باپ کو دے دیا۔
چوبیس سال تک الزبتھ کے باپ جوزف نے اپنی بیٹی کو تہہ خانے میں قید رکھا اسے بھوکا پیاسا رکھتا تشدد کرتا اور ہزاروں بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا،اپریل دوہزار آٹھ میں لڑکی تہہ خانے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اور پولیس سٹیشن پہنچ کر تمام حالات سے آگاہ کیا ،پولیس نے جوزف کو حراست میں لیا اور کچھ دیر بعد منظر عام پر آنے کے بعد فخریہ انداز میں اقبالِ جرم کرتے ہو ئے بیان دیا میں مجرم ہوں۔ساری دنیا میں جوزف کے اس گھناؤنے جرم کا تذکرہ ہوا کہ کیا دنیا میں ایسے بھی انسان پائے جاتے ہیں جو اپنے خون اپنے لختِ جگر کے ساتھ اتنی بے رحمی اور سفاکی سے پیش آئیںاور بغیر کسی روکاوٹ کے سماجی زندگی بسر کریںاپنے جرم کو مٹانے اور چھپانے کیلئے کس قدر عیاری اور بہادری سے خط پولیس تک پہنچائیں کہ بیٹی اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر جا چکی ہے۔
تشدد پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ہر انسان نہ تو اس طرح کی تشدد آمیز سوچ رکھتا ہے اور نہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس قسم کی گھناؤنی حرکت کرے کہ جس سے ممکنہ طور پر دوسرے انسان کو ذہنی یا جسمانی چوٹ پہنچے لیکن دنیا میں بسنے والے کئی انسانوں میں اس سے بھی زیادہ پر تشدد صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جنہیں وہ وقت آنے پر استعمال کرتا ہے ،کئی سالوں کی تحقیق سے یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انسان کو کون سا عمل تشدد کرنے پر اکساتا ہے
یا وہ تشدد کیوں کرتا ہے؟۔ماہرین کی رپورٹ کے مطابق تاریک خیالات و احساسات، دوسرے انسانوں میں برائی کی کھوج لگانا ،ہر بات پر مذمت کرنا ،خواب کو حقیقت میں نہ دیکھ کر، خواہشات کی تکمیل نہ ہونا،احساسِ کمتری میں مبتلا رہنا اور ذہنی دباؤ میں آکر کئی انسان تشدد کرنے پر عمل پیرا ہوتے ہیں ،دورِ جدید میں ماہرین اور محقیقین اچھی طرح جان چکے ہیں کہ تشدد کیوں کیا جاتا ہے رپورٹ کے مطابق قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایسے انسان اپنی ذہنی و جسمانی تسکین کیلئے تشدد و زیادتی کرتے ہیںذہنی دباؤ کے علاوہ غم و غصے کا بھی تشدد کا راستہ اختیار کرنے میں ایک اہم کردار ہے
بالخصوص ایسے انسان اپنے سے کمزور انسانوں کو زیادہ دلجوئی ، بے رحمی اور سفاکی سے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں وجوہات نہ ہوتے ہوئے بھی وجوہات پیدا کی جاتی ہیں اور تشدد کے کئی طریقوں اور فارمولوں پر عمل کیا جاتا ہے کئی مثالوں میں ایک مثال گوانتا نامو بے جیل کی ہے جسے دنیا جانتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے پر تشدد انسان خود نہیں جانتے کہ وہ ایسے کیوں ہیں جیسے کہ ہر انسان میں خوبی و خامی کے علاوہ اچھائی و برائی پائی جاتی ہے ایسے ہی ہر انسان اپنے اندر پائی جانے والی برائی کو نہیں پہچانتا اور نہ سننا چاہتا ہے، اگر ہم کسی پرتشدد انسان کے بارے میں پڑھتے ہیں تو اسے برا کہتے ہیں حالانکہ ایسی برائی ہر انسان کے اندر پائی جاتی لیکن سننا پسند نہیں کرتے اور اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہماری برائی منظر عام پر نہ آئے کیونکہ ہم تشدد کے نام سے نفرت کرتے ہیںیہ نام ہی برا ہے۔
جوزف کی گرفتاری کے بعد پولیس انویسٹی گیشن ہوئی اور کئی نفسیاتی ماہرین نے مختلف اوقات میں تیس تیس گھنٹے تک اس سے مختلف سوالات کئے ،جوزف کا کہنا تھا بچپن میں اس کا باپ چل بسا بے روزگاری میں اسکی ماں کئی گھنٹوں تک اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر کہیں چلی جاتی میں بھوکا پیاسا روتا رہتا ماں کی واپسی پر وہ مجھے پیٹا کرتی میں کہاں جاتا کیا کرتا جوزف نے روتے ہوئے بتایا کہ میں اپنی ماں کو گناہ گار نہیں سمجھتا بلکہ حالات کو دوش دیتا ہوں نہ میرا باپ مرتا نہ میری میری ماں مجھے چھوڑ کر جاتی آخر ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا،میں چاہتا تھا میری ماں مجھے گلے لگائے مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلائے مجھے پیار کرے مجھے اپنائیت کی ضرورت تھی میں محسوس کرنا چاہتا تھا کہ میں اکیلا نہیں ہوں میری ماں میرے ساتھ ہے لیکن ایسا ہو نہ سکا میرا خواب حقیقت میں نہ ڈھل سکا تنگدستی میں بچپن گزارنے اور بلوغت کی عمر میں پہنچ کر گھر سے بھاگ گیا
اس دوران کئی لوگوں نے میرے ساتھ زیادتی کی ، لیکن تمام باتیں بھولا نہیں آج بھی مجھے ایک ایک لمحہ یاد ہے مجھے جرم کرنے پر دنیا نے مجبور کیا میری ماں کے ساتھ زیادتی کی گئی مجھے انسانوں سے نفرت ہے اور جب بھی مجھے موقع ملتا کمزور اور بے ضرر انسان پر تشدد و زیادتی کرنے سے ذہنی تسکین حاصل ہوتی اور بالآخر اس مقام تک جا پہنچا جہاں اپنی تسکین کی تکمیل کیلئے اپنی بیٹی کو یرغمال بنایا اسی کے ہاتھوں سے چار لائینز لکھوائی تاکہ کوئی مجھ پر شک نہ کرے اور جب بھی ضرور ت محسوس ہوتی بیٹی پر تشدد کرتا اور جنسی زیادتی کرنے سے تسکین حاصل کرتا ایک جنون تھا جسے آخر دم تک جاری رہنا ہے۔جج نے جوزف کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کو مارا پیٹا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے،ایسے بچے جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے ہمیشہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اپنے ساتھ بچپن میں کی گئی زیادتی کا بدلہ لینے کیلئے دوسرے انسانوں پر تشدد کرنے سے ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں انہیں موقع کی تلاش رہتی ہے وہ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ انجانے میں ایک گھناؤنا اور ناقابلِ برداشت عمل اور ناقابلِ تلافی جرم کرنے جارہے ہیںایسے لوگ خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اخلاقی قدروں ،اصولوں ،انسانیت ،ہمدردی اور احساس سے کوسوں دور ہو کر تسکین حاصل کرتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے
تشدد کرنے کی کچھ وجوہات بے روزگاری، ملازمت اور خاندانی کشیدگیاں بھی کئی افراد کو جرم کرنے اور اپنا مقصد پورا نہ ہونے کی صورت میں تشدد کرنے پر مجبور کرتی ہیںان افراد میں خود اعتمادی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے کیونکہ مسائل سے بھر پور بچپن ان افراد کے ذہنی توازن کو شدید متاثر کرتا ہے اور ایک دن نفسیاتی مریض بن کر دماغی امراض کے کلینک میں داخل ہو جاتے ہیں جسے دنیا پاگل خانہ کہتی ہے۔پرتشدد واقعات سے دنیا بھری پڑی ہے لیکن ایک باشعور انسان دنیا کے نشیب و فراز کو محض وقتی تکلیف سمجھ کر درگز کردیتا ہے اور شعور سے نابلد جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
تحریر۔۔۔ شاہد شکیل