تحریر: رانا اعجاز حسین
اس وقت جب عوام کو بہت سے بحران درپیش ہیں وہاں اب نیا بحران یہ پیدا ہوگیا ہے کہ سوئی گیس کے گھریلو صارفین کو گیس پریشر میں شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض علاقوں میں تو سارا سارا دن سوئی گیس بالکل غائب رہتا ہے اور خواتین خانہ کو تہجد کے وقت بیدار ہوکر کھانا بنانا پڑ تا ہے۔ موسم سرما کی شدت کے ساتھ ہی گیس بحران کی شدت میںبھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سوئی گیس کے پریشر میں کمی کے باعث لوگ اور بالخصوص گھریلو خواتین احتجاج پر مجبور ہیں۔ سوئی گیس جو پہلے لوگوں کو ذرا کم مشقت کے ساتھ میسر تھی اب وہ بالکل ناپید ہوتی جارہی ہے ، جس کی ایک بڑی وجہ ماضی میں کثیر تعداد میں CNG سٹیشن کا قیام ہے جہاںگیس کی مجموعی پیداوار کا کثیرتعداد میں استعمال بلکہ ناجائز اصراف کیا جا تارہا ہے۔ ملک میں 3400 سے زائد CNG اسٹیشنز موجود ہیں، اور ایک سی این جی اسٹیشن سے تقریباً 1 ہزار گھروں کو سوئی گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔
سوئی گیس کے گھریلو صارفین کا کہنا ہے کہ سوئی گیس حکام جان بوجھ کر گھریلو صارفین کے لئے گیس پریشر میں کمی کرتے ہیں۔اس طرح پہلے سے بحرانوں کے نبرد آزما قوم کی اذیت میں مذید اضافہ ہوجاتا ہے۔ واضع رہے کہ ملک میں گیس جوکہ توانائی کا ایک nonـrevenueable ذریعہ ہے اس کو جس بے دردی سے ٹرانسپورٹ میں ضایع کیا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
بڑی بڑی بسیں اور ویگنیں جن کا کام ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ لوگوں کو لے جانا ہے، جو استعمال تو سی این جی کرتی رہی ہیں لیکن غریب عوام سے ڈیزل کے کرائے لیتی ہیں۔ ا سکے علاوہ گاڑیوں میں معیاری سی این جی سلنڈر کی جگہ آکسیجن سلنڈر استعمال کیے گئے جس سے کئی ہزار لوگوں کی جانیں بھی ضایع ہوئیں۔
امیر لوگ 1500 CC سے زیادہ بڑی گاڑیاں اور ڈرائیور رکھنا تو برداشت کرلیتے ہیں، لیکن گاڑیوں میں پٹرول کی جگہ گیس ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فرٹیلائیزر انڈسٹری کو بھی اپنی Operating Cost کم کرنے کے لیے مارکیٹ سے انتہائی کم نرخوں پر گیس فراہم کی جارہی ہے، دن رات اس قدرتی وسیلے کا بے دریغ استعمال کا الزام ہم سب پر لازم ہے کسی نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دی کہ آخر ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ اگر ترجیحات کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے اس گیس پر حق جو گھریلو صارفین کا ہے اس کے بعد توانائی ، پھر صنعت، پھر فرٹیلائیزر کو آنا چاہیے جب کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ سب سے آخر میں آنا چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سی این جی کا استعمال مکمل بند کردینا چاہیے۔
گیس کے لائن لاسز جو ہمارے ہاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ سوئی گیس پریشر میں اضافے کے لئے گیس کے نئے ذخائر کی تلاش اور اور ان سے بھر پور استفادے کی ضرورت ہے۔ اور جو گیس ضایع کی جارہی ہے اس کو بھی سسٹم میں لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، اس مقصد کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔
اس وقت ملک میں کئی ایسے گیس کے کنوئیں موجود ہیں جہاں گیس تو بہت موجود ہے مگر اس کو پائپ لائن میں لانا ابھی تک سود مند ثابت نہیں ہوا۔ اس مقصد کے لیے بھی ہنگامی اقدامات نا گزیرہیں۔ گیس کے نئے ذخائر کی تلاش، تھرکول منصوبے پر پیشرفت اور بڑی گاڑیوں میں سی این جی ڈلوانے پر پابندی اس بحران کی سنگینی میں کسی حد تک کمی کرسکتی ہے۔
بحیثیت قوم ہم ہمیشہ قلیل مدتی منصوبہ بندی پر توجہ دیتے ہیں اور ہمیشہ طویل المدتی تجاویز کو نظرانداز کرتے ہیں جس کا نتیجہ ایک بحران کی شکل میں ہمیں منہ چڑھا رہا ہوتا ہے۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ دیناچاہئے کہ حکومتی کارکردگی کا گراف گرانے کے لئے دانستہ طور پر تو عوام کو گیس پریشر کی کمی کے عذاب میں مبتلا تو نہیں کیا جا رہا۔
گھریلو صارفین کو گیس پریشر میں کمی کے بحران سے نجات اور اس مسئلہ کے دیرپا حل کیلئے حکومت وقت اور ہم سب کو ملکر قوم میں گیس کے استعمال کے حوالے سے اجتماعی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو گھریلو گیس صارفین کے لیے گیس پریشر میں اضافہ کرنا چاہیے ، تاکہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ CNGسیکٹر میں کفایت شعاری سے سوئی گیس کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے سخت پابندیاں عائد کرنا چاہیے تاکہ اس انمول نعمت کے ضیاع کی بجائے اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکے۔
تحریر: رانا اعجاز حسین
ای میل: ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033