تحریر: حبیب اللہ سلفی
سعودی عرب کے جنوبی علاقے عسیر کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں 17 افراد شہید متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔یہ حملہ سعودی عرب کی اندرونی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے سوات کے ہی ڈکوارٹر میں واقع مسجد میں کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خودکش حملہ صفائی کرنے والے کے بھیس میں مسجد میں داخل ہوا اور خود کو دھماکہ سے اڑا لیا۔ اس حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اور ایسے مزید حملوں کی دھمکی دی گئی ہے۔
رواں سال مئی میں بھی دو شیعہ مساجدمیں خودکش حملے کئے گئے جن میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔ سعودی سکیورٹی فورسز پچھلے کچھ عرصہ سے سعودی عرب میں موجود داعش کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر رکھا ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت ساٹھ سے زائد مسلم ملک ہیں ۔خلیج اور مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ مسلمان ملکوں کے پاس تیل و معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ ان کے پاس افرادی قوت اور زرمبادلہ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ داخلی طور پر امن و امان کی بربادی کی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔
ہر جگہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور لسانیت کی بنیاد پر تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ میدانوں میں شکست کھانے والے مسلم ملکوں میںباہمی لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کی سازشوںمیں کامیاب نظر آتے ہیں۔عراق، شام اور مصرسمیت دیگر عرب ملکوں کے حالات تشویشناک ہیں تو پاکستان میں بھی قتل و غارت گری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔دشمنان اسلام بہت دیر سے کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کو بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کی کیفیت سے دوچار کیاجائے ۔وہ اپنے اس مقصد میں ناکامی سے دوچار تھے تاہم پہلے یمن میں بغاوت کھڑی کر کے یہاں کے امن کو بھی دائو پر لگا یا گیا تو اب داعش جیسی تنظیموںکو یہاں پروان چڑھایا جارہا ہے۔
حرمین شریفین پر قبضہ کی دھمکیاں دینے والے حوثی باغیوں کیخلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحادکافیصلہ کن آپریشن پوری شدت سے جاری ہے اور انہیں عدن پر قبضہ جیسی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ یہ صورتحال سعودی عرب مخالف قوتوں کو کسی طور برداشت نہیں ہے۔ اس لئے یہاں خاص طور پر خودکش حملوں کوہوا دی جارہی ہے تاکہ سعودی حکومت اپنے ہی ملک میںالجھ کر رہ جائے اور یمن میں بغاوت ختم کرنے کی کو ششیںکامیاب نہ ہو سکیں۔ تین ماہ قبل مئی میں سعودی شہر ‘قطیف میں واقع قصبے القدیح کی جامع مسجد پر حملہ کیا گیا جس میں کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔قطیف سعودی عرب کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں ۔ اسلام دشمن قوتوں کی ہمیشہ یہ سازش رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے اور باہم لڑائی جھگڑے کھڑے کئے جائیں۔
اس مقصد کے تحت قطیف میںخا ص طور پر یہ کھیل کھیلنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکایا جاتا رہا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران شیعہ کے خلاف ہیںاس لئے آپ کو اپنے حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑنے کیلئے میدان میں نکلنا اور عوامی تحریک چلانا ہو گی۔ ماضی میں قطیف میں مظاہرے اور نامعلوم افراد کی طرف سے سعودی فورسز پر حملے بھی ہوئے جس پر سینکڑوں افراد گرفتار کئے گئے اور ان میں سے بعض کو سخت سزائیں سنائیں گئیں تاہم سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے ملک کے رہائشیوں کوپرامن رہنے اور اتحاد کی فضا برقرار رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ان حالات میں کہ جب ایک بار پھر سے یمن میں بغاوت کا مسئلہ شروع ہوا ہے دشمنان اسلام پھر وہی سازشیں دہرا رہے ہیں اور فرقہ وارانہ تعصبات کو خاص طور پر ہوا دی جارہی ہے۔وہ یہاں نفرتوں کے سلسلے بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مذموم ایجنڈے پورے کرسکیں۔بیرونی قوتیں پہلے ہی یمن میں بغاوت کو شیعہ سنی مسئلہ بنا کر پیش کررہی ہیں اور اس بنیاد پر مسلم ملکوںمیں فسادکھڑا کرنا چاہتی ہیں اسلئے قطیف میں حملہ کے بعد سعودی سکیورٹی فورسز نے داعش کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر رکھا تھا۔
پچھلے ایک ماہ میں سعودی سکیورٹی فورسز نے 431ایسے افراد کو گرفتارکیا جن کا تعلق سعودی حکومت کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش سے تھا اور وہ سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کی منصوبہ بند ی کر رہے تھے۔ مبصرین کی جانب سے داعش کے اہلکاروں کے خلاف آپریشن کو ہی ان دھماکوں کا ردعمل قرار دیا جارہا ہے بہرحال سعودی سکیورٹی فورسز کو اہم کامیابیاں مل رہی ہیں۔ امید ہے کہ جلد وہاں یہ فتنہ دم توڑ جائے گا۔ حوثی باغیوں کے خلاف جاری فضائی مہم کے تناظر میں مملکت سعودی عرب پر دہشت گردی کا یہ تیسرا واقعہ ہے ۔عینی شاہدین کے مطابق عسیر کی جامع مسجد میں ہونے والا یہ خودکش دھماکہ اس قدرشدید تھا کہ دھماکا ہوتے ہی وہاں موجود افراد کے اعضاء دور دور تک بکھر گئے۔ ابتدائی رپورٹس میں اگرچہ سترہ افراد کی اموات کی تصدیق کی گئی ہے لیکن یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ سعودی عرب کے سینئر علماء کی کونسل نے ان تباہ کن خودکش حملوں کی مذمت کرتے ہوئے غیرملکی ایجنڈے پر عمل پیرا دہشت گردوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فہد بن سعد الماجد کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سعودی عوام کا شعور وآگہی ان دہشت گردوں کے آگے سب سے بڑا سد راہ ہے۔
کونسل کے سیکرٹری جنرل محمد بن الناشوان کا کہنا ہے کہ یہ حملے قابل نفرت اورمجرمانہ فعل ہیں جس کا اسلام یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انھوں نے تمام شہریوں ،علماء اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ باہمی اتحاد کو مضبوط بنائیں اور وہ اسلام دشمن قوتیں جو گذشتہ کئی عشروں سے سعودی مملکت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کررہی ہیں’کے مذموم عزائم ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل کی یہ باتیں انتہائی فکر انگیز ہیں جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے ان خودکش حملوں سے بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی صورت سعودی عرب میں شروع نہیں ہونا چاہیے۔وہاں مسلمانوں کے دو حرم بیت اللہ اور مسجد نبوی ہیں۔
یہ خطہ پوری مسلم امہ کی محبتوں و عقیدت کا مرکز ہے وہاں فتنہ وفساد اور قتل و غارت گری کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ جو لوگ ان حملوں میں ملوث ہیں وہ یقینا دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور مسلم ملکوں میں کسی مسلمان کا قتل تو درکنار غیر مسلم کے قتل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے ایسا کرنے والوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے اوردشمنان اسلام کی تیارکردہ سازشوں کے خاکوں میں رنگ نہیں بھرنا چاہیے۔ مسلم ملکوں کا داخلی امن و استحکام بہت ضروری ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں، علماء کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین متفقہ طورپر کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کریں کہ سعودی عرب کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازشیں کرنے والوں کے مذموم عزائم ناکام بنائے جاسکیں۔سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس مسئلہ پر کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستا ن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے اس عفریت سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل اور ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005