تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
بیشک، اتوار27 مارچ 2016 کی شام پونے سات بجے ماڈل ٹاون لاہور کے گلشن اقبال پارک میں پیش آئے دہشت گردی کا المناک واقعہ ایک قومی سانحہ ہے ، جِسے مُلکی تاریخ کا بدترین دن قرار دیاجارہاہے ،اَب تک کی اطلاعات کے مطابق جس میں 72افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 300کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے ہیں گلشن اقبال پارک قیامتِ صغریٰ کا منظرپیش کررہاتھا، امدادی اداروں کی آمد سے قبل عوام اپنی مددآپ کے تحت متاثرین کو قریبی اسپتالوں میں پہنچاتے رہے، لاہور کے اسپتالوں میں ایمرجنسی لگادی گئی عوام سے خون کے عطیات کی اپیلیں کی جاتی رہیں،رات گئے تک اسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے والوں کی لمبی لمبی لائین لگی رہیںآج اِس واقعہ پرساری پاکستانی قوم آبدیدہ ہے اور شدید غم وغصے میں مبتلاہے ، جبکہ اِس موقع پراسلام آباد میں موجود وزیراعظم نوازشریف نے لاہور دھماکے پراپناردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک مذمتی بیان میں کہاہے کہ” سانحہ لاہورپر دل خون کے آنسورورہاہے، “ اِن کا کہناتھاکہ ” دہشت گرد اپنا انجام دیکھ کر بزدلانہ کارروائیاں کررہے ہیں، میرے بچے ، بچیوں، اور بہن ، بھائیوں کو نشانہ بنایاگیاہے، دہشت گردوں کو ہر حال میں کیفرِ کردار تک پہنچایاجائے گا“ جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ لاہور کے بعد لندن کا دورہ منسوخ کردیاہے ، سانحہ کے اگلے روزوزیراعظم نواز شریف نے لاہورپہنچ کر اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کی اور متاثرین سے واقعہ سے متعلق معلومات حاصل کیں ۔
آج جب یہ کالم پڑھاجارہاہوگاتب تک وزیراعظم نوازشریف دہشت گردی کے شکارہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے اور ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی مُلک میں تین ، دواور ایک روزہ یوم سوک منانے کا اعلان کریں گے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے ارادے سے بلائے گئے ہنگامی اجلاسوں میں آئندہ کا لائحہ عمل بھی مرتب کرارہے ہوں گے اور اِس سانحہ کی صاف وشفاف تحقیقات کرانے اور دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لانے جیسے احکامات بھی کررہے ہوں گے اورایسے بہت سے سخت ترین اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے فورسز کو ہدایات جاری کررہے ہوں گے؟؟ مگر اِس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نوازشریف کو یہ بھی ضرور سوچنااور تدبر کرناہوگاکہ جب مُلک میں ہرطرح کی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا سر کچلنے کے لئے آپریشن ضربِ عضب بھی جاری ہے تو پھر یہ بم دھماکے کیوں اور کس طرح کئے جارہے ہیں ؟؟ جو حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لئے بھی ایک بڑاچیلنچ ہے اَب اِس وزیراعظم انتہائی میں یہ بھی ضرور اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کہیں اِن کی جانب سے کسی مصالحت پسندی اور مفاہمت کی وجہ سے کوئی نرم گوشہ تو کسی معاملے میںحائل نہیں ہورہاہے؟؟ جس کا فائدہ دہشت گردوں کو پہنچ رہاہے اور آج جوآپریشن ضربِ عضب بظاہر پُرجوش اور گرم نظرآرہاہے اِس پر مصالحت اور مفاہمت کی ٹھنڈک کاایک چھوٹاقطرہ ہی اپناکام دکھارہاہواور گرماگرم جاری آپریشن ضربِ عضب کو ٹھنڈاکررہاہو؟بہرحال ،پھر جب بھی وزیراعظم کے ہنگامی اجلاسوں کا سلسلہ ختم ہوگاتو وزیراعظم دوروزہ دورے پرامریکا روانہ ہوجائیں گے۔
اگرچہ،اطلاعات ہیں کہ ”پنجاب میں حملوں کی اطلاعات موجود تھیں“ ایسے میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب اطلاعات تھیں تو پنجاب حکومت نے اِس کے تدارک کے لئے سخت اقدامات کیوں نہ کئے؟؟ اور یہ دہشت گردی کا المناک سانحہ کیوں رونماہوا؟؟ برائے کرم وزیراعظم نوازشریف اِس کی بھی تحقیقات کرائیں کہ کس سے کہاں غلطی ہوئی ہے؟؟ اور کس کی کہاں لاپرواہی کی وجہ سے سانحہ گلشن اقبال پارک رونماہواہے؟؟ اور غلطی اور لاپرواہی کے مرتکب پنجاب حکومت کے ذمہ داران کا بھی سخت احتساب یقینی بنائیں تو حقائق سامنے آئیں گے اور قوم کا حکومت پر اعتماد بحال ہوگا ۔ آج جہاں وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ لاہور کی مذمت کی ہے تووہیں ہمارے حقیقی محب وطن آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی سانحہ لاہور کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے برملااِس کا اظہارکیاہے کہ” بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے قاتلوں کو کٹہرے میں لائیںگے،واقعہ میں ملوث دہشت گردوں اور اِن کے سہولت کاروں کو جلد پکڑاجائے گا“ہمیں اُمید ہے کہ جنرل راحیل شریف ہمیشہ کی طرح ایساہی کریںگے جیساکہ وہ کہتے اور کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تاکہ دہشت گردوں سے مُلک کو پاک کیا جائے اور دہشت گردی کو جڑسے اُکھاڑپھینکاجائے تاہم سانحہ لاہورکے المناک واقعہ پر مُلکی سیاسی ،مذہبی اور سماجی تنظیموں سمیت دنیابھر سے بھی مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے حتی کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی جانب سے بھی مذمتی بیان آیاہے جوکہ خود ایک سوالیہ نشان ہے؟؟۔
جبکہ اَب تک کی تحقیقات کی روشنی میں کہایہ جارہاہے کہ یہ خودکش بم دھماکہ تھا مبینہ خود کش حملہ آور کی شناخت محمد یوسف کے نام سے ہوگئی ہے ،جس کاتعلق مظفرگڑھ سے تھااور وہ گزشتہ 8سالوں سے لاہور کے مقامی مدرسے میں رہائش پذیرتھایہیںسے پڑھااور لاہورکے مدرسے میں بچوں کو پڑھاتاتھا اگرچہ ابھی اِس حوالے سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے آنے والے وقتوں میں مزید انکشافات ہوسکتے ہیںمبینہ دہشت گرد نے بم دھماکہ کرکے پارک میں ہنستے کھیلتے خوشیاں مناتے معصوم بچوں اور خواتین سمیت کئی قیمتی اِنسانی جانوں جن میں ہرعمر کے مرد اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں اِن نہتے معصوم اِنسانوں کو خون میں نہلادیااوراِن کی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے اور اِنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبرکی آغوش میں سکون کی ابدی نیندسُلادیا مگر شیطان کا
چیلا ناپاک دہشت گرد اغیار کی سازش کا نوالہ بن کر خود بھی توواصلِ جہنم ہوگیاہے۔
اِس میں شک نہیں کہ یہاں دہشت گرد نے دنیاوی آگ سے72 معصوم بچوں اور خواتین اور مردوں کو ہلاک اور 300افراد کو زخمی کردیااور مگر اِسی آگ سے خود بھی مرگیا ہے ، دہشت گردمیرے دیس کے بے گناہ معصوم اِنسانوں کو مارکربڑاچلاتھااِس طرح جنت خریدنے ….خداکی قسم میرارب جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ ایسے کم بختوں کو کبھی جنت تو کیا جنت کی ہوابھی جہنمیوں کو چھونے نہیں دے گا، آج یہ میراایمان اوریقین ہے کہ سانحہ لاہور گلشن اقبال پارک میں دہشت گردی کا مرتکب شخص اپنی اِس ناپاک حرکت پر اَب تاقیامت دوزخ کی اُس آگ میں جلتارہے گا جو اِس دنیاوی آگ سے کئی لاکھ گنازیادہ سخت اور نہ کبھی ٹھنڈی اور نہ ختم ہونے والی آگ ہے ۔ یہاں ایک قوی خیال یہ بھی کیاجارہا ہے کہ سانحہ لاہورگلشن اقبال پارک میںہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے پیچھے بھارت ملوث ہے اَب جس نے یہ بم دھماکہ کرواکر اپنے را کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کا بدلہ لے لیا ہے اور ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتادیاہے کہ ہماری راکے ایجنٹ صرف بلوچستان ہی میں نہیں ہیں بلکہ سارے پاکستان میں موجود ہیں، تم نے توبس ہماراایک حاضر سروس کمانڈرکل بھوشن یادیو کو پکڑلیا ہے تو اِس سے کیا ہوتاہے، ہماری راکے اِس جیسے بے شمار کل بھوشن یادیو ہم نے تمہارے مُلک پاکستان میں پھیلارکھے ہیں جو ہمارے ایک اشارے پر جب اور جہاں جس طرح سے چاہیں بم دھماکے کرکے تباہی اورزمین پر اِنسانوں کا خون بہاسکتے ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے، ہمارے اِن سِول حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے جن کے دِلوں میں ابھی تک اپنے دوست نمادہشت گرد پڑوسیوں کے نرم گوشہ ہے راکے ایجنٹ کی رنگے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ہوناتو یہ چاہئے کہ اَب ہمارے سول حکمران اور سیاستدان جن کے ہاتھ میںحکومتی باگ دوڑ ہے وہ کم ازکم موجودہ حالات اور واقعات کی روشنی میں اپنے ذاتی اور کاروباری فوائد سے ذراہٹ کر خالصتاََ مُلکی اور قومی مفادات کے خاطر بھی اتناتو ضرور سوچیں کہ اِنہیں اپنے دوست نمادہشت گرد پڑوسیوں(بالخصوص بھارت اور افغانستان اور بالعموم ایران)سے کس طرح اور کس انداز میں کس زبان اور لہجے کے ساتھ بات کرنی ہے کہ اُن کی سمجھ میں اِن کی بات آسانی سے آجائے اور اَب وہ دوبارہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے اور دہشت گردوں کی معاونت کرنے سے باز رہیں تو بہت بہتر ہے ورنہ تو اگر اَب پھر کچھ ایساہواتو پاکستان اپنے اِدھر اُدھر کے پڑوسیوں سے ہر مروت کو بالائے طاق رکھ کر جنگی بنیادوں پر سخت ترین اقدامات کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com