counter easy hit

خودکش اور خودکشی

Accident

Accident

تحریر : مجید احمد جائی
ابھی کل کی بات ہے ،میں ڈیوٹی کرنے کے بعد گھر کو آرہا تھا،مین سڑک کے کنارے کافی رش تھا،شاید ایکسڈنٹ ہو گیا ہے،یہی سوچ کر میں رُک کر جائزہ لینے لگا،عورتوں ،مردوں کا کثیر ہجوم تھا۔زمین کے فرش پر انیس ،بیس سالہ لڑکا تڑپ رہا تھا ،اس کی ٹانگیں مفلوج ہو رہی تھیں۔سانسیں اکھڑ رہی تھیں،اتنے میں ایمولینس آگئی،معلوم ہوا ،لڑکے نے حالات سے تنگ آکر کالا پتھر پی لیا تھا۔کالا پتھر بوڑھے استعمال کرتے ہیں تاکہ جوان نظر آسکیں ،ہاں جی ۔۔۔کالا پتھر بالوں پر لگانے سے چاندی جیسے بال کالے سیاہ بادلوں کی روپ اوڑھ لیتے ہیں اور بوڑھے جوان نظر آنے لگتے ہیں،مگر جن کے نظریات بوڑھے ،بوسیدہ ہو گئے ہوں ان کے جوان ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

خودکشی اسلام میں حرام ہے۔کہتے ہیںخود کشی کرنے والے کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔لیکن کوئی یہ زحمت ہی نہیں کرتا کہ آخر کیا محرکات تھے ،جو نوجوان نے خود کشی جیسے حرام فعل کو اپنا لیا۔بندہ ۔۔۔خود مرنا ہی نہیں چاہتا اور دوسرے اُسے جینے ہی نہیں دیتے۔نوجوان ایم ۔اے کرکے ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے سڑکوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں،مگر نوکریاں نہیں ملتی،اور ہمارے ایوانوں میں انگوٹھا چھاپ،جعلی ڈگریوں والوں کا راج ہے۔جس کی لاٹھی اُس کی بھنس والا قانون لاگو ہے ،اور کہتے قانون تو اندھا ہوتا ہے۔اول تو انصاف ملتا ہی نہیں اور اگر ملتا بھی ہے تو انصاف چاہنے والا کچہریوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بے موت مر جاتا ہے۔

جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ کہاں گئے تمھارے وعدے۔جوں جوں انسان نے ترقی کی،ایٹم بم بنا لئے،سپر پاور بن گیا،مریخ سے آگے نکل گیا،لیکن بنیادی مسائل جوں کے توں ہی ہیں ،بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔آج بھی ہزاروں جانیں گٹروں میں زندگی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔فاقہ کشی کا جن مست گھوڑے کی طرح ناچ رہا ہے۔مہنگائی کا اژدھا ان کو نگلنے کے لئے منہ کھولے بیٹھا ہے۔کوئی بھوک سے مر رہا ہے،کوئی دوائی نہ ملنے سے جان کی بازی ہا ر رہا ہے۔بنیادی ضروریات کا فقدان ہے اور ہم ایٹم بم بنا کر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔وزیر،مشیر،عوامی خزانے سے بیرون ملکوں کے دورے پہ دورے کیے جا رہے ہیں،اور عوام دہشت گردوں کے ہاتھوں مر رہی ہے۔سیکورٹی پلان تب بنائے جاتے ہیں جب کہیں خود کش حملہ ہو جاتا ہے،علاقے میں کرفیو لگایا جاتا ہے اور پھر وہی عوام کو بکرا بنایا جاتاہے۔

یوںتو خود کشی اور خود کش میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔خود کشی کرنے والا خود کو ختم کر لتیا ہے اور خود کش اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی جانیں بھی لے جاتا ہے۔خود کش ،،،اور خود کشی کرنے والا،دونوں زمانے سے انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔میرے پاک وطن کے پاک شہر مدنیہ اولیاء میں ایک بار پھر خود کش حملہ ہوا اور کئی جانوں کا نقصان ہمیں اٹھانا پڑا۔وہاڑی چوک ملتان شہر کا سب سے مصروف ترین چو ک ہے۔وہاڑی چوک لاہور،فیصل آباد،اسلام آباد،کراچی،،وہاڑی ،ملک کے بڑے بڑے شہروں کو ملاتا ہے اور یہاں سیکوڑتی نظر ہی نہیں آتی۔دہشت گرد اپنی من مانی کرتے ہوئے ،جہاں چاہتے ہیں حملہ کر جاتے ہیں،ابھی ہم ”شجاع خان زاد صاحب”کے غم میں نڈھال تھے کہ دشمن نے ایک اور زخم دے دیا۔اور حکمرانوں کے وہی پرانے ،پھٹے پرانے،بوسیدہ ،جملے، سننے کو ملے۔کیا ہم صرف اور صرف جملے بازی تک محدود ہیں۔ہم اعلی سیکوڑٹی رکھتے ہیں،بہادر افواج بھی ہماری ہی ہے۔لیکن ان کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔کاش !ہمارے حکمران ضمیروں کی آواز پر کان دھرتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

آج بھی اگر ہمارے حکمران جس طرح حلف اٹھاتے ہیں اس پہ پورا پورا عمل کریں تو خود کش اور خودکشی کرنے والا کوئی بھی نہ ہو۔ملک میں امن قائم ہو جائے ۔اور اس ملک کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑے۔ہماری سرحدیں کمزور ہیں نہ ہماری عوام بزدل ہے۔لیکن جن کے ہاتھوں میں قانون ہے وہ صیحح استعمال کرنے لگ جائیں تو وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرتے ہوں گی۔

پرندے گیت سناتے ہوں گے،بلبل نغمے سناتی ہوں،کسان لڈیاں ڈالتے ہوں گے،فصلیں لہلہاتی ہوں گی اور چہرے کھلکھلاتے ہوں گے۔بشرط یہ کہ ہر شہری،ہر سیاستدان،حکمران ملک کے لئے عدل وانصاف کا ہاتھ تھمانے والا بن جائے۔ہر فرد اپنی جگہ رہتے ہوئے انصاف کرنے لگ جائے۔پھر اس ملک میں نہ تو خود کش حملے ہوں گے اور نہ ہی کوئی حالات سے تنگ ہو کر خود کشی کرے گا۔

Abdul Majeed

Abdul Majeed

تحریر : مجید احمد جائی