تحریر : سید انور محمود
شطرنج کے کھیل میں بادشاہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اسکے ساتھ اُسک ہی لائن میں جو مہرئے موجود ہوتے ہیں ان میں ایک وزیر، دو فیلے، دو گھوڑئے اور دو ہاتھی ہوتے ہیں، لیکن ان سب کے آگے اگلی لائن میں وہ آٹھ پیادئے ہوتے ہیں جو بادشاہ کے ساتھ ساتھ وزیر، فیلے، گھوڑئے اور ہاتھی کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ بظاہر پیادئے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن شطرنج کا ایک اچھا کھلاڑی نہ صرف اپنے مہروں کو بلکہ اپنے پیادوں کو بھی بہت اچھا استمال کرتا ہے اور اس سارئے کھیل میں وہ صرف اور صرف بادشاہ کی فکر میں لگا ہوتاہے، چاہے اُسکا وزیر مرئے یا کوئی اور مہرہ اُسکو صرف بادشاہ کویا دوسرئے الفاظ میں کہہ لیں کہ اپنے آپ کو شکست سے بچانے کی فکر ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے کھیل کے عروج پر ہوتا ہے تو سامنے والی بساط کے وزیروں اور دوسرئے مہروں کو اپنے پیادئے سے مارتا ہے لیکن جیسے ہی یہ پیادہ سامنے والے کی زد میں آتا ہے یہ اُس پیادئے کو دوسرئے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اورسامنے بیٹھا کھلاڑی اس کو جب چاہتا ہے مار لیتا ہے لیکن جس کا وہ پیادہ ہوتا وہ ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے اُس پیادئے کا اُس سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کھیل میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑئے مہروں کو بچانے کےلیے بھی پیادئے کی قربانی دی جا تی ہے۔غرضیکہ شطرنج کے کھیل میں پیادئے کی حیثیت ایک ایسے ہیرو کی ہوتی جس سے مخالف کے مہرئے مارئے جاتے ہیں اور وقت آنے پر اسی ہیرو کو مروا دیا جاتا ہے۔
شطرنج بادشاہوں کا کھیل ہے اور سیاست سے مطابقت رکھتا ہے لہذا پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کا رہنما سیاست کے کھیل میں بادشاہ ہے، اسکے پاس وزیر بھی ہیں تو پیادئے بھی، سیاست کی دنیا میں پیادئے کو کارکن کہا جاتا ہے۔آیئے پاکستان کی سیاست پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستانی سیاسی شطرنج کا کیا حال ہےتو جناب دیکھا یہ گیا ہے کہ مفاد پرستی پاکستان کی سیاست کا پہلا اصول ہے اور یہ عام شطرنج سے ذرا مختلف ہے مثلا آپکا وزیر یا گھوڑا یا کوئی اور مہرہ کسی بھی وقت اپنی وفاداری بدل کر آپکے مخالف کے ساتھ ملکر آپکے خلاف چال چل رہے ہوتے ہیں۔ پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے وہ اسطرح ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے دو وزیرمولانا کوثر نیازی اور غلام مصطفی جتوئی بھٹو حکومت کے خاتمے کے چوتھے روز جنرل ضیاءالحق کے دربار میں موجود تھے اور بھٹو کی پھانسی کے وقت بھی بھٹو سے دور تھے لیکن پیپلز پارٹی کے چھ کارکنوں نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں مختلف دنوں میں اپنے آپ کوبھٹو کو دی جانے والی پھانسی کی سزاکےخلاف جلاڈالا، افسوس بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد کبھی اُن جیالوں کا ذکر بھی نہیں کیا، نواز شریف کے دوسرئے دور میں نواز شریف نے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا، مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں پر مقدمے چلے لیکن نواز شریف اس بات سے ہمیشہ انکاری رہے کہ حملہ کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے کارکن تھے، لاہور میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے عمران خان کومارا پیٹا لیکن جماعت اسلامی اس بات سے انکاری رہی کہ عمران خان پر حملہ کرنے والے اُس کے کارکن ہیں۔عمران خان نے ملتان کے جلسے میں اپنی تقریر جاری رکھی جبکہ بھگدڑ کی وجہ سے اُن کےسات کارکن ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوگے تھے ، پارلیمینٹ پر حملہ کرنے والے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن تھے، اُ ن میں سے کچھ گرفتار بھی ہوئے لیکن دونوں جماعتوں کےرہنما اس بات سے انکاری تھے کہ پارلیمینٹ پر حملہ کرنے والے اُن کے کارکن تھے۔
کسی بھی سیاسی جماعت کو آگے بڑھانے میں اُس کے کارکن سب سے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں یوں سمجھ لیں کہ ایک پرندہ اگر اڑتا ہے تو ااپنے پروں کی وجہ سے، اگر اُسکے پر کاٹ دیئے جایں تو پھر وہ اڑنے کے قابل نہیں رہتا یہ ہی حال کسی بھی سیاسی جماعت اور اُسکے رہنما کا ہے کہ اُسکی جماعت کے کارکن ہی اُسکو آگے بڑھاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارئے ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی پارٹی کے کارکنوں کوصرف اپنے مقاصد کےلیے استمال کرتے ہیں اور وقت آنے پر پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔ بقول ایم کیو ایم کے کارکن اورپھانسی کے منتظرصولت مرزا کے کہ “ہمارئے رہنما اپنی پارٹی کے کارکنوں کو استمال کیا ہوا ٹشو پیپر سمجھ کر پھینک دیتے ہیں”۔ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ مفاد پرستی پاکستان کی سیاست کا پہلا اصول ہے اور یہ عام شطرنج سے ذرا مختلف ہے مثلا آپکا کوئی بھی مہرہ کسی بھی وقت اپنی وفاداری بدل کر آپکے مخالف کے ساتھ ملکر آپکے خلاف چال چل رہا ہوتا ہے، صولت مرزا ایم کیو ایم کا وہ مہرہ ہے کہ جب تک ایم کیو ایم اسکی حمایت کرتی رہی وہ خاموش رہا لیکن جب سانحہ پشاور کے بعد پھانسی کے مجرموں کی پالیسی بدلی تو ایم کیو ایم اُسکو بچانے کی کوشش کرتی رہی ۔لیکن جب ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن شروع ہوا اور وہاں بھاری اسلحہ کی برآمد کے ساتھ ساتھ پھانسی پانے والے فیصل موٹا اور عمیر صدیقی کے علاوہ اور بھی مجرم پکڑئے گےاور ساتھ ہی حکومت کی طرف سےصولت مرزا کو 19 مارچ کو پھانسی دینے کا اعلان ہوا تو ایم کیو ایم نے ایک طرح سے صولت مرزا سے لاتعلقی کرلی۔
ابھی ایم کیو ایم عمیر صدیقی کے دوران تفتیش ایم کیو ایم کے خلاف دیے ہوئے بیانات سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ صولت مرزا کی پھانسی سےصرف پانچ گھنٹے پہلے میڈیا کو ایک وڈیو مہیا کی گئی جس میں صولت مرزا نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت جماعت کی اہم قیادت پر سنگین الزامات عائد کیے۔ الزامات میں سے ایک الزام یہ ہے کہ کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کےقتل کا حکم الطاف حسین نے صولت مرزا کو بابر غوری کے گھر پر بلاکر بذریعہ ٹلیفون خود دیا تھا جبکہ عظیم طارق کو الطاف حسین کی ہدایات پرمروایا گیا، صولت مرزا کا یہ بھی الزام ہے کہ ایم کیو ایم گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ذریعے اپنے حراست میں لیےگئے کارکنوں کو تحفظ دیتی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے صولت مرزا کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کا بیان ان کی جماعت کے خلاف سازشی منصوبے کا حصہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سزائے موت کے قیدی کی کوئی ویڈیو سزا سے محض ایک روز قبل جاری کی گئی ہے اور ثبوت کے بغیر ان پر اور ایم کیوایم پر الزامات نہیں لگائے جا سکتے۔
سزائے موت کے قیدی کی ویڈیو سزا سےمحض چند گھنٹے پہلے کیسے جاری ہوئی؟ اسکا سیدھا سیدھا جواب ہے کہ ایسا حکومت نے کیا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ نے برطانوی سفیر کو تمام معلومات مہیا کی ہیں جو لیکروہ برطانیہ چلے گئے ہیں۔ اخبارات کے مطابق حکومت کی تحویل میں موجود بدنام ٹارگٹ کلرز اجمل پہاڑی اور فیصل موٹا جیسے اس کے دیگر ساتھی صولت مرزا کی طرح اعترافی ویڈیو ریکارڈ کرانے کیلئے تیار ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حمایتیوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ اپنے ویڈیو پیغام میں صولت مرزا نے خود کو نشانِ عبرت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایم کیو ایم میں شمولیت کا ارادہ رکھنے والے اور نئے کارکنوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ انھیں دیکھیں اور عبرت پکڑیں کہ کس طرح انھیں استعمال کر کے ٹشو پیپرکی طرح پھینک دیا گیا۔ صولت مرزاکی پھانسی جو 72 گھنٹوں کےلیے ملتوی کی گئی تھی اُسکو مزید تین ماہ رکوانے کیلئے سمری وزیراعظم نوازشریف کو ارسال کر دی گئی ہے ۔ صولت مرزا کا مستقبل میں کیا انجام ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ حکومت ایم کیو ایم کے اس مہرئے سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھاسکے کیونکہ وڈیو والی چال سے حکومت کو خود نقصان ہوگا۔
شاید الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا جوڈبل ایم اے ہے کو بابرغوری کے گھر پر بلاکر کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کے قتل کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہو کہ “صولت مرزا تم تو میرئے ہیرو ہو” ، کیونکہ 100 لفظوں کی کہانی کے خالق مبشر علی زیدی کی کہانی “ہیرو” کے مطابق جب پارٹی سربراہ آپکو اپنا ہیرو کہہ رہا ہو تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ:۔ ’’تم لوگ میرے ہیرو ہو۔ میں بتا نہیں سکتا کہ تم میرے لئے کیا ہو۔‘‘، اپوزیشن کا رکن، ہمارا لیڈر یہ کہا کرتا تھا۔ ہم اُس کے دیوانے تھے، بے لوث کارکن تھے، صبح شام کام کرتے تھے۔ الیکشن میں ہماری پارٹی جیت گئی، ہمارا لیڈر منسٹر بن گیا۔ اس کے بعد اس نے کارکنوں سے ملنا چھوڑدیا۔ ایک دن ہم شکایتیں کرنے اس کے گھر پر جمع ہوگئے۔ کچھ دیر میں لیڈر اپنے کتے کے ساتھ جوگنگ کرتا ہوا آیا۔ کتے نے سڑک کنارے کسی چیز کو منہ مارا۔لیڈر نے آواز لگائی، ’’ کم آن ہیرو! کم آن۔‘‘
تحریر : سید انور محمود