تحریر: آمنہ نسیم، لاہور
سلطان کا پورا نام یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین تھا جو تاریخ میں محمود غزنوی کے نام سے مشہور ہوا۔ سلطان کی پیدائش بروزمنگل 2 نومبر 971ء ہوئی کو ہوئی اور انتقال 30 اپریل 1030ء کو ہوا۔ سلطان محمود 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنت غزنویہ کا حکمران تھا۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کردیا اور اس کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔
وہ تاریخ اسلامیہ کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔وہ پہلے مسلمان حکمران تھے جنہوں نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور ہر حملے میں فتح حاصل کی۔اس عظیم مجاہد کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان کے بت کدے لرز اٹھتے تھے۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے زندگی کا زیادہ تر حصہ گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرکے گزارا۔ یہ سلطنت غزنویہ کے سب سے مشہور سلطان تھے۔سلطنت غزنویہ 976ء سے 118ء تک قائم ایک حکومت تھی جس کا دارالحکومت افغانستان کا شہر غزنی تھا۔سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کئے۔
جب سامانی حکومت کمزور ہوگئی اور اس کے صوبہ دار خودمختار ہوگئے تو ان میں ایک صوبہ دار سبکتگین (366ھ تا 387ھ) نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر غزنی میں 366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کی جو تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں سبکتگین کا خراسان پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اسی سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ خیبر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے۔
اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال حکومت کرتا تھا اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں۔ راجہ جے پال نے جب دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت طاقتور بن رہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج لے کر غزنی پر حملہ کردیا لیکن لڑائی میں سبکتگین نے اس کو شکست دے دی اور جے پال کو گرفتار کرلیا گیا۔ جے پال نے سبکتگین کی اطاعت قبول کرکے اپنی جان بچائی اور سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اب سبکتگین نے جے پال کو رہا کردیا اور وہ لاہور واپس آگیا لیکن اس نے وعدے کے مطابق خراج نہیں بھیجا جس کی وجہ سے سبکتگین نے حملہ کردیا اور وادی پشاور پر قبضہ کرلیا۔ سبکتگین کا 20 سال کی حکومت کے بعد انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت پر بیٹھا۔ سلطان محمود خاندان سبکتگین کا سب سے بڑا بادشاہ ہ ثابت ہوا۔ اسلامی تاریخ کے مشہور حکمرانوں میں سے محمود ہندوستان پر 17 حملوں کے باعث شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔محمود بچپن سے ہی بڑا نڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ کئی لڑائیوں میں حصہ لے چکا تھا۔
بادشاہ ہونے کے بعد اس نے سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ وہ کامیاب سپہ سالار اور فاتح بھی تھا۔ شمال میں اس نے خوارزم اور بخارا پر قبضہ کرلیا اور سمرقند کے علاقے کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی۔ اس نے پہلے بخارا اور سمرقند کاشغر کے ایلک خانی حکمرانوں کے قبضے میں تھے اور خوارزم میں ایک چھوٹی سے خودمختار حکومت آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ جنوب میں اس نے رے، اصفہان اور ہمدان فتح کرلئے جو بنی بویہ کے قبضے میں تھے۔ مشرق میں اس نے قریب قریب وہ تمام علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے۔
محمود عدل و انصاف اور علم و ادب کی سرپرستی کے باعث بھی مشہور ہے۔ اس کے دور کی مشہور شخصیات میں فردوسی اور البیرونی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔فردوسی کا شاہنامہ فارسی شاعری کا ایک شاہکار سمجھاجاتا ہے اور دنیا اسے آج تک دلچسپی سے پڑھتی ہے۔ البیرونی اپنے زمانے کا سب سے بڑا محقق اور سائنس دان تھا۔ اس نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کے کارنامے اور واقعات تاریخ اسلام کے اوراق میں سنہری الفاظ سے محفوظ ہیں۔ سلطان ایک نیک سیرت اور باعمل مسلمان تھا۔
غزنوی حکمرانوں کا دور پاکستان کی تاریخ میں خاص طور پر بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان تقریباً 200 سال تک غزنی کی سلطنت کا حصہ رہا اور اس زمانے میں اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ کوہ سلیمان کے رہنے والے پٹھانوں نے اسی زمانے میں اسلام قبول کیا اور لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کا مرکز بنا۔ 1974ء میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیا جس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال پہلے فوت ہوئے محمود غزنوی کے تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت تھا۔
ہزار سال گزرنے کے باوجود، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو دیکھا گیا کہ سلطان محمود غزنوی اپنے تابوت میں ایسے پڑے تھے جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور ان کے سیدھے ہاتھ سینے پر تھے الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہی ہے کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ امر رہتے ہیں۔اللہ کی ان کے مرکرز پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔آمین آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ میں نے سومنات کے مندر کا ذکر کیوں نہیں کیا۔
سلطان محمود کے بت شکن والے واقعہ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔میں بحیثیت تاریخ کے طالب علم ہونے کے اس بات کو سچ نہیں مانتا۔ کہ سلطان نے سومنات میں کسی بڑے مندر کوتوڑا تھا۔ اور وہاں سے سونا’ جواہرات ‘ ہیرے موتی اور مندر کے قیمتی دروازے غزنی لوٹ کر لے گیا تھا۔ یہ کہانی تقریبا سو سال پہلے انگریزوں نے صرف اس لئے گھڑی تھی تاکہ افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف ہندووں کی مدد لی جاسکی۔ انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ بھی کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔
تحریر: آمنہ نسیم، لاہور
Writer Club (Group)
Email: urdu.article@gmail.com
Mobile No: 03136286827