تحریر : ایم سرور صدیقی
یوں تو وہ خوش لباس تھا پہلی ہی ملاقات میں اس کے رکھ رکھائو اور صورت سے آسودگی کا احساس بھی ہوتا تھا لیکن اس وقت اس کامتغیر چہرہ سوچ میں ڈوباہوا تھا وہ بڑی دیرسے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔۔آخر اس نے لب کھولے بڑے کرب سے ایک سوال داغ دیا۔۔۔یار!میاں نواز شریف نے جلاوطنی سے بھی کچھ نہیں سیکھا ۔۔۔کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔۔اس کے خاندان کے22افراد حکومتی عہدوںپر فائز ہیں۔۔۔وہ بولے جارہاتھا اور میں چپ چاپ سننے میں مگن۔۔۔ اس وقت لگتاہے جمہوریت کسی بادشاہ سلامت کے رحم و کرم پرہے۔۔اس نے خلاف ِ توقع میرے شانے کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں؟ کیا لوگوںنے اس لئے ڈکٹیٹر سے چھٹکارا حاصل کیا تھا کہ ملک میں سول ڈکٹیٹرشپ کا دور۔۔ دورہ ہو ۔۔۔وزارتیں۔۔ قومی، صوبائی اسمبلیاں ،سینٹ سب میں قریبی عزیز و اقارب براجمان ہوں میںنے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے یہی کہنے پر اکتفا کیا ” یار آج تو آپ شیخ رشید ہی لگ رہے ہو اس نے میزپر مکا مارتے ہوئے پر جوش انداز میں کہا”اس وقت پاکستان میں ایک ہی لیڈرہے جو غریبوں کی بات کرتاہے ۔۔ جانتے ہو وہ کون ہے؟ وہ شیخ رشیدہے ۔۔۔ مجھے اسی لئے اس لیڈر سے محبت ہے میںنے تو عوامی مسلم لیگ کو جوائن بھی کرلیاہے۔۔۔میں اس پر جوان حاجی خالد سندھو کو کئی سالوں سے جانتاہوں سچا ۔۔کھرا،درد مند انسان سب سے بڑھ کر سیلف میڈ۔۔ مجھے ایسے ہی لوگ اچھے لگتے ہیں حالات کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے اور ملنے جلنے والوں کے حالات بدلنے کیلئے کوشاں مسلسل جدوجہد سے یقینا منزل آسان ہو جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت نے عام آدمی کو کچھ نہیں دیا ان کی محرومیاں دور کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے ملک کے طول و عرض میں لوگوںکی اکثریت غربت کی بے رحم چکی میں سسکتے ، تڑپتے ،لقمے لقمے کو ترستے گذرجاتی ہے لیکن ان کے حالات نہیں بدلتے اس ماحول میں اگر شیخ رشید یا خالد سندھوغریبوں کی بات کرتاہے ۔ تو یقینا شچی بات کرتاہے میں اس بات سے متفق ہوں یہ کیسی جمہوریت ہے عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔۔ہسپتالوںمیں غریبوںکی کوئی سنتا ہی نہیں، تھانوںکا باوا آدم ہی نرالاہے انصاف کے حصول کیلئے جانے والوں کی کوئی شنوائی ہی نہیں ۔سوچتاہوں یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ظالم طاقتور بھی ہے اوربااثر بھی اور تو اور ان کو پو چھنے والا بھی کوئی نہیں عوام داد اورفریاد کس سے کریں اور حکمرانو ں کا طرز ِ عمل تو
ذبح کرکے بھی ظالم نے
بڑے کس کس کے پر باندھے
کے مصداق ہے۔۔۔پھر خیال آتاہے یہ کیسی جمہوریت ہے جس کے ثمرات عام آدمی تک کیوںنہیں پہنچتے ،کیا تمام آسائشیں، مراعات، وسائل صرف اشرافیہ کا حق ہے؟ ٹیکس چور، جعلی ڈگری ہولڈر،دو نمبر دھندہ کرنے والے، شرابے اور بے ایمان جس ملک میں قانون ساز اداروں کا حصہ بن جائیں سوچا بھی نہیں جا سکتاوہاں کرپشن، رشوت،ملاوٹ اور دیگرایسے ہی قماش کے لوگوںکے خلاف کوئی کارروائی ہو سکے گی۔ان کے سیاست کے انداز سے یقینا اختلاف کیا جا سکتاہے لیکن اس جمہوریت کے بارے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان اور شیخ رشید جو کہتے ہیں دل تسلیم کرتاہے وہ سچ ہے ۔۔۔ اب تو لوگ بھی کہنے لگے ہیں کسی چینل پرطاہرالقادری، عمران خان اور شیخ رشید کا انٹرویو آرہاہو یا کسی پروگرام میں یہ شخصیات مہمان ہوں ان کی گفتگو سننے کو جی جاہتاہے چینل بدلنے کو من نہیں کرتا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوںکی محرومیوں کو زباں ملنے پر عام آدمی کے دل کا غبار نکل جاتاہے۔
ویسے ایک بات ہے ہر حلقہ میں سیاستدانوں کو حاجی خالد سندھو جیسے دو چار مخلص، پرجوش ،پر عزم ساتھی میسر آجائیں تو وہ انقلاب بپا کرسکتے ہیں جب سے ہوش سنبھالی ہے ہم نے اپنے ارد گرد محرومیوں اور مایوسیوں کو نوحہ کناں دیکھاہے عوام کو ان محرومیوں سے نجات دلانا ہمارے سیاستدان اپنا نصب العین بنا لیں تو اس ملک میں مثبت تبدیلی لانے کی امید کی جا سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر ہر شخص اپنے آپ سے دو فیصلے کرے پہلا: اپنے دل میں تہیہ کرلے اب وہ جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں، جھوٹی قسمیں، بلند بانگ دعوے، سبزباغ دکھانے والوںکے جھانسے میں نہیں آئے گا توکافی سارے معاملات بہترہونے میں مدد مل سکتی ہے دوسرا : مایوسی، وسائل کی کمی اور نا موافق حالات کے باوجود اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی دھن۔۔۔حالات کے رحم و کرم پر رہنے کی بجائے ایک عزم ۔۔ ولولے منصوبہ بندی اور جوش سے خوشحالی کی ایک نئی دنیا تخلیق ضرورکرنی ہے جانتاہوں یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن اس کے باوجود اپنی خداداد صلاحیتیوں ،کوشش ، ہمت اورجرأت سے ناممکن کو ممکن کر دکھاناہے
آپ دیکھیں گے اللہ تبارک تعالیٰ کس طرح آسانیاں پیدا کرتا ہے حالات کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے اور ملنے جلنے والوں کے حالات بدلنے کیلئے کوشش کرنے والوںکی کامیابی قدم چومتی ہے انسان کو کوشش اور کاوش کرتے رہنا چاہیے جس سے یقینا منزل آسان ہو جاتی ہے میرا تو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ پاکستان میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا سسٹم غریبوںکوسپورٹ کرنے کی بجائے ان لوگوں کو سپورٹ کرتاہے جوپہلے ہی مسئلہ بنے ہوئے ہیں پاکستان کا موجود ہ طبقاتی و سامراجی اور غیراسلامی نظام کی تبدیلی کیلئے عوام کو خود سوچناہوگا اتحادمیں بڑی طاقت ہے حالات کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے اور ملنے جلنے والوں کے حالات بدلنے کیلئے کوشاں رہنا زندگی کی علامت ہے مسلسل جدوجہد سے یقینا منزل آسان ہو جاتی ہے۔
آئیے !عہد کریں ہم نے اپنی شخصیت میں ،اپنے سسٹم سیاست میں اور اپنے ملک میں تبدیلی لانی ہے کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے؟اس کے ساتھ ساتھ محترم وزیرِ اعظم سے بھی گذ ار ش ہے کہ وہ بھی اپنے آپ میں تبدیلی لائیں سب کو ساتھ لے کر چلیں عوام کی فلاح وبہبود کیلئے انقلابی اقدامات کریں پھر کوئی خالد سندھو یہ نہ کہے !میاں نواز شریف نے جلاوطنی سے بھی کچھ نہیں سیکھا ۔۔۔کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
تحریر : ایم سرور صدیقی