انٹرنیٹ کی بدولت دریافت ہوئی فیس بک اور ٹویٹر والی سہولتوں نے ذہنوں کو یقینا آزاد کیا ہے۔ لوگوں کو یقین آگیا کہ نام نہاد ریگولرمیڈیا کے ذریعے ریاستی قوت یا اشتہاری کمپنیوں کے اثر کی وجہ سے پورا سچ ہمارے سامنے نہیں آتا۔ سمارٹ فون کے مالک تقریباََ ہر شخص نے خود کو اپنے تئیں ایک صحافی بنالیا۔ حکمرانوں کے جبر اور بے حسی سے اُکتائے لوگوں کو اپنے غصے کے اظہار کے لئے مو¿ثر پلیٹ فارم میسر ہوگئے۔ ان کی اہمیت کا اصل احساس نام نہاد عرب بہار کے دوران ہوا۔
حریت کی ہواتیونس سے چلی تو مصر میں ”تحریر اسکوائر“ ہوگیا۔ حسنی مبارک جیسے آمروں سے نجات ملی۔ مصر کی تاریخ میں پہلی بار آزادانہ انتخابات کے ذریعے لوگوں کو اپنی پسند کا صدر منتخب کرنے کا حق نصیب ہوا۔
اشرافیہ مگر اشرافیہ ہوتی ہے۔وقتی شکستوں سے گھبراتی نہیں۔ اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لئے یکسو ہوکر جبر کے نئے ہتھیار ڈھونڈہی لیتی ہے۔ سوشل میڈیا کی حرکات کا اس نے بغور جائزہ لیا۔ وسائل ریاستی اداروں اور اشرافیہ کے پاس ایک عام آدمی سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے انگریزی محاورے والی میزیں الٹادی گئیں۔ مصر میں السیسی کی صورت میں ایک اور حسنی مبارک پیدا ہوگیا۔
شام کے بشارالاسد نے ریاستی عصبیت کو وحشیانہ انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایران اور حزب اللہ مسلکی نفرتوں کی وجہ سے اس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ پھر روس کے صدرپیوٹن کو یاد آگیا کہ اس کا ملک بھی کبھی ایک عالمی طاقت تسلیم کیا جاتا تھا۔ افغانستان میں اس کی افواج کو ایک طویل جنگ کے ذریعے شکست دینے کے بعد صرف امریکہ ہی واحد سپرطاقت تسلیم کی جانے لگی تھی۔ کریمیا کو یوکرین سے جدا کرکے اپنے قبضے میں لینے کے بعد پیوٹن نے یورپ کو اپنی قوت یاد دلائی۔ اب ضرورت مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر بحال کرنے کی تھی۔ اس کی فضائیہ اور فوج نے پوری دلجمعی کے ساتھ بشارالاسد کو بچالیا ہے۔ ترکی،نیٹو کا رُکن ہوتے ہوئے روس کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے اثر کو یقینا روک سکتا تھا ۔اردوان کو مگر اپنے ملک میں ”سلطانی“ قائم کرنا تھی۔ اس ”سلطانی“ کی خاطر وہ اب پیوٹن کا دوست بن چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ بھی ترکی نے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرلئے ہیں۔ گزشتہ سال اس کے خلاف فوجی بغاوت کی جو کوشش ہوئی اسے عوامی قوت کی بنیاد پر ناکام بنادیا گیا۔اردوان فتح اللہ گولن کو اس بغاوت کا اصل ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔عصر عاضر کے ایک ”صوفی“ کا روپ دھار کر امریکہ میں کئی برسوں سے مقیم گولن نے انتہائی منظم انداز میں ”جدید“ نظر آتی ایک اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس تحریک کی قوت کو شاطرانہ ذہانت کے ساتھ اردوان نے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے استعمال بھی کیا۔ گولن کے پاس مگر کسی دوسرے کو ”بادشاہ“ بنانے کی قوت تھی۔ خود کو سلطان بنانے کی سکت سے وہ محروم تھا۔ اصل ”سلطان“لہذا اردوان ہی ثابت ہوا۔ ترکی کاریگولر یاسوشل میڈیا اب صرف اس کے تیار کردہ بیانیے کی اطاعت اور فروغ پر مجبور ہے۔ قصہ ختم ہوا۔
انٹرنیٹ پر اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے مسلسل بمباری کرتے ہوئے ڈونلڈٹرمپ بالآخر امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا ہے۔ اس کے انتخاب نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ لوگ مگر مایوس نہیں ہوئے۔اس کی حلف برداری کے عین ایک روز بعد لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے واشنگٹن میں جمع ہوکر دنیا کو یاد دلادیا کہ آج کے دور میں انہیں برابری کے حقوق دینا ہوںگے۔ انہیں محض ”گھرداری“ کی حدود تک محصور نہیں کیا جاسکتا۔واشنگٹن میں جمع ہوئی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے لندن جیسے شہروں میں بھی بڑے اجتماعات منعقد ہوئے ہیں۔ اپنی اہمیت اور حقوق یاد دلانے والی اس تحریک کا اصل ہتھیاربھی مگر سوشل میڈیا ہی ثابت ہوا۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے بے نیاز ایک تحریک جو اپنی سرشت میں اجتماعی اور برجستہ ہے۔
کئی حوالوں سے عدلیہ بحالی کے نام پر ایسی ہی ایک تحریک پاکستان میں بھی 2007ءکے سال کے دوران دیکھنے کو ملی تھی۔ نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ان دنوں جلاوطن ہوئے بیٹھے تھے۔ فوجی وردی پہنے ہوئے پرویز مشرف ”منتخب صدر“ کہلاتا تھا۔ اختیارات اس کے بھی سلطانوں ایسے تھے اور وہ مزید پانچ سالوں کے لئے ان ہی اختیارات کے ساتھ دوبارہ ”منتخب“ ہونے کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔
افتخار چودھری کا مگر ”انکار“ ہو چکا تھا۔ چودھری اعتزاز احسن لاہور سے روانہ ہو کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بے اثر اور ملکی معاملات سے لاتعلق ہوتی نظر آئیں۔ ”چیف“ کے ”بے شمار“ جاں نثار سڑکوں پر آکر ریاست کو ”ماں“ بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ پاکستان نئے خیالات کے ساتھ جدید طرز کا ایک ملک نظر آنے لگا۔ میڈیا کی مستعدی‘ بے باکی اور مکمل آزادی نے مزید رونق لگا دی۔ ہمارے ”سلطانوں“ نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ بڑی ہوشیاری سے مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔
افتخار چودھری نے ”ارسلان کا ابو“ ثابت ہو کر ان کا کام آسان کر دیا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی سیاسی قیادت بھی مصالحت اور قومی مفاہمت کے نام پر اپنے پانچ سال مکمل کرنے کی فکر میں مبتلا نظر آئی۔ اقتدار کے ان دنوں میں وہ غلط یا صحیح باتوں کی وجہ سے خلقِ خدا کی بہتری کے بجائے سیاسی عہدوں کی طاقت سے اپنی ذات اور خاندان کے لئے دولت جمع کرنے کی ہوس میں مبتلا ہوئے نظر آئے۔ پھر 2013ءہو گیا۔
پیپلز پارٹی فارغ ہو گئی۔ نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ استحکام مگر انہیںاب بھی نصیب نہیں ہوا۔ عمران خان اور ان کے دئیے دھرنے رونق لگانا شروع ہو گئے۔ ان دنوں وِرد پانامہ- پانامہ کا ہے۔ ریاستی قوت واختیار ایک بار پھر وہیں چلا گیا ہے جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کے بعد 1951 سے بتدریج منتقل ہونا شروع ہوا تھا۔ نام نہاد ریگولر اور خود کو آزاد وبے باک کہلاتے میڈیا پر ان دنوں اسی بیانیے کا اجارہ ہے جو ہمارے دائمی حکمرانوں نے ترتیب دیا ہے۔ سوشل میڈیا میں جن لوگوں نے اس بیانیے کا ”توڑ“ تراشنے کی کوشش کی تھی ”حرمتِ دین“ کے نام پر لیکن ان کا مکوٹھپ دیا گیا۔ اب باری ریگولرمیڈیا میں موجود چند گنے چنے افراد کی ہے۔ میں ان کے خاموش ہو جانے کا بے چینی سے منتظر ہوں۔ اشرافیہ‘ اشرافیہ ہوتی ہے۔ وقتی شکستوں سے گھبرایا نہیں کرتی۔ اپنی حاکمیت اور تسلط برقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ یکسو ہو کر لوگوں کو اپنے بیانیے کا محتاج اور غلام بنانے پر مجبور کر دیا کرتی ہے۔ اس سے مفر ممکن ہے مگر فیض احمد فیض نے کئی برس پہلے پریشان ہو کر یہ بھی تو کہہ دیا تھا: ”شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے۔ دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟“
خ