تحریر: شاہ بانو میر
آج جمعة المبارک پڑھنے کے بعد دعا میں خصوصی طور پر ان ماؤں کے صبر کی دعا ضرور کریں جن کے جگر گوشے 16 دسمبر کو ہمارے غلط اندازِ سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے٬ نجانے وہ کون لوگ ہیں جو اس حادثے کو اتنی جلدی فراموش کر کے خوشیوں کی محفلیں سجانے لگے٬ یہ المیہ ناقابل فراموش ہے ٬تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ ابھی کچھ وقت اس زخم کو تازہ رہنے دیں ٬۔ یہ وہ واقعہ ہے جس نے پاکستان کی سیاست کا رخ موڑ کے رکھ دیا ہے٬۔ ہمیں بھی اپنا رخ موڑنا ہے خود کو متحد کرنے کا اس سے پہلے اتنا مضبوط جواز دشمن نے نہیں دیا تھا جتنا اب دیا ہے منحصر ہم پر ہے۔
کہ ذات کی بڑائی سے آگے نکل سکیں اور اجتماعیت کی جانب بڑھ سکیں گے یا اپنی ذات کی اہمیت کامیابی اور عروج کیلئے مزیدپستی میں گرتے چلے جائیں گے٬یا ملک کی بلند کرتے ہوئے قوم کو آگے لیجاتے ہوئے امت کا عروج چاہتے ہوئے اپنی اپنی ذات کی نفی کر کے خود کو مِٹا کر دوسروں کے ساتھ ایک قدم پیچھے رہ کر وہ کر جائیں گے جو لازوال ہو؟ سوچنا تو آج ہمیں ہے٬۔ اور ہم سوچنے کے عادی نہیں ہم جسم کی نمائش کے عادی دماغ کی طاقت سے محروم لوگ ہیں کامیابی سامنے ہے ضرورت صرف اپنی ذات کی پسپائی ہے٬ اگر ایک اعتزاز حسن کی قربانی یاد رکھتے تو آج 141 قربانیاں نہ دینی پڑتیں ٬۔ لیکن ہم وقتی کامیابی اور وقتی نمائشی کھوکھلے نظام اور حفاظتی اقدامات کے عادی کمزور سوچ کے مالک کمزور لوگ ہیں٬
اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج سیکڑوں گھر آہ و بکاہ کا منظر دکھا رہے ہیں٬حوصلہ مند نغمہ نشر کرنے سے اُن کے درد کا مداوا نہیں ہونے والا٬ نہ ہی ان کاوہ نقصان پورا ہو سکتا ہے جس کا تخمینہ لگانا نا ممکن ہے٬۔ کئی شہداء کی بیوائیں ہیں جو ایک دہائی سے زائد عرصہ سے جاری رنے والی اس بے بنیاد دہشت گردی کی جنگ میں “” فوجی خاندانی روایات”” کی عادی ہیں اور بیوگی کی چادر اوڑھ کر خاموش زندگی حوصلے اور سکون سے گزار رہی ہیں٬ لیکن یہی بیوائیں جب اکلوتے جانشینوں کے جسدِ خاکی کو یاد کرتی ہیں اُن بچوں کے اڑے ہوئے چہرے اور خوبصورت اعضاء چہروں سے غائب پاتی ہیں تو کس کرب کس اذیت کا شکار ہوتی ہیں ٬ سوچئے خود کو اکٹھا کر کے مستقبل کیلیۓ کوئی ایسا مضبوط لائحہ عمل مرّتب کیجیۓ کہ پھر ایسا سانحہ نہ ہو ایک خدشہ ہے مجھے ان بچوں نے ہمیں صحیح معنوں میں ہِلا کر رکھ دیا ہے٬ پورے ملک کی ذہنی سوچ کو دکھی کر دیا ہے٬
دشمن خوشیوں کے شادیانے بجاتا ہوگا٬ کہ ایسا وہ کر گیا جِس نے ہمیں رنج و الم کے سمندر میں ڈبو دیا٬ یہی ہر دشمن کی کامیابی ہے کہ کتنا کاری وار وہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے٬ ٬ مجھے ڈر ہے اگر ابھی بھی پوری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ بچوں کے تعلیمی مراکز کو محفوظ نہ بنایا گیا تو یہ”” ایڈونچر”” وہ بار بار کریں گے ٬ ضرورت عارضی حفاظتی اقدامات کی نہیں مستقل حساس حفاظتی نظام کی ہے٬ سب سے زیادہ خطرناک صوبہ خیبر پختونخواہ ہے ٬ جہاں پی ٹی آئی حتی الوسع محدود وسائل میں رہتے ہوئے عوام کو نئی نئی سہولیات سے متعارف کروا رہی ہے٬ اس حادثے کے بعد بھی پیدا ہونے والی صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ جانے والے بچےّ تو دہشت گردی کا شکار ہو گئے لیکن وہ بچّے جو زندہ ہیں ان کے چہروں کو ایسے نشانہ بنایا گیا ہے ٬ کہ ان کا باہر نکلنا کسی کو ملنا عملی زندگی میں اعتماد کے ساتھ کام کرنا نا ممکن ہے٬ مگر ہر پریشان کُن مسئلے کا حل پی ٹی آئی کے پاس ہے الحمد للہ پی ٹی آئی کی مرکزی ٹیم نجانے کیوں مجھے حضرت عمر کے اُس فارمولے کی یاد دلاتی ہے جس میں ان کی کامیابی کی اصل وجہ بڑے عہدوں پر کسی بھی علاقے کے معاشی طور پر بد حال لوگ نہیں بٹھائے جاتے تھے ٬بلکہ دو شرائط ہوتی تھیں
1 مالدار
2 دینی لحاظ سے مضبوط
ایسے لوگ کیونکہ مالی طور پے آسودہ حال ہوتے تھے تو ان کو خریدنے کی کوشش بیکار ہوتی تھی ٬ ان کو لالچ نہیں دیا جاسکتا تھا٬ نہ ہی کمزور آسائشات دے کر نظام کا پارٹی کا بیڑہ غرق کیا جا سکتا تھا٬ یہی کامیاب فارمولہ عمران خان نے اپنایا ہے اور مرکز کی حد تک ایسے لاجواب ایسے بے مثال متمول لوگوں کو چُنا ہے جن کے سامنے ہر جھوٹا احتجاج خواہ وہ سیکڑوں کی تعداد میں ہو دم توڑ جاتا ہے٬ وجہ عمران خان کا اُن پر اعتماد اور ان کے ماضی کا ریکارڈ ہے اور یہی وجہ ہے جب کہیں ان افراد سے متعلق کوئی آفت آتی ہے تو نہ صرف ملک میں بلکہ بین القوامی طور پے پاکستان کو خاموش مدد مل جاتی ہے ایسی ہی ایک سوچ میرے ذہن میں ابھر رہی ہے
ڈاکٹر ہمایوں مہمند دنیا کے ٹاپ پر آنے 30 ماہر پلاسٹک سرجن میں سے ایک ہیں٬
کچھ روز قبل ایک خبر سنی کہ 141 تومعصوم چراغ ظالموں نے گُل کر دیے لیکن 63 بچے ایسے ہیں جن کے چہروں پے ایسے زخم ہیں جن سے ان کے چہرے اعضاء سے محروم ہیں٬ انہیں پلاسٹک سرجری کی ضرورت ہے٬ الحمد للہ قائد تحریک چئیر مین جناب عمران خان صاحب نے ان بچوں کے علاج کیلیۓ متعلقہ حکومت کو ہدایت کر دی ہے٬ یہاں نجانے کیوں مجھے فخر ہو رہا ہے کہ انشاءاللہ اس علاج معالجے میں یقینی طور پے ڈاکٹر مہمند صاحب کی شبانہ روز محنت بھی شامل حال ہوگی٬ یہی ہوتی ہے وہ کامیابی جو نظام کی کامیابی ہے٬ جو سیاست کی مثبت پیش رفت ہے٬
آئیے اُن بچوں کیلئے دعائےخاص کریں جو دنیا سے جا چکے ان کے لواحقین کو اللہ صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ان بچوں کی بحالی صحت کیلئےدعا کرے٬ اور اللہ کے حضور عاجزی سے سربسجود ہو کر پوری قوم علاج کروانے والوں کیلئے دعائے خیر کرے جو ان بچوں کی محروم متاثرہ زندگی میں پھر سے صحت کے ساتھ خوبصورت رنگ بھرنے کیلئے کوشاں ہیں٬ آئیے اس حادثے سے سبق سیکھ کر آپس کے تمام چھوٹے بڑے انفرادی اجتماعی گروہی علاقائی صوبائی مذہبی سب اختلافات بھلا کر کامیاب پاکستان کامیاب قوم کیلئے متحد ہو جائیں کہ دشمن پھر کبھی ہماری کمزوری ہمارے ننھے مُنے کھلکھلاتے بچوں کو نہ رُلا سکے نہ زخمی کر سکے اور نہ مار سکے آئیے عہد کریں
پی ٹی آئی کے اس فیصلے نے جہاں اُن بچوں کی زندگی کو نفسیاتی مایوسی سے نکالنے کا اہتمام کر دیا ہے وہاں انشاءاللہ یہ بچّے مستقبل کا وہ قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے جو اس ملک کو کامیابی کی شاہراہ پر بہت آگے لیجانے والے ہیں انشاءاللہ شکریہ!! عمران خان بہت افواہوں اور بد گمانیوں میں یہ پیغامِ بہار لگا٬ ان بچوں کے علاج کی خبر نے میرا اور مجھ جیسے لاکھوں پاکستانیوں کے اعتماد بحال کر دیا٬ خوشبو سے ہمیشہ مہک ہی ابھرے گی سورج کے ہمراہ رہنے والے روشنی ہی بکھیریں گے جیسے عمران خان کے ساتھ ان کی ٹیم۔
تحریر: شاہ بانو میر