ملکی تاریخ میں دوسری بار سیاسی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں۔ اس سے قبل مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور چاروں صوبوں میں اس وقت کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، لیکن پارلیمنٹ سے منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے کیس میں پانچ سال نااہل ہوئے تو میاں نواز شریف بھی عدالتی فیصلے کے تحت نااہل ہوگئے۔ اس وقت سید یوسف رضا گیلانی نے نااہلی کے فیصلے پر اتنی مزاحمت نہیں کی جتنی اب کی بار نواز شریف کی جانب سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جہاں نواز شریف کے بیانات ملکی سیاست میں طوفان برپا کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی ن لیگ کو فالو آن کرنے میں مصروف ہے۔
نواز شریف کے کھلاڑی بھی عمران خان کی ٹیم میں شامل ہو رہے ہیں، آج کل ملکی سیاست میں جو ہو رہا ہے یہ کوئی پہلی بار نہیں۔ ملکی سیاست میں چلنے والی ہواؤں کے رخ کو دیکھ کر ٹھکانے بدلنے والے پنچھی اپنی اڑان بھرتے رہتے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کا ایک اتوار بازار لگا ہوا ہے اور تحریک انصاف کی دکان خوب سجی ہوئی ہے۔ خیبر سے کراچی تک سیاسی پنچھی تحریک انصاف کو اپنا مسکن بنا رہے ہیں، عمران خان نے جب سیاست میں آنے کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے انصاف کا نعرہ لگا کر اپنی پارٹی کا نام بھی تحریک انصاف رکھا اور پھر یہ نعرہ آگے بڑھ کر کرپشن کے خاتمے اور تبدیلی تک پہنچ گیا۔ اور اب کی بار عمران خان دو نہیں ایک پاکستان بنانے کا نعرہ لگا کر الیکشن میں اتر رہے ہیں۔
عمران خان کی تبدیلی کا نعرہ 2013 کے الیکشن کے بعد مزید زور پکڑ گیا ہے۔ عمران خان نے جس برق رفتار سے 2013 کے الیکشن میں انتخابی مہم چلائی تھی، انہیں یقین ہو گیا تھا کہ آئندہ ملک میں حکومت تحریک انصاف ہی کی ہوگی؛ لیکن تحریک انصاف صرف خیبرپختونخوا میں کامیابی حاصل کرسکی۔ پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو قابو نہ کرسکی، مرکز میں ن لیگ کی حکومت بن گئی اور نواز شریف تیسری بار وزیراعظم تو بن گئے لیکن عمران خان نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور نہ ہی نواز شریف کی سٹیبلشمنٹ سے بنی۔
عمران خان نے جب اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اس وقت نواز شریف حکومت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں بنیادی کردار آصف زرداری کا تھا۔ اگر اس وقت پیپلزپارٹی نواز شریف کا ساتھ نہ دیتی تو مسلم لیگ ن کےلیے بڑی مشکل کھڑی ہو جاتی، مسلم لیگ ن حکومت کو مشکل میں ڈالنے میں نوازشریف کی اپنی پالیسیاں بھی تھیں۔ عمران خان کی جانب سے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا، اگر اس وقت عمران خان کے مطالبے پر عمل کرلیا جاتا تو ملک میں اتنی افراتفری نہ پھیلتی؛ لیکن دونوں جانب سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا گیا۔
بڑے نشیب و فراز کے بعد ن لیگ اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ حکومت کے جاتے جاتے نوازشریف کے ساتھی بھی انھیں چھوڑتے جا رہے ہیں، آئندہ سیاسی ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے سیاسی پنچھی تحریک انصاف کو اپنا مسکن بنا رہے ہیں۔ مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ عمران خان ماضی کی حکومتوں پر کرپشن کے الزمات لگاتے ہیں لیکن ان ہی حکومتوں کا حصہ رہنے والے ارکان جب تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا دامن صاف ہوجاتا ہے۔ عمران خان خیبرپختونخوا میں اے این پی پر خوب کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں، ایزی لوڈ حکومت قرار دیا گیا، ان ہی کی حکومت میں وزیر رہے پرویزخٹک جب تحریک انصاف کا حصہ بنے تو وہی تحریک انصاف کی حکومت کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
وزیراعلیٰ پرویزخٹک جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تباہ اسکول اور اسپتال ملے، ٹوٹا پھوٹا نظام ملا، تو وہ ان حکومتوں کا حصہ رہے، اس وقت کابینہ کے اجلاسوں میں بہتری کی بات کیوں نہیں کی؟ یہی سوالات اب پی ٹی آئی میں ناراض ایم پی ایز کی جانب سے اٹھائے جا رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات میں پارٹی سے نکالے جانے والے ایم پی ایز کا کہنا ہے کہ ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں کے لیے پارٹی میں جگہ تنگ کی جا رہی ہے اور جو دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں ارکان شامل ہو رہے ہیں وہ واشنگ پاؤڈر سے نہا دھو کر صاف ہو رہے ہیں۔
دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا سلسلہ تو جاری ہے، لیکن اب امتحان عمران خان کے لیے بھی پیدا ہوگا جب ٹکٹوں کی تقیسم ہوگی۔ عمران خان ان پارٹی ورکرز کے ساتھ کیا کریں گے جو پہلے سے ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھے ہیں، نئے آنے والے کھلاڑیوں کو بیٹنگ آرڈر تو دیا جا رہا ہے لیکن پہلے سے موجود کھلاڑی ایسی صورتحال پر پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بھی کپتان کے پرانے کھلاڑی ٹکٹوں کی تقسیم کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پشاور میں صمد مرسلین کا شمار پی ٹی آئی کے بانی ورکرز میں ہوتا ہے، وہ شوکت یوسفزئی کے ساتھ ملکر پی ٹی آئی کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، صمد مرسلین نے 2013 کے الیکشن میں قومی اسبملی کی نشست این اے ون سے ٹکٹ کے لیے درخواست دی لیکن عمران خان خود الیکشن لڑنے سامنے آگئے اور ضمنی الیکشن میں بھی اس نظریاتی ورکر کو نظرانداز کیا گیا۔ اس بار بھی کچھ اس طرح دکھائی دے رہا ہے کہ پشاور میں دوسری جماعتوں سے آنے والوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ پشاور میں قومی اسمبلی کے لیے پیلزپارٹی سے شامل ہونے والے شوکت علی کو ٹکٹ سے نواز جا رہا ہے، اسی طرح مسلم لیگ ن سے شامل ہونے والے ناصر موسیٰ زئی کو بھی ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ این اے فور کے ضمنی الیکشن میں بھی اے این پی سے شامل ہونے والے ارباب عامر کو اپنے پارٹی کے نظریاتی ورکرز پر فوقیت دی گئی۔
ایسی صورتحال پر سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی چل پڑی ہے کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے ان پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ چل پڑے ہیں جو ماضی کی ان حکومتوں میں شامل رہے جن پر عمران خان کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی یا تحریک انصاف کے فیصلے کرنے والوں پر نظر ڈالیں تو ان میں وہی شامل ہیں جو دوسری پارٹیوں سے نقل مکانی کرکے آئے اگر تحریک انصاف 2018 کے الیکشن میں حکمران جماعت بن جاتی ہیں تو کیا عمران خان باگ ڈور ان افراد کے ہاتھ میں دیں گے جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کا بھی حصہ رہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عمران خان کو دینا ہوگا۔