تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
ہر سال لاکھوں فرزندان اسلام سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہوئے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرتے ہیں، اس دن پہلے حضرت ابراہیم نے اپنے خواب کو سچا کرنے کیلئے اپنے جان سے عزیز فرزند حضرت اسماعیل کی قربانی کا فیصلہ کیا ۔حضرت ابراہیم نے اپنا خواب اپنے لخت جگر کو سنایا تو انہوں نے کہا والد محترم میں ہر طرح تیار ہوں آ پ مجھے اللہ کی راہ میں قربان کر دیں جب آپ اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری پھیرنے لگے تو حضرت اسماعیل نے کہا ” والد محترم آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں کہیں چھری چلاتے وقت باپ بیٹے کی محبت آڑے نہ آئے، اور جس سے آپ کے دل میں بیٹے کی محبت جاگ جائے ،آپ ناکام نہ ہو جائیں۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سیکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
حضرت ابراہیم نے پٹی آنکھوں پر باندھ کر ب اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری چلائی تو چھری نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم پر چلنے سے انکار کر دیا اور عین اس وقت ایک مینڈھا قریب آگیا اور حضرت ابراہیم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے پیغام آیا کہ ” اے ابراہیم تو نے اپناخواب سچا کر دکھایا اب اس مینڈھے کو قربان کر ہم نے تیری قربانی قبول کرلی اور یوں آپ نے اپنے بیٹے کی جگہ وہ مینڈھا قربان کیا، اس سنت کو 14سوسال سے ساری دنیا کے مسلمان زندہ کرتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو قربانی اس جذبے کا نام ہے جو حضرت ابراہیم کے دل میں موجزن تھا۔اللہ سے محبت کا جذبہ ،اللہ کی محبت کے لیے سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ اپنی سب سے قیمتی چیزیں حتیٰ کہ اپنی اولاد اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا جذبہ اور اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ یہی وجہ تھی کہ جو انہوں نے خواب میں بشارت ہونے پر اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کر لیا اور قربان جائیے اس فرمان بردار بیٹے پر جس نے باپ کے خواب کو سچ کرنے کیلئے اپنی قربانی دینے کیلئے خود کوخوشی خوشی پیش کردیا، قربانی کا اصل مقصد یہی جذبہ ہے جس کو اپنے دلوں میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کو قربانی کا خون یا گوشت نہیں پہنچتا بلکہ جس نیت سے ایسا کیا جاتا ہے اس کا ثواب ملتا ہے۔
ہم ہر سال قربانی کرتے ہیں، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کرتا ہے کیونکہ اس میں کوئی قید نہیں کہ آپ اونٹ ہی کریں، گائے ہی کریں، آپ کی جیب جتنی اجازت دیتی ہے آپ جانور قربان کریں مگر ایک بات جو اس سارے پراسیس میں یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ قربانی اس چیز کا نام نہیں کہ عیدالاضحی سے ایک روز پہلے بکرا لائے اورا گلے روز قصائی کو بلا کر ذبح کروا دیا، بات پھر وہی ہے کی آج قربانی بھی دیگر رسموں کی طرح فیشن بن گئی ہے امراء اپنی امارات کی نمائش کرتا ہے تو کوئی لاکھوں روپے کی گائے خرید کر سارے محلے کو بتاتا ہے اس نے سب سے قیمتی گائے خریدی ہے، یہ جذبہ قربانی کا نہیں یہ تو صرف نمودو نمائش ہے اسے ہی تو ریا کہتے ہیں ۔ اس کی بھی اس قربانی کا وہ جذبہ کار فرما نہیں جو اس کی اصل روح ہے کم ازکم تین چار ماہ پہلے بکرا لا کر گھر میں رکھا جائے اور اس سے پیار کیا جائے کہ جب اس کے گلے پر چھری پھرے تو آپ کے دل میں بھی کچھ ہو ۔کہ یہی وہ جذبہ ہے جسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ویسے تو اس بات کی بھی بہت اہمیت ہے کہ یہ دور جسے مادیت کا دور کہا جاتا ہے سب سے بڑا روپیہ ہے ایسے میں اگر ریا کے بغیر کوئی قربانی کے لیے اللہ خوشنودی کے لیے پیسے خرچ کرتا ہے قربان کرتا ہے تو بہت بڑی بات ہے ایک چیز جس پر زیادہ زور دے رہا ہوں وہ ہے نیت ،جس میں دکھاوا نہ ہو ۔ حضرت ابراہیم نے اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ صرف اس لیے کیا کہ یہ حکم انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دیا تھا۔ اس سے یہ بات سامنے گئی ہے کہ ہمیں اپنے رب پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ بیدار کرنا چاہیے کہ اگر اللہ کی راہ میں ہمیں اپنی عزیز ترین شے بھی حتی کہ اپنی اولاد بھی قربان کرنی پڑے تو ہم کردیں گے یہ ہے قربانی کی اصل روح جو آجکل بالکل مفقود ہو گئی ہے ۔آج ہم قربانی تو ضرور کرتے ہیں مگر صرف دکھاوے اور ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کیلئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس روز سنت ابراہیمی کو زندہ کریں اور اپنے اندر وہی جذبہ پیدا کریں جوحضرت ابراہیم کے دل میں تھا اور قربانی کے بعد اس کا گوشت زیادہ سے زیادہ ایسے مستحقین میں تقسیم کریں جو سارا سال گوشت کے لئے ترستے ہیں اب ایسا کیا جاتا ہے کہ فریج گوشت سے بھر لی جاتی ہے ، یہ کوئی قربانی نہیں کہ آپ اپنوں میں ہی گوشت تقسیم کردیں اور غرباء مساکین کو یاد نہ رکھیں عید قربان ہمیں ایثار محبت کا درس دیتی ہے اس روز ہمیں اپنے ان بھائیوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جو غربت،سیلاب ،ہجرت کی وجہ سے بے بس اور لاچار ہیں۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال