تحریر : عقیل خان آف جمبر
ہم بچپن سے یہ محاورہ سنتے آرہے ہیں کہ “نیکی کر دریا میں ڈال” مگر یہاں تواس کے برعکس ہوتا ہے۔سب سے پہلے تو آج کے اس نفسا نفسی کے عالم میں کسی انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ کسی وہ غریب کی مدد کرسکے اور اگر کوئی انسان کسی کی مدد کر بھی دے تو چندافراد ہیں جو اس محاورے پر پورا اترتے ہیں ورنہ زیادہ تر لوگ تو دریا میں ڈالنے کی بجائے دنیا کے سمند ر میں چیخ چیخ کر سب کو بتاتے ہیں اور جس شخص نے مدد مانگی ہوتی ہے وہ ساری زندگی ایسے لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا ہے۔وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس سے بہتر تو بھوکھا مرنا منظور ہے مگر ایسے لوگوں سے مدد کبھی نہ مانگے۔
جس چیز نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا اور جو حقیقت پر مبنی بھی ہے وہ میں اپنے اس کالم کے ذریعے اپنے قارئین سے شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔ ہوسکتا ہے شاید میرے اس کالم کی بدولت بہت سے گمر اہ لوگ اپنی سوچ کو بدل کر راہ راست پر آجائیں۔ عید الضحیٰ کے دن جن لوگوں پر قربانی واجب ہوتی ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق قربانی کا فرض ادا کرتے ہیں۔قربانی سنت ابراہیم بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جاتی تھی۔ ہر کوئی صاحب استطاعت شخص سنت ابراہیم کو پورا کرنے کے لیے قربانی کا جانور خریدتاہے اور پھر دس ذوالحج کو اس کو ذبح کرکے اس سنت کو ادا کرتا ہے۔
آج کل کے اس دور میں سنت ابراہیمی کو بھی دنیا داری کے طریقے سے ادا کیا جارہا ہے۔ قربانی کا فرض دیکھا دیکھی کی بنا پر ادا کیا جارہا ہے۔ ہرشخص اپنے عزیز واقارب اورمحلے داروں کو نیچا دکھانے کے لیے جانور مہنگے سے مہنگا خریدتا ہے۔ان کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا جانور زیادہ مہنگا ہوتاکہ رشتے داروں اور محلے داروں میں ہمارا نا م سب سے اونچا ہو۔کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مہنگا جانور نہیں خرید سکتے اس لیے وہ عید سے ایک دن پہلے جانور لے کر آتے ہیں اور عید والے دن قربان کرتے ہیں۔ جولوگ مہنگا جانور خرید کرلاتے ہیںوہ ہر روزاُس جانور کو پورے محلے میں گھوماتے پھرتے ہیںتاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ انہوں نے کتنا مہنگا جانور قربانی کے لیے خریدا ہے؟
جب کہ اسلام میں جانور کی قیمتی ہونے یا نہ ہونے سے کوئی سروکار نہیںاگر آپ نے 10 ہزار کا جانور لیا ہے یا10 لاکھ کااس کا سنت ابراہیمی سے کوئی تعلق نہیں۔ قربانی تو نیت پر ہوتی ہے۔ اگر آپ نے وہ جانور دنیا دکھاوے کے لیے لیا ہے تو اس کا اجر بھی دنیا ہی ملے گیا کیونکہ آپ کا اور آپ کے جانور کا چرچا پورے محلے میں ہورہا ہوتاہے اورہر کوئی آپ کی بڑائی کررہا ہے اور یہی کچھ ایسے لوگ چاہتے ہیں۔ اللہ کوتو آپ کی نیت سے غرض ہے اس کے جانور کی خوبصورتی یا وزن سے نہیں۔ جس غریب نے اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق جانور خریدا خواہ وہ پانچ ہزار کا ہی کیوں نا ہواللہ کو تو اس کی وہ قربانی قبول ہے۔
اکثراسلامی تہواروں پر بچوںکی خواہش ہوتی ہیں کہ وہ اس کو اچھی طرح منا سکیں ۔ انہیں اپنے گھریلو مالی حالات کا اندازہ نہیں ہوتا۔وہ بضد ہوتے ہیں کہ ان کی خواہش کو پورا کیاجائے مگر غربت ان کے آڑے آجاتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ خبر عام ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے بچوں کی خواہشات پوری نہ ہونے پر خودکشی کرلی۔اگرصاحب حیثیت لوگ بیش قیمت جانور خریدنے کی بجائے ایسے غریب لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کم قیمت پر جانور خرید کر ان غرباء کو بھی خو شیوں میں شامل کرلیں تو سنت بھی ادا ہوجائے گی اور غرباء کی خوشیاں بھی دوبالا ہوجائیں گی۔
دنیا دار قربانی کرنے والوں کی سوچ ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ جب قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم کی باری آتی ہے تواس میں بھی اللہ کی بجائے دنیا داری کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔سب سے پہلے تو اچھا اچھا گوشت اپنے فریزر میں رکھ لیتے ہیں۔اس کے بعد جب باہرگوشت تقسیم کرنے کی باری آتی ہے تو اس میں سے بھی جوکچھ اچھا گوشت ہوتا ہے وہ اپنے خاص دوستوں کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔بعدمیں جو ہڈی ۔چربی اور بچا کچا گوشت رہ جاتا ہے وہ دوچار غریبوں میں تقسیم کرکے اس فرض کوپورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام کے مطابق قربانی کرنے کے بعد گوشت کے تین حصہ کیے جاتے ہیں۔ ایک اپنے لیے ، ایک رشتہ داروں کے لیے اور ایک غریبوں کے لیے ( اگر کمی پیشی ہو تو تصدیق کر دیجئے گا)۔
عید کے بعد یہ باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ہم نے فلاح کے گھراتنا گوشت بھیجا تھا اس کے مقابلے میں انہوں نے بہت تھوڑا گوشت بھیجا ہے آئندہ ہم بھی کم گوشت بھجیں گے اور جو حصہ غریبوں کے لیے ہوتا ہے یعنی جو اس کے اصل حقدار ہوتے ہیں ان کو ہم دروازے سے دھتکار دیتے ہیں۔ اور پھر عید کے بعد ایک دو ماہ تک خوب گوشت کھاتے ہیں۔
کیا سنت ابراہیمی اس کا نام ہے؟ حضرت ابراہیم نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے بیٹے کو قربان کردیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کو بھی اچھی چیز پسند ہیںمگر ہم آج قربانی میں سے اچھاگوشت اپنے لیے محفوظ کرلیتے ہیںاور جو ناپسندیدہ ہو وہ غریب غرباء میں تقسیم کردیتے ہیں۔اسلام میں ایسا کہاں لکھا ہے کہ قربانی میں اچھی چیز اپنے لیے اور ناپسندیدہ چیز اللہ کی راہ میںدے دو۔اللہ تعالیٰ ہمیں سچی اور اچھی نیت سے قربانی کرنے اور اس کا گوشت حق داروں میں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تحریر : عقیل خان آف جمبر
aqeelkhancolumnist@gmail.com