مہاجر نوجوانوں کی بہتر رہنمائی اور خود کو کراچی کی عوام کا مسیحا کہنے کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ کا سورج شہر قائد سے مکمل طور غروب ہو گیا۔ بانی متحدہ کی 22 اگست 2016 میں سامنے آنے والی ملک دشمن تقاریر کے بعد جہاں قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا شہر کراچی میں مہاجر کارڈ کھیلنے سے متعلق گھیرا تنگ کردیا گیا وہیں عارضی طور پر پارٹی کوبچانے کےلیے بانی متحدہ سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ بھی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو متحد نہ کرسکا۔
پارٹی میں اختلافات کچھ اس طرح پیدا ہوئے کہ جب فاروق ستار کی جانب سے ’’الطاف حسین‘‘ سے متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی چھیننے اور پارٹی کا موجودہ سربراہ خود کو کہنے کا دعوی سامنے آیا۔ معاملات چلتے رہے، پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے بھی فاروق ستار کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کردیا گیا اور بکھری متحدہ پھر سے ایک ہوگئی۔
پارٹی میں فاروق ستار کے خلاف اعلان بغاوت اُس وقت ہوا جب سندھ کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 114 کے ضمنی انتخاب الیکشن کا ٹکٹ، ڈاکٹر فاروق ستار سے قرابت داری رکھنے والے اور ایک سال قبل فنکشنل لیگ کو خیرباد کہہ کر ایم کیو ایم سے ہاتھ ملانے والے، کامران ٹیسوری کو دے دیا گیا اور تمام سینئر رہنماؤں کو نظرانداز کردیا گیا۔ فاروق ستار کے اس اقدام کے باعث پارٹی کے کئی رہنما ناراض ہوگئے اور چند روز بعد ہی پارٹی گروپ بندی کا شکار ہوگئی۔
اس دھڑے بندی کے نتیجے میں پارٹی کے اندر ہی دو ایسے گروپوں کی بنیادیں رکھ دی گئیں جن میں سے ایک فاروق ستار کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا جبکہ دوسرا گروپ پارٹی کے سینئر رہنما عامر خان کو اپنا قائد تسلیم کرنے لگا۔ اختلافات کچھ ایسے بڑھے کہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کو پارٹی سے مائنس کرنے کے فارمولے پر عمل درآمد کرنے لگے۔
پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ اور اختلافات ابھی جاری ہی تھے کہ 8 نومبر 2017 کا دن آ گیا جب پی ایس پی اور متحدہ انضمام کرنے کےلیے کراچی پریس کلب پہنچے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے گلے شکووں پر پانی ڈالا اور مستقبل میں ایک ہونے کا دعویٰ کرنے اور دونوں جماعتوں کو ضم کرکے ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لانے کی پریس کانفرنس کرڈالی۔ پارٹی رہنماؤں سے بغیر مشاورت فیصلہ کرنے اور مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے پارٹی کو ختم کرنے کے پیغام پر جہاں فاروق ستار کو متحدہ رہنماؤں اور کارکنان کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا وہیں ان پر اس انضمام کو فوری طور پر ختم کرنے پر بھی شدید دباؤ ڈالا گیا۔ اس پر 10 نومبر کی رات فاروق ستار صاحب کی جانب سے پاک سرزمین پارٹی سے تمام تر اتحاد ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
پارٹی میں ابھی ٹوٹ پھوٹ جاری ہی تھی کہ 12جنوری کا دن متحدہ پر ایک نئی مصیبت لے کر طلوع ہوا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 284 سیاسی جماعتوں کو (جن میں متحدہ قومی موومنٹ کا نام سرفہرست تھا) کارکنان کے کوائف اور فیس جمع نہ کروانے پر الیکشن سے ڈی لسٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس کے چند روز بعد ہی فاروق ستار کی جانب سے الیکشن کمیشن کے تمام تر اعتراضات سننے کے بعد ان پر عمل درآمد کرنے کےلیے تمام تر کوائف جمع کروادیئے گئے تاہم کوائف کے ساتھ ان کی جانب سے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کی بھی ایک درخواست جمع کروائی گئی جس میں پارٹی کی سربراہی کے ساتھ ساتھ الیکشن میں ٹکٹ تقسیم کرنے کا اختیار بھی خود حاصل کرنے پر زور دیا گیا۔
متحدہ پاکستان کی رابطہ کمیٹی، فاروق ستار کے اس اقدام پر بھی خاموش تماشائی بنی رہی جس کے چند روز بعد 5 فروری 2018 آگیا جب متحدہ میں جولائی 2017 سے اندرونی طور پر ایک دوسرے کے خلاف بننے والے گروپس ابھر کر سامنے آگئے۔ رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں جب فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ الیکشن میں کامران ٹیسوری کو جب سینیٹر کا ٹکٹ دینے کی فرمائش کی گئی تو اجلاس میں موجود سینئر رہنماؤں کی جانب سے فاروق ستار کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا گیا جس پر فاروق ستار ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی رہائش گاہ روانہ ہوگئے۔
متحدہ کے اندر بننے والے گروپوں نے متحدہ پی آئی بی گروپ اور متحدہ بہادر آباد گروپ کی شکل اختیار کرلی۔ پارٹی میں اندرونی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف ہونے والے کام اوپری سطح پر ہونے لگے۔ کئی رہنما فاروق ستار کے ساتھ پی آئی بی گروپ میں جبکہ ان کے ماضی میں حمایتی رہنما کامران ٹیسوری سے قربت رکھنے کے باعث بہادر آباد گروپ میں شامل ہوگئے۔ دونوں گروپوں میں سینیٹ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر کئی روز تک ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنسوں کے ذریعے تنقیدی تیر برسانے کا سلسلہ جاری رہا۔
اختلافات مزید یوں بڑھے جب فاروق ستار کی جانب سے بہادر آباد گروپ میں شامل رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا۔ دوسری جانب بہادر آباد گروپ کے رہنماؤں کی جانب سے فاروق ستار کو کنوینر شپ کے عہدے سے سبکدوش کردیا گیا اور ان کی جگہ پارٹی کی قیادت آئینی طور خالد مقبول صدیقی کو سونپ دی گئی۔ اس پر جوابی کارروائی میں فاروق ستار نے 18 فروری کو غیر آئینی طور پر انٹرا پارٹی الیکشن طلب کرلیا جس کے بیلٹ پیپر میں بہادر آباد گروپ کے کسی ممبر کا نام شامل نہ کرکے فاروق ستار الیکشن جیتنے میں کامیابی سے ہمکنار رہے۔
لیکن پارٹی پر قبضہ کرنے کا یہ مہرہ بھی کام نہ آیا۔ فاروق ستار کو بھرپور جواب دینے کے لیے خالد مقبول صدیقی نے انہیں پارٹی کی کنوینر شپ سے ہٹانے کےلیے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر کردی جس پر الیکشن کمیشن نے فاروق ستار کو 26 مارچ کو کنوینر شپ کے عہدے سے برطرف کردیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو فاروق ستار کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا اور یہ مقدمہ اب تک زیرالتوا ہے جس کے تحت پارٹی کے حتمی کنوینر کا تعین اب تک نہیں کیا جاسکا ہے۔
باہمی لڑائی کے باعث دونوں گروپ سینیٹ الیکشن سے قبل سیاسی اتحاد کےلیے کسی بھی تنظیم سے رابطے کرنے میں ناکامی سے دوچار رہے جبکہ الیکشن سے دو روز قبل سینیٹ الیکشن میں ایک ہونے کا فارمولا بھی ناکام رہا جس پر پارٹی کے اندرونی اختلافات کا بھاری خمیازہ متحدہ کے دونوں گروپوں کو سینیٹ الیکشن میں ناکامی صورت میں بھگتنا پڑا۔ سینیٹ الیکشن میں بدترین شکست ہونے پر دونوں گروپ ایک دوسرے پر اپنی ناکامی کا ملبہ ڈالنے میں آج تک مصروف ہیں۔
سینیٹ الیکشن میں ناکامی کے بعد پارٹی کا وجود آہستہ آہستہ زیر زمین ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کی جانب سے سینیٹ الیکشن میں پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ اٹھانے کے بعد شہر قائد یعنی متحدہ کے گڑھ پر قبضے کی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے جس پر تاریخ سے جڑا ٹنکی گراؤنڈ کئی روز تک سیاسی جماعتوں کے سونامی کی زینت بنارہا۔
اندرونی اختلافات کے باعث جہاں متحدہ کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا ہے، وہیں دونوں گروپوں سے ناراض رہنماؤں کی پے در پے دوسری جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے۔ سیاسی مخالفین کو کراچی میں مہاجر سیاست کی طاقت دکھانے کےلیے 5 مئی کو مشترکہ جلسہ کرکے دونوں گروپوں کے ایک ہونے کا دعویٰ کرنے والے اب بھی ایک دوسرے سے علیحدہ دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پارلیمانی بورڈ کا قیام بتائی جاتی ہے۔
دونوں دھڑے اب بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے کنوینرشپ سے متعلق فیصلے کے منتظر دکھائی دیتے ہیں جس کے تحت شہر کی سب سے بڑی مہاجر سیاسی جماعت کے اندرونی مسائل اور پارٹی سربراہی کی جنگ کے باعث مہاجر سیاست کے مکمل طور پر غروب ہونے کے آثار نمایاں ہیں۔
پارٹی میں پھوٹ کا باعث بننے والے والے کامران ٹیسوری کو بھی پی آئی بی گروپ کی جانب سے 4 مئی کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا ہے جس کے بعد انہوں نے پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ تاہم آئندہ چند روز میں ممکنہ طور پر ان کے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو خیرباد کہنے اور دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کا بھی امکان ہے۔