دنیائے صحافت کے سینئر اور صاف گو صحافی برادرم احفاظ الرحمن کا کچھ عرصے پہلے موبائل پر ایک پیغام ملا کہ وہ ہمارا انٹرویوکرنا چاہتے ہیں اور اس کام کی ذمے داری انھوں نے رضوان طاہر پر لگائی ہے جو عموماً ایکسپریس کے لیے انٹرویو کرتے رہتے ہیں۔ رضوان طاہر نے ہم سے رابطہ کیا اور انٹرویو کے دن اور وقت پر بات کی بہرحال وہ تشریف لائے اور انٹرویو ریکارڈ کر لیا۔ ہماری سیاسی زندگی کا ابتدائی حصہ چونکہ مزدور تحریک پر مشتمل رہا ہے لہٰذا ہم نے اپنے انٹرویو میں اس مسئلے کو ہی پیش نظر رکھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملک میں دولت اور اشیائے صرف کے انبار لگا کر دو وقت کی روٹی کے لیے ترسنے والے طبقات میں مزدور طبقہ سر فہرست ہے اور بدقسمتی سے مزدوروں کی آواز کو ان رہنماؤں نے خاموش کر دیا جو ملک میں مزدور کسان راج کے مژدے عوام کو سناتے تھے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پچھلے ایک طویل عرصے سے یہ حضرات کسی نہ کسی شکل میں اقتدارکا حصہ ہیں اور آج یہ طبقہ 1972-73ء میں جن مسائل سے دوچار تھا آج وہ اس دور کے مسائل سے زیادہ شدید مسائل کا شکار ہے۔
دنیا بھر میں پیدواری عمل میں دو طبقے فعال رہتے ہیں، ایک مزدور دوسرے کسان اور المیہ یہ ہے کہ یہ دو طبقات ہی سب سے زیادہ معاشی استحصال کا شکار ہیں۔ ہماری حکومتیں مزدوروں کی کم سے کم اجرت کے تعین میں جس فراخدلی کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ فراخدلی زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے جب کہ مزدوروں کی کم از کم اجرت پندرہ ہزار طے کرنے والے حاکموں کے کتوں پر ماہانہ پندرہ ہزار سے زیادہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ مزدوروں کا استحصال سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ ہے لیکن دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے سرمایہ داروں نے تنظیم سازی، مزدوروں کی یونین میں شمولیت کی آزادی، حق ہڑتال اور بارگیننگ جیسے حقوق دیے ہیں لیکن پاکستان کا مزدور ان قانونی حقوق سے بھی محروم ہے۔
یہ داستان بڑی طویل اور المناک ہے جس پر ہم نے انٹرویو میں اظہار خیال کیا ہے لیکن مزدوروں کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو بھلا بیٹھے کہ دنیا کے 7 ارب انسان جن سماجی سیاسی اور اقتصادی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس کی بڑی وجہ عوام میں سیاسی اور سماجی شعور کی کمی ہے۔ آج کی دنیا جن مسائل میں گھری ہوئی ہے ان کا ایک بڑا سبب انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہے اور بدقسمتی سے یہ اس قدر حساس موضوع ہے کہ اس پر گفتگو کرنا آسان نہیں۔ اگر سر پھرے لوگ مشکلات کی پرواہ کیے بغیر اس حساس موضوع پر بات کر بھی لیتے ہیں تو ایسی باتیں عوام تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔ کیونکہ عقائد و نظریات کی دیوار ان کے سامنے کھڑی کر دی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہماری زمین یعنی کرہ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہو رہے ہیں اور کرہ ارض پر ہماری تہذیب اور وجود کا عرصہ دس بارہ ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ عرصہ عموماً اندھے عقائد و نظریات کی اتباع میں گزر گیا اور جہل کے اس دور میں کسی جینئس نے ’’حقائق‘‘ بیان کرنے کی کوشش کی تو اسے سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ ان حقائق کا تعلق نہ سیاست سے رہا ہے نہ اقتصادی استحصال سے یہ حقائق دنیا کی تشکیل و تعمیر سے متعلق ہی رہے مثلاً ماضی میں علم سے محروم انسان کرہ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتا رہا اور اسی پس منظر میں عقائد و نظریات تشکیل دیتا رہا مثلاً ماضی بعید ہی کا نہیں آج کی ترقی یافتہ اکیسویں صدی کے انسانوں کی بھاری اکثریت زمین کو ساکن اور سورج کو زمین کے گرد گردش کناں سمجھتی ہے جب کہ سورج ساکن اور زمین سورج کے گرد گردش کناں ہے اگر کوئی زمین کو ساکن اور سورج کو گردش کناں سمجھتا ہے تو نہ سورج کی کارکردگی پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے نہ زمین کی گردش رک سکتی ہے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم زمینی اور کائناتی حقائق کی روشنی میں دنیا کی تشکیل نو سے محروم ہو جاتے ہیں جسے ایک کائناتی جرم کہا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور کے عقائد و نظریات اپنے دور کے علم اور معلومات سے ہم آہنگ رہے ہیں لیکن اس کا ایک نقصان یہ رہتا ہے کہ انسان لکیر کا فقیر بنا رہتا ہے۔ بلاشبہ علم اور معلومات کے حوالے سے ماضی کا انسان بہت پسماندہ تھا لیکن علم اور معلومات جس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ دنیا کی تنظیم نو جدید علوم کی بنیاد پر کی جائے لیکن عقائد اس حوالے سے اس تنظیم نو کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحقیق انکشافات سائنس و ٹیکنالوجی ایک کھلی حقیقت ہونے کے باوجود عقائد و نظریات سے متصادم ہیں۔ اگر عقائد و نظریات انسانوں کی اجتماعی بھلائی میں کوئی کردار ادا کر سکتے تو ان سے بچ کر چلا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عقائد و نظریات انسانوں کی تقسیم کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور انسانوں کی تقسیم کے نقصانات اس قدر ہولناک ہیں کہ آج دنیا جن تباہیوں جن مصائب و آلام کا شکار بنی ہوئی ہے ان کی بڑی وجہ بھی انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہی ہے دنیا کو جن بے شمار سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
ان میں معاشی استحصال اور جنگوں کا کلچر سر فہرست ہے اور یہ دونوں عذاب بنیادی طور پر انسانوں کی تقسیم کا ہی نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر انسان نے سرمایہ دارانہ نظام کے نام پر ایک ایسا معاشی نظام متعارف کرایا جو معاشرے میں طبقات پیدا کرتا ہے اور یہی طبقاتی نظام انسانوں کے معاشی استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور انسانوں کو غریب اور امیر میں تقسیم کرتا ہے۔
دنیا میں انسان نے جغرافیائی لکیریں کھینچ کر دنیا کو سیکڑوں ملکوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے ’’قومی مفاد‘‘ کا ایک فلسفہ ایجاد کیا اس فلسفے کی وجہ ہر ملک نے فوجوں اور ہتھیاروں کو لازمی بنا لیا۔ اور یہی فوجیں اور ہتھیار قومی مفادات کے نام پر جنگوں میں استعمال بھی ہونے لگے اور جنگوں کا سبب بھی بن گئے۔ یہ بیماریاں بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے آقا عقائدی آزادی کے زبردست حامی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست جدید علوم کو جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں لیکن ان کے طبقاتی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی جدید علوم کی روشنی میں تشکیل نو نہ کی جائے کیونکہ ایسا ہوا تو انسانوں کی تقسیم بے معنی بے جواز ہو کر رہ جائے گی اور دنیا میں بسنے والے 7 ارب سے زیادہ انسان معاشی عدم مساوات اور جنگوں کے کلچر سے نجات حاصل کر لیں گے۔
میں اپنے انٹرویو میں جو ایکسپریس میں ’’شخصیات‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا ہے انھی مسائل پر بات کرنا چاہتا تھا جو بوجوہ نہ کر سکا۔ سوچا کہ حقائق اور انسانوں کے اجتماعی مفادات سے تعلق رکھنے والی ان باتوں کو اپنے کالم میں جگہ دے کر اپنے نامکمل انٹرویو کو اس سپلیمنٹری کالم کے ذریعے عوام تک پہنچاؤں اس امید کے ساتھ کہ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔