counter easy hit

مان گئے پربھا جی آپ کو : غیر اخلاقی پیغامات اور تصویریں بھیجنے والے ایک شخص کے ساتھ ایک بھارتی حسینہ نے ایسی کیا گیم ڈالی کہ ہزاروں کشمیریوں کا بھلا ہو گیا

Suppose, to you: An Indian Hussein put together a game that sent thousands of Kashmiris to the well-off of thousands of Kashmiris.

لاہور (ویب ڈیسک) جنسی طور پر ہراساں کیے جانا کوئی انوکھی بات نہیں اور اس کا شکار ہونے والے لوگ اس صورتحال سے مختلف انداز میں نمٹتے ہیں۔ پربھا راج نامی ٹوئٹر صارف کو کچھ دن قبل ایک شخص نے انتہائی فحش نوعیت کے پیغامات بھیجے۔ پربھا انڈیا کی ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھتی ہیں نامور صحافی بلال کریم مغل بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور مختلف سیاسی اور سماجی معاملات پر ٹوئٹر پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پربھا کو یوں ہراساں کیا گیا ہو، لیکن ان کے مطابق پہلی بار کسی نے ان کو براہِ راست ٹوئٹر کے ’ڈائریکٹ میسیج‘ کے ذریعے ایسے پیغامات بھیجے تھے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے اس شخص کی پروفائل کھنگالی تو انھیں اندازہ ہوا کہ وہ انڈیا میں دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ ہے اور سات سالہ لڑکی کا باپ بھی۔وہ کہتی ہیں: ’انٹرنیٹ پر ٹرول ہونا بہت نارمل بات ہے، میں سوشل میڈیا پر عموماً بہت جارحانہ انداز سے بات کرتی ہوں، اس لیے لوگ مجھے ٹرول کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘جب اُس شخص نے پربھا کو فحش پیغامات بھیجے تو انھوں نے اس کے سکرین شاٹ لے کر ٹوئٹر پر سرعام پوسٹ کر دیے۔’جب اسے اندازہ ہوا کہ میں نے سکرین شاٹس ڈالے ہیں تو وہ ایک نیا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا کر معافی مانگنے لگا۔ پہلے میں نے اسے سب کے سامنے معافی مانگنے کے لیے کہا مگر اس نے وہ تسلیم نہیں کیا۔‘پھر ان کی ایک دوست نے کہا کہ بہتر یہ ہوگا کہ اس شخص کو کسی فلاحی مقصد کے لیے عطیہ کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ’میں نے سوچا کہ اس وقت کشمیر کے صحافیوں سے زیادہ ضرورت مند کون ہوسکتا ہے جنھیں وہاں سے گراؤنڈ رپورٹنگ کے لیے فنڈ کی ضرورت ہے؟‘’میں نے اسے ایک آن لائن فنڈ کا لنک بھیجا جہاں کشمیری صحافیوں کے لیے عطیات اکھٹے کیے جا رہے تھے اور اس سے کہا کہ اگر وہ 501 سے 1000 ڈالر تک اس میں ڈال دے تو میں اس کے سارے سکرین شاٹ ڈیلیٹ کر دوں گی، ورنہ اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔‘انھوں نے بتایا کہ پہلے تو وہ بہانے کرتا رہا کہ اس کا کریڈٹ کارڈ نہیں چل رہا وغیرہ۔ پھر اسے یاد دلایا گیا کہ زیادہ دیر ہوئی تو یہ سکرین شاٹس دور تک پھیل جائیں گے، جس کے بعد انھیں ڈیلیٹ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔‘اس دھمکی کے بعد 15 منٹ کے اندر اندر اس نے رقم ادا کر دی۔وعدے کے مطابق جونہی اس نے پیسے جمع کروائے تو پربھا نے بھی وہ سارے سکرین شاٹ ڈیلیٹ کر دیے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ یہ پیسے کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں پربھا کہتی ہیں کہ ایسا پہلے بھی بہت مرتبہ ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین چاہے سوشل میڈیا پر کہیں بھی ہوں، انھیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر اگر آپ رائے رکھتی ہوں تو۔‘ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے ایک اردو لکھنے پڑھنے والے دوست نے انھیں اردو میں ان کا نام لکھ کر دیا تو وہ انھیں بہت اچھا لگا۔ ’بھلے میں تامل ہوں اور اردو نہیں پڑھ سکتی، مگر مجھے یہ اچھا لگا تو میں نے اسے ٹوئٹر پر رکھ لیا۔‘یہاں سے وہ کہتی ہیں کہ انھیں تنگ نظر خیالات رکھنے والوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جنھوں نے انھیں مسلمان کہا اور گالیاں دیں۔تو پھر اور لوگوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی #MyNameInUrdu کا ٹرینڈ شروع کیا تاکہ نفرت کا رخ ایک شخص سے ہٹ جائے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website