اسلام آباد (یس ڈیسک) سپریم کورٹ نے 21ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے وفاق اور چاروں صوبوں سے 12 فروری تک جواب طلب کر لیا ہے۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس گلزار اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر افراد کی جانب سے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔ لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلین افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی عدالتوں اور عدالتی اتھارٹی پر حملہ ہے۔
پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کابے لگام اور لامحدود اختیار نہیں، انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ میں مناسب بحث نہیں کرائی گئی اور یہ آئین کے بہت سے آرٹیکلز سے متصاد م ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ آپ کی جماعت نے بھی تو اس ترمیم کی حمایت کی تھی جس پر حامد خان نے کہاکہ میں یہاں لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں اور اسمبلی کا رکن بھی نہیں ہوں۔
اس کے علاوہ ترمیم کی منظوری کے روز ہماری پارٹی کے 34ارکان نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ وہ غیر حاضر تھے میں خصوصی کمیٹی کا ممبر تھا اور میں نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔حامد خان نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی نے اس ترمیم کو پاس کیا اسی دن سینیٹ نے بغیر کسی بامعنی بحث کے ترمیم کو منظور کر لیا، ترمیم سے پورا آئینی ڈھانچہ متاثر ہوا ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا آئینی ترمیم قانون ہے حامد خان نے کہا کہ یہ مفاد عامہ سے متعلق ایک اہم مقدمہ ہے۔
ملک میں ملٹری کورٹس کا قیام بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ 21 ویں ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل ،چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام جواب گزاروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کر لیا۔ مزید سماعت 12فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
حامد خان نے کہا کہ آرٹیکل ٹو اے میں ترمیم سے پورا دستور متاثر ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شفقت چوہان نے کہاکہ آئین کا دفاع کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے جو ہم کر رہے ہیں۔
21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی مسلم لیگ (ن) آئین کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اکیسویں ترمیم غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔ آئین کا ہر صورت دفاع کریں گے۔