سپریم کورٹ نے کراچی پولیس میں بھرتیوں سے متعلق سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس غلام حیدر جمالی کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کو 5 لاکھ روپے کے مچلکے 5 روز میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے غلام حیدر جمالی کی ضمانت درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر سابق آئی جی سندھ کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت میں سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس کانسٹیبلز کی تعیناتیوں میں سابق آئی جی کا کوئی کردار نہیں، 14-2013 میں مذکورہ تعیناتیاں آئی جی سندھ کی ذمہ داری نہیں تھی۔
اس پر جسٹس منظور ملک نے استفسار کیا کہ کیا غیر قانونی بھرتی ہونے والے افراد اب بھی کام کر رہے ہیں، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ کچھ کام کر رہے ہیں جبکہ کچھ روز مرہ کی بنیاد پر کام نہیں کررہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے اس معاملے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 جون تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ 18 مئی کو سندھ کے سابق آئی جی نے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اپنی دائر کردہ درخواست میں غلام حیدر جمالی نے موقف اپنایا تھا کہ بطور پولیس افسر میرا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور مجھے ستمبر 2014 میں آئی جی سندھ تعینات کیا گیا، جس کے بعد کراچی میں امن کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے درخواست میں کہا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی بھرتیوں میں بطور آئی جی سندھ ان کا کوئی کردار نہیں کیونکہ پولیس کی بھرتیوں کا مجاز افسر متعلقہ اضلاع یا پولیس یونٹ کا ایس پی ہوتا ہے۔
سابق آئی جی نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ مجھے کانسٹیبلز کی مبینہ طور غیر قانونی بھرتیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جا سکتا، ایک ہزار 169 سے زائد بھرتیاں میرے عہدے سنبھالنے سے قبل ہوچکی تھیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ غلام حیدر جمالی نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب کو فریق بنایا تھا۔