اسلام آباد(اصغر علی مبارک سے)سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا ازخودنوٹس میں آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دے دی ہے۔سپریم کورٹ میں فیض آباد ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، مقدمے کی سماعت کے دوران آئی ایس آئی کی 46 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ خادم رضوی تسلیم شدہ بدعنوان ہے، فیض آباد دھرنے کی مختلف سیاسی جماعتوں نے حمایت کی، حمایت کرنے والوں میں شیخ رشید، اعجاز الحق اور تحریک انصاف کا علمائ ونگ بھی شامل ہے، آئی ایس آئی نے فیض آباد دھرنے پر طاقت کا استعمال نہ کرنے کی سفارش کی۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی ایس آئی کو تومعلوم ہی نہیں کون کون ہے، اربوں کی جائیداد کو آگ لگادی گئی، ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کی معلومات جان کر مجھے تشویش ہے۔سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل نے آئی ایس آئی کے ساتھ میٹنگ کی، کیا اٹارنی جنرل آفس آئی ایس آئی سے مطمئن ہے، بتائیں خادم رضوی کی گزربسر کیسے ہورہی ہے، خادم رضوی ٹیکس دیتاہے یا نہیں اور اس کا روزگارکیا ہے،رپورٹ میں اس بارے تفصیلات کہاں ہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کوبتایا کہ خادم رضوی پیشے کے اعتبار سے خطیب ہے‘جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا خطیب کی کوئی تنخواہ ہوتی ہے۔
وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ خادم حسین رضوی چندہ وصول کرتے ہیں، جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ وزارت دفاع کی باتیں سن کراب میں ملک کے مستقبل کے لیے فکرمند ہوں، کیا کسی کوریاست پاکستان کاکوئی خیال ہے، وزارت دفاع بھی ہماری طرح عوام کوجوابدہ ہے، فاضل عدالت نے آئی بی کی جانب سے رپورٹ براہ راست عدالت میں جمع کروانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی بی کی رپورٹ میں کچھ خفیہ نہیں بس اخباری خبریں ہیں۔عدالت نے پیمرا کی جانب سے رپورٹ نہ آنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے 10 روز میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آفس سے سوشل میڈیا پر انتہاپسندی روکنے کے حوالے سے اقدامات پر بھی رپورٹ طلب کرلی۔