اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق،صوبائی اور وفاقی وزرا کو رات تک سرکاری گاڑیاں واپس کرنے کا حکم دے دیا اور چیف جسٹس نے وارننگ دی گاڑیاں واپس نہ ہوئیں ایک لاکھ روپے جرمانہ یومیہ ادا کرنا ہوگا، ایک ہفتے کے بعدجرمانہ دو لاکھ روزانہ ہوجائے گا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بنچ وزرا،سرکاری افسران کی لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین ایف بی آر کہاں ہیں، جس پر چیئرمین ایف بی آرطارق باجوہ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مجھے آپ سےاس رویےکی امیدنہیں تھی، آپ کے افسران ابھی بھی گاڑیاں استعمال کررہےہیں، ضبط کی گئی گاڑیوں کی بندربانٹ کی گئی، ہر افسر کہتا ہے میرے آنے کے بعد دودھ، شہد کی نہریں بہا دی گئیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کس قانون کےتحت شہبازشریف کو بلٹ پروف گاڑی دی گئی؟ کہاں لکھا ہے سیکیورٹی خدشات پربلٹ پروف گاڑی دی جاتی ہے؟ شہبازشریف کی ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کے باہر مورچے بنا دیے گئے،بچوں کے کھیلنے کے پارک کی جگہ مورچے لگا دیے گئے ۔
جس پر چیف سیکرٹری نئے عدالت کو بتایا پارک کی جگہ اب پارکنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے، مورچے اور رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔
،چیف جسٹس نے یہ بھی استفسار کیا آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے پاس کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں؟ سرکاری مال پر ان کو الیکشن لڑنے نہیں دیں گے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں۔
اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ 3 گاڑیاں فضل الرحمان، کامران مائیکل، عبدالغفورحیدری کے پاس ہیں، جس پر فضل الرحمان، عبدالغفور حیدری اور کامران مائیکل کل عدالت طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان قوم کا پیسہ کیوں استعمال کر رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن کو کہیں اپنی سیکورٹی کا خود بندوبست کریں انکے پاس بڑے پیسے ہیں، فضل الرحمان کے تو بڑے جاں نثار ہیں، کوئی حملہ آور ان تک نہیں پہنچ سکتا۔
کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان پر 3حملے ہو چکےہیں ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا فضل الرحمان سیکیورٹی کا خود بندوبست کریں ، ان کے پاس بڑے پیسے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا مجھے شہبازشریف کے ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کےباہر کی ویڈیو بناکردکھائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان کی کل 56 گاڑیاں ہیں ،49 وصول ہوچکی ہیں،وفاق میں 105 گاڑیاں وصول کی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کوسرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم چلانے نہیں دیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے گاڑی واپس کردی ہے، مولاناعبد الغفور کوئٹہ میں ہیں، وہ بھی واپس کردیں گے، جس کے بعد عدالت نے مولانافضل الرحمان اور عبدالغفور کو جاری نوٹس واپس لے لیے۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ کرنل (ر) شجاع پر حملے کے بعد گاڑیاں وزرا کو دی گئیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے گھر کے باہر کی ویڈیو بنا کر دیں۔
چیف سیکرٹری پنجاب، چیئرمین ایف بی آر سے لگژری گاڑیوں پر بیان حلفی طلب کرلیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا قانون کے مطابق سابق وزرائے اعلیٰ کو سیکیورٹی دیں۔
ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا بلوچستان میں 49لگژری گاڑیاں ریکورکر لی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ 7 وزرا سے گاڑیاں واپس کیوں نہیں لی گئیں۔
سپریم کورٹ نے سابق،صوبائی اور وفاقی وزرا کورات تک سرکاری گاڑیاں واپس کرنےکا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے وارننگ دی گاڑیاں واپس نہ ہوئیں ایک لاکھ روپے جرمانہ یومیہ ادا کرنا ہوگا، ایک ہفتے کے بعدجرمانہ دو لاکھ روزانہ ہوجائے گا۔
اعلی عدالت نے بڑی گاڑیاں دینےکی پالیسی ری وزٹ کرنےکی سمری بھی ارسال کرنےکی ہدایت کی اور چئیر مین ایف بی آرطارق باجوہ سے ڈمپ کی گئی کی تمام تفصیلات مانگ لیں
بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 11جون تک ملتوی کردی۔