پشاور: افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے دشمنی ترک کرنے کی شرط پر اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کے ہر مرد و عورت رکن کو اس کا حق دیا جائے گا۔
عید الفطر سے قبل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے طالبان رہنما نے خاص طور پر کہا کہ ’اسلامی امارات‘ کی اجارہ داری کی پالیسی نہیں اور یقین دہانی کروائی کہ افغان معاشرے کے ہر مرد و عورت کو اس کے حقوق دیے جائیں گے تا کہ کسی کو محرومی یا نا انصافی کا احساس نہ ہو۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ ’معاشرے کی بہبود، استحکام اور ترقی کے لیے ضروری تمام کام شریعت کی روشنی میں کیے جائیں گے’۔
ساتھ ہی انہوں نے مخالفین کے لیے اس صورت میں عام معافی کا اعلان بھی کیا کہ اگر وہ دشمنی ترک کردیں۔
طالبان قائد نے کہا کہ ’ہم ہر ایک پر زور دیتے ہیں کہ ’اپنی مخالفت ترک کر کے معافی سے مکمل فائدہ اٹھائیں اور ایک اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹ نہ بنیں جو لاکھوں، شہدا، زخمیوں، معذوروں، یتیموں، بیواؤں اور مشکلات کا شکار افغانوں کی خواہش ہے’۔
طالبان تحریک کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خطے اور دنیا کے ممالک کے ساتھ ’اسلامی امارات‘ کے سیاسی تعلقات ماضی کے مقابلے وسیع ہوئے ہیں۔
ملا ہیبت اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری پالیسی کی بنیاد پر ہم اسلامی ممالک سے برادرانہ، پڑوسیوں کے ساتھ ہمسائیگی اور خطے اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات چاہتے ہیں’۔امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قبضے کے خاتمے کا نتیجہ اسلامی امارات کے لیے ایک غیر معمولی کامیابی ہے اور اگر اس پر خلوص نیت سے عمل ہوا تو سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان امریکا کے ساتھ ہوئے معاہدے پر کاربند ہیں اور فریقین پر زور دیتے ییں کہ اپنے وعدوں پر عمل کریں اور اس اہم موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔
طالبان رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ’اس معاہدے پر عملدرآمد امریکا اور ہمارے ملک کے درمیان جنگ کے خاتمے اور ہماری سرزمین پر قیامِ امن اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک اہم چیز ثابت ہوگا‘۔انہوں نے واشنگٹن پر زور دیا کہ طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے اس بین الاقوامی تسلیم شدہ باہمی معاہدے میں رکاوٹ، تاخیر یا اسے ڈی ریل کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا جائے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کابل انتظامیہ کی جیلوں میں قیدی سخت مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور فلاحی گروپس اور کارکنان کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے اور قیدیوں کی محفوظ اور فوری رہائی کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔