”لاہور (ویب ڈیسک ) نواز شریف کو لازماً سزا ہو گی۔ ان کا مقدر جیل ہے۔ کہانی ختم ہو چکی‘‘۔ شرکائے محفل میں سے ایک زیرک آدمی نے اپنی گفتگو کو اس جملے پر تمام کیا اور داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ نامور کالم نگار خورشید ندیم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اس انکشاف پر لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔ حیرت تو ہوئی مگر حاضرین کو نہیں، مقرر کو۔ مجلس میں شریک خواتین و حضرات کے چہرے سپاٹ تھے۔ کسی لمحے کسی چہرے پر افسردگی کی لہر ابھرتی مگر جلد مٹ جانے کے لیے۔ انہیں پریشان تو کہا جا سکتا تھا، حیران نہیں۔ مقرر حیران تھے کہ کوئی ان کی بات پر حیران کیوں نہیں ہوا؟ یہ منظر مجھے بہت سال پیچھے لے گیا۔ یہ میرے لڑکپن کے دن تھے۔ میں میٹرک کا ایک طالبِ علم تھا اور ضلع اٹک کے ایک گاؤں شادی خان میں پڑھتا تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے پر آباد یہ گاؤں فطری حسن کا شاہ کار ہے۔ ایسے خوب صورت اور ترقی یافتہ گاؤں پاکستان میں کم ہوں گے۔ میرے بڑے بھائی یہاں کے ایک سکول میں پڑھاتے تھے۔ میں بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ بھائی جان کوئی کتاب یا اخبار اور اپنا ریڈیو اٹھاتے، مجھے اور میرے ننھے بھتیجے بلال کو ساتھ لیتے اور ہم گاؤں سے باہر کسی کھیت کے کنارے گھاس پر بیٹھ جاتے۔ تا حدِ نظر سبزہ، ٹیوب ویل کا ٹھنڈا پانی، تازہ سبزیاں اور سرسبز درخت… یہ سب مل کر جو منظر تخلیق کرتے، وہ دیکھنے کے لائق ہوتا۔ اس پر یہاں کے خوش اخلاق مکین۔ بلال کھیلتا رہتا اور ہم پڑھتے رہتے۔ یہاں بیٹھ کر فطرت اور کتاب کا مطالعہ ایک ساتھ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ایسا ہی ایک خوشگوار دن تھا۔ ہم اسی طرح بیٹھے تھے کہ ریڈیو پاکستان سے بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کی خبر نشر ہوئی۔ نویں دسویں جماعت کا ایک طالب علم جتنا حساس ہو سکتا تھا، میں اتنا ہی اسے محسوس کر پایا۔ پھر میرا سماجی پسِ منظر ایسا تھا کہ بھٹو میرے لیے برائی ہی کی ایک علامت تھے۔ افسوس تو ہوا لیکن کچھ ایسا زیادہ نہیں۔ میں نے دیکھا کہ سارا گاؤں خاموش ہے۔ شام کو مسجد میں بھی کوئی غیر معمولی صورتحال نہ تھی۔ شاید کچھ لوگ افسردہ تھے، شایدکچھ مطمئن۔ حیرت مگر کسی کو نہیں تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے کسی کے لیے اس اطلاع میںکوئی خبریت نہیں۔ بعد میں بڑا ہوا تو پتا چلا کہ شہروں میں اخبارات کے ضمیمے شائع ہوئے۔ کچھ جیالوں نے خود سوزی بھی کی، لیکن معاشرہ ساکت رہا۔ اگر کہیں حرکت تھی بھی تو خوشی کے عنوان سے یا پھر افسردگی کے ساتھ۔ حیرت کہیں نہیں تھی، جیسے یہ ایک متوقع خبر ہو۔ جیسے ایک حادثہ جس کی اطلاع واقعے سے پہلے کر دی گئی ہو۔ جیسے لوگ اس کے لیے تیار تھے۔ جیسے انہوں نے اسے سننے اور برداشت کرنے کا ارادہ کر لیا ہو۔پھر مجھے ضیاالحق یاد آئے۔ ایک حادثے میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو میں عرفِ عام میں عاقل بالغ تھا۔ ضیاالحق میرے لیے ایک ہیرو تھے۔ ایک ایسے خواب کی تعبیر جو امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے عنوان سے، میری نسل کے ہر دوسرے مسلمان کی آنکھ میں موجود تھا۔ وہ تعبیر جس کا ظہور افغانستان کے کوہساروں میں ہوا تھا‘ اور ہمارے خیال میں جسے ضیاالحق نے امرِ واقعہ بنا دیا تھا۔ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے، میں اپنے گھر سے پیدل چلا۔ یہ کئی میل کی مسافت تھی۔ سڑک تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ میں تنہا نہیں۔ لاکھوں ہوں گے جو جنازہ گاہ کی طرف رواں تھے اور افسردہ بھی۔ ان کو افسوس تو تھا لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، حیرت ان کو بھی نہیں تھی۔ آج اس مجلس میں جب میں نے دیکھا کہ لوگ پریشان ہیں، کسی حد تک تاسف میں بھی‘ لیکن حیران نہیں ہیں تو میں پریشان ہو گیا۔ نواز شریف کی سزا کی ‘خبر‘ نے انہیں حیران نہیں کیا۔ میں سوچنے لگا: ”ہمارے لوگ اداس ہوتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں لیکن حیران نہیں ہوتے۔ Nحیرت‘ اضطراب اور جستجو کو جنم دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ کیا ہم اسی کیفیت کے حصار میں رہیں گے‘‘؟ یہ سوالات حیرت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ جب حیرت ہی نہ ہو تو سوال کیسے؟ جب ماں نہیں تو بچے کہاں سے آئیں گے؟ حیرت ہوتی تو بھٹو کیا سندھ تک محدود ہو جاتے؟ حیرت ہوتی تو کیا ضیاالحق کی قبر نوحہ خوانوں کو ترستی؟ بھٹو کے جانشینوں نے اقتدار کے لیے صلح کر لی۔ کسی نے ضیاالحق کے قاتلوں کو تلاش نہیں کیا۔ میں اگر ماضیِ بعید کو شامل کر لوں اور شخصی مشاہدے کو قومی تجربے تک وسعت دے دوں تو یہ سلسلہ لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوا‘ اور سقوطِ ڈھاکہ سے ہوتا ہوا آج تک پہنچا۔ معلوم نہیں کب، کہاں اور کس موڑ پر، بطور قوم، ہم نے حیرت کو کھو دیا؟ حیرت کھو جائے تو جستجو دم توڑ دیتی ہے۔ جستجو کی موت بے حسی کا جنم ہے۔ یہ احساس آدمی کو گھیر لیتا ہے کہ ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ امید کے چراغ بجھنے لگتے ہیں اور مایوسی کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بے حسی کا مطلب واقعات کے اثر سے نکل جانا ہے۔ یہ گویا اعلانِ عام ہے کہ تنِ مردہ پر کوڑے برسانے کا کوئی فائدہ ہے نہ پھولوں کی چادر ڈالنے کا۔ مجھے لگتا ہے کہ تنہا نواز شریف ہی نہیں، یہ قوم بھی زبانِ حال سے یہی اعلان کر رہی ہے۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ یہ کسی ایک واقعے کا نتیجہ نہیں۔ یہ کیفیت شکستِ آرزو کے تسلسل کا مآل ہے۔ فرد جب پے در پے واقعات سے گزرتا اور ‘آرزو، آرزو کے بعد خونِ آرزو‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو بے حس ہو جاتا ہے۔ مسلسل جبر بھی بے حس بنا دیتا ہے۔ منٹو کا ایک افسانہ جب بھی پڑھا، میں اپنے آنسوؤں کو تھام نہیں سکا۔ ہر بار یہ افسانہ مجھ پر ایک واقعے کی طرح بیت گیا۔ اب اگر پڑھنا چاہوں تو سچی بات ہے، ہمت نہیں ہوتی۔ میں کیا اور میری رائے کیا، لیکن بطور قاری میرا احساس ہے کہ یہ اردو کا سب سے پُر تاثر افسانہ ہے۔ ”کھول دو‘‘ میں منٹو نے بے حسی کو ایسے مجسم کر دیا ہے کہ پڑھنے والے کی سب حسوں کو بیدار کر دیتا ہے، آدمی اگر ساغر و پیالہ نہ ہو۔ شاعری میں اس کیفیت کو میر نے بیان کیا ہے یا پھر منیر نیازی نے۔ میر تو خیر خدائے سخن تھے مگر منیر نیازی نے بھی کمال کر دیا۔۔۔ وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر ۔۔ کوئی بچھڑ کے چلا جائے، غم نہیں ہوتا ۔۔۔ ادب اب بھی پڑھا جاتا ہے لیکن ابلاغ کے جدید ذرائع نے اُس وقت پر بالجبر قبضہ کر لیا ہے جو ادب کی روایت نے ورثے میں دیا تھا۔ ابلاغ کا جدید نظام تو سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک ہتھیار ہے۔ پیسہ کمانے کا ایک بے رحم عمل ہے جو میڈیا کے ہاتھوں سر انجام پاتا ہے۔ اب ”کہاں سے آئے صدائے لا الہ الااللہ‘۔ تو کیا اس بے حسی کو دوام حاصل ہے؟ دوام تو صرف ایک ہی طاقت کو ہے لیکن معاشروں کو تبدیلی کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لانا ہوتے ہیں۔ اسے ثبات کو تغیر میں بدلنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اذان دینا پڑتی ہے۔ تخلیق کاروں کو ”کھول دو‘‘ جیسے افسانے لکھنا پڑتے ہیں۔ شاعروں کو منیر نیازی کی طرح ‘ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا‘ کرنا پڑتی ہے۔ کالموں میں شہر آشوب لکھنا پڑتے ہیں۔ پھر ذات کے حصار سے نکلنا پڑتا ہے۔ ابھی لگتا ہے، اس کا وقت نہیں آیا۔ ابھی تو ہم کام و دہن کی آزمائش میں ہیں۔ شکم کے مطالبات سخت ہیں۔ ابھی تو معیشت کا دائرہ مزید تنگ ہونا ہے۔ ابھی شاید وہ وقت نہیں آیا جب کسی کے بچھڑنے کا غم میرے وجود کو اپنی گرفت میں لے لے۔ ابھی میں حیرت کی قبر پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کون سا افسوں پھونکوں جو اسے زندہ کر دے۔ حیرت زندہ ہو گی تو سوال اٹھے گا۔ ابھی تو سوال اٹھانے کا موسم بھی نہیں آیا؟ ابھی چھ ماہ صرف خیر کی خبر دینی ہے۔