جب حکومتوں میں بیرونی قوتوں کی مداخلت ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ حکومتوں کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ اس کی مثال ہم لارنسس آف عریبیا سے اخذ کر سکتے ہیں۔ جب اُس نے مغالطے اور بد گمانیاں پھیلا کر عربوں کو ترکوں کے مخالف کیا تو شریف مکہ کے بیٹوں نے محل کی گھڑکیوں سے ترک فوجیوں پر فائرنگ کی تو اس اس سین کا پہلے چیپٹرشروع ہوا۔ لارنس آف عریبیا نے برطانیہ کوا طلاع دی کہ میں اپنے تفویض کردہ کام میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ اس کے بعد عرب قومیت کا جن باہر آگیا اور آج تک وہ پھل پھول رہا ہے۔ اسی قسم کی سازش اسلامی کے دوسرے ملکوں میں بھی ہے۔
یہی وہ مغالطے اور بدگمانیاں ہیں جو صلیبیوں نے مسلمان حکومتوں میں غلافت کی تنزیلی کے وقت سے شروع کی ہوئی ہیں۔ یہ مغالطے اور بد گمانیاں اب تک جاری ہیں۔اسی دوران اسلامی درد رکھنے والے مسلم اکابرین نے مسلمان قو میں میںاسلام کی روح پھوکھنے کی نئے سرے سے کوشش شروع کی اور اسلام کی نشاة ثانی کا دور بھی شروع ہوا۔ صلیبیوں نے اپنے دور حکمرانی میں غلام مسلمانوں کے ذہنوں کو جو تبدیل کرنے کی جو کوشش کی تھی اس کا توڑ ہونا بھی شروع ہوا۔اسلامی نشاة ثانیہ کی تحریکوں کو دیکھتے ہوئے صلیبیوں نے وہی پرانی چال بڑی مہارت سے استعمال کی۔
دوسرے اسلامی ملکوں کی بات کسی اور موقعے پر چھوڑتے ہوئے ہم اپنے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کی لیتے ہیں۔ اس سے پہلے کچھ تاریخی حقائق بیان کرتے ہیں۔ ابھی افغانستان میں روسی فوجیں داخل نہیں ہوئی تھی کی پروفیسرخورشید صاحب جو اسلام آباد میںایک ادارہ چلا رہے ہیں اس کے تحت ایک ٹیم ترتبیب دی تھی جس کا کام اس بات کی تحقیق کرنا تھی کہ کیا بات ہے ٥٠ کے قریب مسلمان ریاستیں استعمار کی غلامی سے آزاد ہو گئی ہیں مگر ترکی سے سنکیاک چین تک کا مسلم علاقہ جو روسی استعمار کے قبضے میں ہے ابھی تک آزاد نہیں ہو سکا۔ اس علاقے کے متعلق معلومات سرخ ریچھ نے باہر بھی نہیں آنے دیں۔
انسیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈی کے تحت تحقیقی کام کرنے والے کچھ حضرات کو اس کام پر لگایا گیا تھا۔ ان حضرات نے بہت ہی کم وسائل کے ساتھ اس کام کو شروع کیا۔ کچھ ترکی کی لائبریریوں اور کچھ چھپ چھپا کر روس سے معلومات اکٹھی کی گئیں جو میری ذاتی لائبریری میںتین کتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔اس کا نچوڑیہ ہے کہ روسی سلاوی قوم کے لوگ ہیں جو ماسکو کے ارد گرد کا علاقہ ہے۔ ان کے بانی نے اس وقت کے مسلمانوں سے رجوع کیا تھا کہ ہم متمدن دنیا کے باشندے بننا چاہتے ہیں مگر سرد علاقہ میں رہنے کی وجہ سے شراب نہیں چھوڑ سکتے۔ مسلمانوں نے ان سے سیدھے طریقے سے کہا کہ شراب ہمارے مذہب میں حرام ہے ہم اس کی اجازت دینے کے مجاز نہیں۔وہ عیسائیوںکے پاس گئے تو اُن سے بھی یہی سوال کیا۔
انہوں کہا کہ شراب ہمارے مذہب میں بھی حرام ہے لیکن لوگ ہمارے بات نہیں مانتے لہٰذا وہ شراب پیتے ہیں۔ اس آسانی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سلاوی بحثیت قوم عیسائی ہو گئے۔ یہ تو ان کے مذہب کے متعلق تحقیق ہے۔کچھ مدت ترقی کے بعد ان میں ایک لیڈر ایڈورڈ گزرا ہے۔ اس نے روسی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ جو قوم خلیج پر قبضہ برقرا رکھنے میں کامیاب ہو گی وہ دنیا کی امامت کرے گی۔ اس وقت سے روسی قوم اس قول پر عمل پیرا رہی۔ ترکوں سے لڑائیاں لڑ کے سنکیاک تک کے علاقے تقریباً٣٠٠ سال کی جد وجہد کے بعد حاصل کئے جس کی آبادی کم و پیش گیارہ کروڑ مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اس دوران روس میں زار سے لیکر کیمونسٹ حکومتیں قائم ہوتی رہیں مگر وہ اس ٹارگٹ پر عمل پیرا رہے۔
مسلمانوں پر سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے جو تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ اس وقت ترکی سے سنکیاک کا علاقہ روسیوں کے قبضے میں تھا۔ خلیج تک پہنچنے کے لیے اور اپنے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ،یعنی گرم پانیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہوئے وہ دریائے آمو سے آگے بڑھنے کے لیے افغانستان میں اشتراکیت پھیلاتے رہے ۔ ایک وقت آیا کہ افغانستان میں روسی اثر اس حد تک بڑھ گیا کہ اس کی یونیورسٹیوں میں الحاد نے مکمل ڈھیرے ڈال دیے۔
افغانستان میں نشاة ثانیہ کے لیے کام کرنے والے کچھ نوجوانوں نے ،جن میں انجنیئرحکمت یار پیش پیش تھے نے روس کاراستہ نظریاتی طور پرروکنے کی کوشش شروع کی اور افغانستان کی یونیورسٹیوں میں پھر سے اسلام پسندوں کا زور بڑھنے لگا۔ روس سے یہ برداشت نہ ہوا۔ اس نے ببرک کارمل کو روسی ٹینکوں پر سوار کر کے دریائے آموکو کراس کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔پھر ان ہی نشاةثانیہ پر کام کرنے والے طالب علموں نے افغانستان کے کونے کونے میں پھیل کر افغانوں کو اپنا ملک آزاد کروانے کے لیے جہاد شروع کیا۔ افغانوں نے تین سال تک درے کی بندوقوں سے روسی
٢
ریچھ کو روکنے کی کوشش کی پھر اسلامی دنیا ان کی مدد کو آن پہنچی ۔ آخر میں روس کی اس پایسی کا توڑ کرنے کے لیے اور جلیج پر خود قبضہ کرنے کی لالچ کی وجہ سے امریکہ اس جنگ میں کود پڑا۔ اسٹینگر میزائلوں نے کا م کر دیکھایا اور بلاآخر سرخ ریچھ اپنی منزل خلیج تک نہ پہنچ سکا۔ بلکہ اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ پروفیسر خورشید کے شروع کردہ کام کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے ترکی سے سنکیاک تک کامسلمان علاقے آزاد ہوئے جس پر انہوں نے تحقیق شروع کرائی تھی۔اللہ کا کرنا کہ اس جنگ سے ترکی سے سنکیاک تک کا علاقہ آزاد ہواچھ اسلامی ریاستیں قازقستان، کرغیزستان، اُزبکستان، ترکمانستان، آزربائیجان، اور تاجکستان اور مشرقی یورپ کی ریاستیں بھی آزاد ہوئیں روس کا شیرازہ بکھر گیا۔
ان تاریخی حقائق بیان کرنے کے بعد ہم اس بات پر واپس آتے ہیں جس ہم نے گفتگو شروع کی تھی ۔ کیونکہ صلیبیوں کی افغانستان میں مداخلت حد سے بڑھی ہوئی تھی ۔جب روسی فوجیں واپس چلی گئیں توصلیبیوں نے افغانوں کو اس کے ثمرات سمیٹنے نہیں دیے اور اپنے پرانے مغالطوں اور بدگمانیوں کو پھیلانے کی سازش شروع کر دی۔ بلکہ جنگ کے دوران ہی ان کے دانش ور ہنری کیسنگر کے مضمون پریس میں آنے شروع ہو گئے تھے
جن جہادیوں کی مدد کر کے صلیبیوں نے روس کو شکست سے دوچار کیا وہ روس اور صلیبیوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ روس کو شکست سے دوچار کرنے والی نو جہادی پارٹیوں کو حکومت بنانے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ۔ ان پارٹیوںکو آ پس میں لڑادیا گیا اور ایک کمزور مجددی کو حکومت سونپ دی ۔ اس کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ایک طاقت طالبان کی شکل میں سامنے آئی۔ اس طاقت نے پورے افغانستان سے خانہ جنگی ختم کی اور امن امان قائم کر دیا۔ امارت اسلامی کا اعلان کر کے ملا عمر اس کے امیر قرار پائے۔ افیون کی کاشت ختم کر دی گئی پاکستان اور سعودی عرب نے اس کو تسلیم بھی کیا ۔ طالبان حکومت نے کسی بھی بیرونی ملک میں کوئی بھی دہشت گردی نہیں کی۔
ابھی تک صرف اپنا ملک آزاد کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں اور ٤٠ ملکوں کے صلیبیوں کے منہ کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ کل کے مجاہد جن کے ساتھ امریکی صدر تصویر بنا کر دنیا کو دیکھاتے پھرتے تھے اب وہ مجاہد دہشت گرد بنا دیے گئے ۔ افغانستان پر حملے کے وقت بہانہ اسامہ کوبنایا گیا کہ اس نے ٩ ١لیون کا واقعہ کیا ہے۔
اسامہ افغانستان کے پہاڑوںمیں بیٹھا یہ کام کیسے کر سکتا تھا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے یہودی اور صلیبیوں کی مشترکہ کوشش ہے اور یہ واقعہ ان دونوں نے مل کر کیا ہے اور اس کے بعد پوری اسلامی دنیا کو تیس نیس کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس واقعہ کے موقعہ پر بش کے منہ سے بات نکلی تھی کہ ہم نے صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے۔وہ اسامہ جس نے افغانستان میں مسلمانوں کی مدد کی سعودی عرب سے امریکی فوجوں کو نکالنے کی تحریک شروع کی۔ وہ دہشت گرد قرار پایا۔
طالبان جو اپنے ملک سے امریکی فوجوں کو باہر نکانے کی کو شش کر رہے ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔ کشمیری جو بھارت سے اپنے کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں وہ ہشت گرد ہیں فلسطینی جو اپنے ملک پر یہودی قبضہ ختم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں وہ ددہشت گرد ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ختم ہو سکتا ہے کہ مسلمان حکومتیں اپنے اپنے ملکوں میں صلیبیوں کی حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت کو ختم کریں۔ اپنے وسائل پر قناعت کریں ۔دولت کے پوجاری نہ بنیں۔ ورنہ صلیبی ویسے ہی مغالطے اور بدگمانیاں پیدا کر کے مسلمانوں میں قومیت، لسانیت، علاقیت،اور فرقہ وریت پیدا کر کے آپس میں لڑاتے رہیں گے اور مسلمان حکومتیں کمزور ہوتی جائیں گی۔
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com
www.mifafsaramanfacebookcom