گزشتہ سال ستمبرکی بات ہے جب میں چین کے جنوبی صوبہ گوانگ ڈونگ کے ساحلی شہر چانجیانگ میں واقع ایک معروف یونیورسٹی میں چائنیز زبان کے طالب علم کی حیثیت سے زیرِ تعلیم تھا۔ ایک دن مجھے انٹرنیشنل افیئرز آفس کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ چوں کہ آپ یہاں پاکستان سے آنے والے طلبا کے گروپ کی نمائندگی کررہے ہیں، اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے کچھ ارکان آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا آپ فلاں دن، فلاں وقت پر آفس تشریف لے آئیے۔
مقررہ دن اور وقت پر میں جب انٹرنیشنل آفس کی عمارت میں پہنچا تو مینیجر صاحبہ نے مجھے اپنی رہنمائی میں ایک کمرے تک پہنچایا اور کہا کہ یہ لوگ آپ سے چند عام سے سوالات پوچھیں گے، اپنی سمجھداری سے ان کا جواب دیجیے گا؛ یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا ایک پستہ قد لیکن ادھیڑ عمر آدمی اور درمیانی عمر کی لڑکی وہاں رکھے صوفے پر بیٹھے تھے جب کہ لمبے قد کا ایک جوان لڑکا ٹرائی پوڈ پر کیمرہ سیٹ کررہا تھا۔ میں اپنی طبیعت کے مطابق خاصا متجسس تھا کہ یہاں مجھے کس مقصد سے بلایا گیا ہے؟ پھر یہ ہماری ملاقات کی ویڈیو کیوں ریکارڈ کی جا رہی ہے؟ معاملہ سمجھ سے باہر تھا، اندر سے میں قدرے پریشان بھی تھا لیکن بظاہر مطمئن تھا کہ ان لوگوں پر اپنا اچھا تاثر قائم کروں۔
چھوٹے قد والے آدمی نے، جو افسر معلوم ہوتا تھا، اٹھ کر مجھے چائنیز چائے بناکر پیش کی اوراس دوران اس نے چینی زبان میں میرا تعارف مانگا، پھر اپنا مختصر تعارف کروایا کہ وہ صوبائی حکومت کا اہم رکن ہے اور اسے معلوم ہوا ہے کہ چند پاکستانی طلبا اس یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں، لہذا وہ یہ دریافت کرنے آیا ہے کہ ہمیں کسی قسم کی کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے لڑکی کا تعارف کروایا کہ وہ اس کے ساتھ بطورِ مترجم کام کررہی ہے اور اگر میں کوئی بات چائنیز کے بجائے انگریزی زبان میں کرنا چاہوں تو وہ میری بات کا ترجمہ کرکے اسے بتائے گی۔ مزید یہ کہ وہ لوگ میرا انٹرویو نہیں کرنا چاہتے، بس کچھ غیر رسمی سوالات کریں گے۔ خیر، انہوں نے تقریباً ایک گھنٹہ تک گپ شپ کے نام پر میرا ویڈیو انٹرویو جاری رکھا جس میں بیشتر سوالات اسلام سے متعلق تھے کہ ہم لوگ ایک غیر مسلم ملک میں اور اس شہر میں جہاں کوئی مسجد ہی نہیں، اپنی نمازیں کیسے پڑھتے ہیں، حلال کھانے کا انتظام کیسے کرتے ہیں اور مخلوط تعلیم (کو ایجوکیشن) سے متعلق ہم لوگوں کی کیا رائے ہے وغیرہ۔
میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ہر سوال کا مختصر لیکن انہیں مطمئن کر دینے والا جواب دیا کہ ہمارے ملک میں بھی یونیورسٹیز میں مخلوط تعلیم کا ہی رواج ہے، لہذا یہ بات ہمارے لیے کوئی انوکھی نہیں۔ حلال کھانے سے متعلق جواب دیا کہ ہم خود بازار جا کر زندہ مرغی خرید کر اسے اسلامی طریقے سے ذبح کرتے ہیں پھر اس کا گوشت بنوا کر اسے پکاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ہر قسم کی سبزی کھا سکتے ہیں، اس بارے میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ جہاں تک نماز کی بات ہے تو اس مسئلے کو ہم نے یوں حل کیا ہے کہ ہم پاکستانیوں نے اپنے ہاسٹل کی عمارت میں ایک خالی کمرے کو مسجد کے طور پر ڈیکلیئر کردیا ہے، ہم وہیں نماز وغیرہ پڑھتے ہیں اور اونچی آواز میں اذان دینے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ آس پاس کے کمروں میں رہنے والے تقریباً سارے طلبا ہی غیر مسلم ہیں، لہذا انہیں اونچی آواز کی وجہ سے کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے بعد مزید سوالات کی بوچھاڑ ہوئی اور میں اپنی دانست کے مطابق جواب دیتا گیا۔ آخر میں اس لڑکی نے میرا نمبر لیا اور ایک نمبر دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو کسی قسم کا مسئلہ درپیش ہو تو آپ اس نمبر پر کسی بھی وقت کال کرسکتے ہیں۔
چند دن بعد ایک کام سے اینیمل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک اجنبی پاکستانی بھائی کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں ہمارے آنے سے پہلے واحد پاکستانی تھے اور ڈیڑھ سال سے یہاں ریسرچ کررہے ہیں۔ ان صاحب سے دوستی ہوگئی، چند ملاقاتوں کے بعد میں نے ان سے اس انٹرویو کا تذکرہ کیا، انہوں نے مجھے بیچ میں ٹوکا اور شروع سے آخر تک تمام روداد سنادی۔ میں حیران و پریشان کھڑا انہیں دیکھتا رہا اور پوچھا کہ یہ بات تو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا، آپ کو کیسے پتا چلا؟ انہوں نے کہا کہ بھائی وہ صوبائی حکومت یا محکمہ تعلیم کے نمائندے نہیں بلکہ انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگ تھے؛ اور یہ سب میرے ساتھ بھی بالکل ایسے ہی آج سے ڈیڑھ سال قبل ہو چکا ہے۔ اس وقت تو میں خاصا حیران ہوا، لیکن پھر اگلے چند روز میں نے اس سب کی وجہ تلاش کرنے میں صرف کر دیئے۔
معلوم ہوا کہ چانجیانگ شہر جنوبی چین کے صوبے گوانگ ڈونگ کا آخری شہر ہے۔ اس کے بعد بحیرہ جنوبی چین (نارتھ چائنا سی) شروع ہوجاتا ہے جس پر چین، فلپائن اور تائیوان کا تنازعہ ہے۔ ہر ریاست اس سمندر پر اپنا حق جتاتی ہے کیونکہ اس جانب واقع تمام ممالک کے پاس ایشیا، یورپ اور افریقہ تک تجارت کا واحد سمندری راستہ یہی ہے۔ مزید یہ کہ امریکی بحری بیڑے فلپائن کی مدد کرنے کےلیے اس سمندر میں ہی آس پاس موجود رہتے ہیں، لہٰذا اس تنازعے کی وجہ سے چین پر اگر وار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسی شہر پر ہوگا۔ پیپلز لبریشن آرمی نے یہاں اپنے ہوائی اڈوں اور بحری بیڑوں کو تیار حالت میں رکھا ہوا ہے تاکہ کسی بھی ملک کے چین کے خلاف عزائم کا بروقت جواب دیا جاسکے۔ اس کے علاوہ خفیہ اداروں کی اس علاقے میں بھر پور اجارہ داری ہے، وہ اس بات کو یقینی بنائے ہوئے ہیں کہ یہاں کسی بھی قسم کی بدنظمی یا شدت پسندی نہ ہونے پائے۔ اس مقصد کےلیے وہاں آنے والے غیر ملکیوں کی اکثر کڑی نگرانی بھی کی جاتی ہے اور ان کی فون کالز وغیرہ بھی ٹریس کی جاتی ہیں کہ کہیں ان کا کسی شدت پسند یا دہشت گرد تنظیم سے تعلق تو نہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم لوگوں نے چھ ماہ کے عرصے میں نہ تو وہاں کوئی وی آئی پی موومنٹ دیکھی، نہ ہی سڑک پر گشت کرتی پولیس کی موٹر سائیکلیں اور کاریں، نہ ہی ہمیں کسی ناکے سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ اگر انٹیلی جنس اداروں کی اجارہ داری یا پولیس کی نگرانی تھی بھی تو وہ خفیہ طور پر، نہ کہ عوام النا س کو تنگ کرکے۔ معمولاتِ زندگی بہترین طریقے سے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھے۔ کسی شہری یا غیرملکی کو کوئی پریشانی نہ تھی۔
پاکستان کی بات کریں تو وطن عزیز کو باہر کی قوتوں سے لاحق خطرات کو تو فوج اور اس کے خفیہ ادارے ہر ممکن طریقے سے ٹالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، لیکن اگر پولیس کی بات کی جائے جس کا مقصد ملک کے اندر امن و امان کا قیام اور جرائم کا خاتمہ ہے تو اس بارے میں بے حد مایوسی نظر آتی ہے۔ پچھلے ماہ فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ڈولفن پولیس کے اہلکار لاہور میں عام شہریوں کو موٹر سائیکلوں سے اتار کر اور سڑک پر گھٹنوں کے بل بٹھا کر ان کی چیکنگ کررہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک دوست سے بات ہوئی جو خود بھی ڈولفن پولیس میں ہیں تو جناب نے اس کا جواب کچھ یوں دیا کہ یہ عوام کی کوئی تذلیل نہیں بلکہ شہریوں کی چیکنگ کا طریقہ کار ہے جو مغربی ممالک میں بھی نافذ ہے، اور اکثر ہالی ووڈ فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے۔ اب کون اس سے مغزماری کرتا کہ بھائی آپ کی بات بالکل بجا ہے، لیکن یہ طریقہ اس شخص کے ساتھ برتا جاتا ہے جو کسی واردات کے بعد بھاگ رہا ہو اور پکڑا جائے، نہ کہ شریف اور باعزت شہریوں کے ساتھ۔
چند دن پہلے لاہور میں مقیم ایک چائنیز دوست سے بات چیت ہو رہی تھی تو وہ کہنے لگے کہ بھائی ہم تو یہاں صحیح موج میں ہیں۔ دو سے تین بار ٹریفک پولیس نے لائسنس نہ ہونے پر روکا، لیکن پھر یہ کہہ کر جانے دیا کہ کوئی بات نہیں، آپ ہمارے دوست ہیں؛ اپنے ملک میں ہوتا تو اس خلاف ورزی پر لاکھوں پاکستانی روپوں کا جرمانہ دے چکا ہوتا۔ اس وقت مذکورہ بالا واقعہ ذہن میں آیا کہ کیا چائنیز کو نہیں پتا تھا کہ پاکستانی ان کے دوست ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں قانون سے بالاتر نہیں ہونے دیا تو ہماے ادارے کس حق سے ان لوگوں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے دے رہے ہیں۔
حکومت اتنے عرصے سے پولیس ریفارمز کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ ڈولفن کے ساتھ ساتھ پیرو فورس پر خطیر رقم خرچ کی گئی، ان فورسز کو مہنگی ترین گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں مہیا کی گئیں۔ ان کے قیام کا بنیادی مقصد پولیس میں کرپشن، اسٹریٹ کرائمز اور منشیات فروشی کا خاتمہ تھا لیکن یہ تینوں دھندے ان فورسز کے بننے کے بعد مزید سیکیوئر ہو گئے ہیں۔ شریف شہریوں اور ٹرک اور ٹرالی والوں کو ناکوں پر روک کر ان سے پیسے وصول کرنا، شہر کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر قائم تجاوزات اور غیرقانونی پارکنگ قائم کرنے والوں سے ماہانہ وصولی کرکے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا، یہ سب پولیس کےلیے معمول کی باتیں ہو گئی ہیں۔ قانون کے محافظ جرائم اور برائیوں کے رکھوالے بنے ہوئے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ملک میں قانون کی نہیں بلکہ دلوں میں خوفِ خدا کی کمی ہے۔
ضرورت اس امر کی نہیں ہے کہ ایک کے بعد ایک نئی فورس تشکیل دی جائے، اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ فورسز کا چیک اینڈ بیلنس سسٹم بہتر کیا جائے۔ ان کی جسمانی کے ساتھ نفسیاتی اور اخلاقی تربیت بھی کی جائے۔ تب جاکر ہم اپنے سول دفاعی اداروں سے برائیوں کا خاتمہ کرکے ان کو موثر بنا سکیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں سیف سٹی پراجیکٹ ایک ناگزیر منصوبہ تھا لیکن اس کا صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کےلیے اس کا دائرہ کار دیگر شہروں اور صوبوں تک وسیع کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ادارے اپنے موجودہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے بھی ملک سے چوری، ڈکیتی، عوامی سطح پر ہونے والی کرپشن اور دیگر برائیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کےلیے ان کو نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا۔