تحریر: طارق حسین بٹ
١٦ دسمبر کے واقعہ کے بعد قوم جس طرح کی ذہنی کیفیت سے گزر رہی ہے اس کے بیان کیلئے میرے پاس مناسب الفاط نہیں ہیں۔قوم کی خواہش ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا دائرہ اختیار بڑھا کر ان لٹیرے حکمرانون کی جانب بھی موڑ دیا جائے جھنیں موجودہ عدالتی نظام کی کمزوریوں کی موجودگی میں سزانہیں دی جا سکتی۔کرپشن اور لوٹ مار کے کلچر نے جس طرح پاکستانی معاشرے کو تباہ و بردباد کیا ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ عوام اس بوسیدہ اور کرپٹ نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن سیاست دانوں کا وہ گروہ جس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے وہ اسے جوں کا توں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ایک جنگ ہے جو عوام کے دلوں میں پل رہی ہے لیکن جس کے ظہار کا انھیں راستہ نہیں مل رہا۔
ان کے دلوں میں پلنے والوں خوابوں کی اجلی تعبیر کی ایک صورت نئی عدالتوں کے قیام کی صورت میں پیدا ہوئی ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ اس موقع کو غنیمت جان کر ان کرپٹ عناصر سے معاشرے کو پاک کیا جائے جو پاکستان کی اجلی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہیں۔ان کی یہ خواہش تعبیر کے سانچے میں ڈھلتی ہے یا نامرادیوں کے ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے ابھی تک پردہِ راز میں ہے کیونکہ ابھی تک نہ تو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کے ضوابط کا تعین ہوا ہے۔اصو ل و ضوابط کچھ بھی ہوں عوام کی یہ آرزو ہے ایک دفعہ گند سے پاکستانی معاشرے کو پاک صاف کیا جائے کیونکہ اس طرح کی گندگی کی موجودگی میں یہ معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔وہ معاشرہ جس میں ہر چیز پیسے سے ناپی جاتی ہو ایک دن تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔اپنے آبائو اجداد کے لہو سے تخلیق کردہ پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ پاکستان کااس طرح کا حشر نہیں دیکھ سکتے لہذا ان کی خوا ہش ہے کہ پاکستان میں عدل و صداقت اور انصاف کی حکمرانی ہو اور ہمارا معاشرہ کرپشن سے پاک و صاف ہو لیکن ایسا کس طرح ممکن ہو گا وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔شائد ١٦ دسمبر کا یہ سانحہ اور ننھے فرشتوں کا لہو پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کی نوید بن کر ابھرے۔،۔
وزیرِ اعظم پاکستان نے قوم کے نام اپنی نشری تقریر میں جن نکات کا ذکر کیاتھا اس سے ایک بات مترشح ہوتی تھی کہ پاکستان میں خرابیوں کی ساری جڑ مذ ہبی جماعتیں ہیں جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔اس ملک پر ہمیشہ غیر مذہبی جماعتوں نے حکومت کی ہے اور انھوں نے عدل و انصاف کی جسطرح دھجیاں بکھیری ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔لوٹ مار اور کرپشن کا جسطرح سے بازار گرم رہا ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے۔اقربا پروری اور خاندانی اقتدار کا جو چلن ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور وراثتی سیاست کے جس گند سے پاکستان گزر رہا ہے اس کی بھی سب کو خبر ہے اور ان میں سے کوئی خرابی بھی مذہبی جماعتوں کی پیدا کردہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وزیرِ اعظم کی ساری تقریر کا نقطہ ماسکہ مذہبی جماعتیں اور مدرسے تھے۔انھیں سیاسی جماعتوں میں اسلحہ بردار گروہ اور دھشت گرد نظر نہیں آتے جو دن دھاڑے لوگوں کو لوٹنے ، بھتہ وصول کرنے او ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔حکومت کا سارا ز زور مذہبی جماعتوں پر شب خون مارنے کا اعلان ہے حالانکہ پاکستان کی تباہی میں زیادہ حصہ ان سیاسی جماعتوں کا ہے جھنوں نے سیاست جیسے مقدس پیشے کو تجارت کا روپ عطا کر رکھا ہے۔کیا اس میں کسی کو شک ہے کہ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں کرپشن کو ہوا دیتیں اور ملکی خزانے کو بے دریغ لوٹتی ہیں جس سے کرپشن کے قصے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔سو ئیس عدا لتوں میں سالہا سال مقدمات چلتے ہیں لیکن اس کے باوجود ملکی خزانہ واپس نہیں آتا کیونکہ مک مکائو کی سیاست ایسا کرنے کی راہ میں آڑے آ جاتی ہے۔اب بھی سوئیس عدا لتوں میں ٢٠٠ ارب ڈا لر کی رقم پڑی ہوئی ہے جو کہ غیر قانونی ذرائع سے جمع کی گئی ہے ۔کیا کسی حکمران میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ اس لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان میں واپس لانے کا فیصلہ کرے؟ مجھے نہیں امید کہ کوئی حکمران ایسا کرنے کی جرات کر سکے گا کیونکہ جن کی یہ رقوم ہیں وہی تو اہلِ اقتدار ہیں اور اہلِ اقتدار اتنے بھولے نہیں کہ اپنے بلیک وارنٹ پر خود ہی دستخط کر دیں ۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری و سار ی رہیگا اور غریب عوام اپنے سیاسی قائدین کے ہاتھوں سرِ عام لٹتے رہیں گئے۔انصاف جب معاشروں میں مفقود ہو جائے تو پھر دھشت گردی اور بغاوت جنم لیتی ہے اور یہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔،۔
حکو مت کواس بات کا یقین دلا نا ہو گا کہ وہ مدا رس کی آڑ میں بے گناہوں کو تنگ نہیں کریگی ۔پاکستان میں تعلیمی سہولیات کا جو فقدان ہے اس سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے۔بجٹ میں سب سے کم حصہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کیلئے مختص کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں بچے سکول جانے سے محروم رہتے ہیں۔دور دراز علاقوں میں جہاں تعلیم کی سہولیات نہیں ہیں وہاں پر چھوٹے چھوٹے مدارس میں تعلیم کا جو سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اس سے تعلیمی سہولیات میں کمی کو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے جسے سرا ہا جانا چائیے ۔یہ مدارس تحریکِ طالبان کے قیام سے قبل بھی موجود تھے اور اپنی مذہبی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا ہ رہے تھے۔علماء سچے جذبوں سے دین کی خدمت کیلئے خود کو وقف کئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے لوگ انھیں عزت و توقیر سے نوازتے اور ان کا احترام کرتے تھے ۔جسطرح سائنس، فلسفہ، معاشیات، فنانس، وکالت اور میڈیکل کی تعلیم ہے اسی طرح مذہب کی بھی تعلیم ہے۔فقہ اور دین کی تعلیم کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے اور اس میں انسان کو اپنی ساری حیاتی صرف کرنی پڑتی ہے لہذا اگر کچھ دینی مدارس تعلیم کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چائیے کیونکہ تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ ان مخصوص مدارس کو جو کہ دھشت گردی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور منفی فکر کو ہوا دے رہے ہیں ان کی نشان دہی کرکے ان کا قبلہ درست کرے، انھیں رجسٹر کرے اور ان کیلئے ایک مخصوص سلیبس کا اہتمام کرے جسطرح کا اہتمام انگریزی سکولوں اور حکومتی سکولوں کیلئے کیا جاتا ہے ۔ہمارے ملک میں جتنے بڑے بڑے علما ء ہیں ان کی اکثریت مدارس سے فارغ التحصیل ہے لہذا اگر تمام مدارس پر قدغن لگا دی جائیگی تو پھر علما کا یہ طبقہ کہاں سے پیدا ہو گا جو اسلام کی تبلیغ کا بیڑہ اٹھا ئے ہوئے ہے ۔ مدارس سے نکلنے والے بچے ایک وقت میں بڑے عالم بنتے ہیں ۔اب اگر ان کی بنیادوں کو دھشت گردی کے خوف سے مسمار کر دیا جائیگا تو یہ بہت بڑا قومی سانحہ ہو گا جس پر حکومت کو ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا ہوگا۔،۔
حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ َفوجی عدالتوں سے عدل و انصاف کے سارے اصول اور ضابطے دھرے کے دھرے نہ رہ جائیں اور سکہ شاہی کی طرح جس کی گردن میں رسہ پورا آجائے اسے تختہ دار پر چڑھا نہ دیا جائے ۔ایسا نہیں ہونا چائیے کہ حکومت جسے چاہے پکڑ کر دھشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لے اور یوں ایک محبِ وطن شہری غدارِ ِ وطن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ بڑا نازک معاملہ ہے لہذا فوجی عدالتوں کو پورے ملک میں خو ف و ہراس کی بجائے انصاف کا منظر پیش کرناچائیے ۔اندھا دھند کسی بھی شہری پر الزاما ت کا شکنجہ کس کر اسے مستوجبِ سزا نہیں بنایا جاناچائیے ۔ دھشت گردوں کے ساتھ جنگ کے یہ معنی نہیں ہونے چائیں کہ پاکستان میں کسی کی عزت و آبرو کی کوئی گارنٹی باقی نہ رہے اور حکومت جسے چاہے اور جب چاہے گرفتارکرکے سزا کا حق دار ٹھہرا ڈالے۔یاد رہنا چائیے کہ سالہا سال کا ناسور ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوا کرتا۔مرض طویل ہو تو علاج بھی طویل ہوتا ہے۔ اسے ایک رات میں حل کرنے کی کوشش ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتی ۔ روم ایک دن میں تعمیر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی راتوں رات تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں جسطرح کی سرعت کا عندیہ دیا جا رہا ہے وہ قابلِ تشویش ہے کیونکہ اس سے کچھ حلقوں میں تحفظا ت کی لہر دوڑ جائیگی جس سے حالات سدھرنے کی بجائے مزید ابتری کی جانب جا سکتے ہیں کیونکہ کسی بھی مخصوص گروہ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔جزا و سزا کا فیصلہ جرم کی نوعیت پر ہوناچائیے نہ کہ ذاتی خواہش یا انتقام پر ۔ اسلام تو بد ترین دشمن سے بھی انصاف کرنے کی تلقین کرتا ہے لہذا انصاف کو ہر حالت میں مقدم ہو نا چائیے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چائیے کہ یہی دھشت گردی کا پائیدار حل ہے۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم )