تعصب کی پھٹیچر دلدل
تاریخ 3 مارچ تھی‘ سن 2009ء تھا اور مقام تھا لاہور کا لبرٹی چوک‘ صبح آٹھ بج کر 40 منٹ پر 12 دہشت گرد چوک میں آئے اور قذافی اسٹیڈیم کی طرف جانے والی بس پر فائر کھول دیا‘ افراتفری مچ گئی ‘ لوگ دیوانہ وار دوڑ پڑے‘ بس کے پیچھے پولیس اسکواڈ تھا‘ پولیس نے جوابی فائرنگ شروع کر دی‘ دہشت گردوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی‘ بس کا ڈرائیور مضبوط اعصاب کا مالک تھا‘ وہ بس دوڑاتا رہا‘ دہشت گردوں نے بس کے نیچے دستی بم پھینکا‘ وہ بم بس گزرنے کے بعد پھٹا‘ دہشت گردوں نے راکٹ فائر کیا لیکن وہ راکٹ بھی خوش قسمتی سے بجلی کے کھمبے کو جا لگا‘ بس چلتے چلتے قذافی اسٹیڈیم کے اندر داخل ہو گئی۔
عملے نے فوری طور پر گیٹ بند کر دیے‘ دہشت گردوں نے مایوسی کے عالم میں اندھا دھند فائرنگ کی اور پیچھے ہٹتے ہٹتے فرار ہو گئے‘ فائرنگ رکنے کے بعد معلوم ہوا پولیس کے پانچ جوان شہید ہو چکے ہیں‘ بس میں سری لنکن کرکٹ ٹیم سوار تھی‘ ٹیم کے چھ ارکان بھی زخمی ہو گئے ہیں‘ دہشت گردوں نے بس پر ہزاروں گولیاں برسائی تھیں‘ بس کو 58 گولیاں لگیں لیکن یہ گولیاں خوش قسمتی سے کسی کھلاڑی کو جانی نقصان نہ پہنچا سکیں‘ یہ بھی معلوم ہوا یہ حملہ بس کے ڈرائیور مہر محمد خلیل نے ناکام بنایا تھا‘ وہ حملے کے دوران مسلسل بس چلاتا رہا تھا‘ دہشت گرد ڈرائیور‘ بس کے ٹائروں اور کھلاڑیوں کو نشانہ بناتے رہے‘ وہ چاروں اطراف سے گولیاں برساتے رہے۔
اس دوران اگر ڈرائیور کے اوسان خطا ہو جاتے اور وہ بس روک دیتا تو سری لنکا کا کوئی کھلاڑی زندہ نہ بچتا‘ یہ ڈرائیور کا کمال اور بہادری تھی وہ حملے کے دوران بھی بس چلاتا رہا یہاں تک کہ تمام کھلاڑی بحفاظت اسٹیڈیم کے اندر پہنچ گئے‘ سری لنکا نے بعد ازاں ڈرائیور مہر محمد خلیل کو کولمبو بلا کر 21 ہزار ڈالر انعام بھی دیا اور اسے قومی مہمان بھی بنایا‘ حکومت پاکستان نے اسے پانچ لاکھ روپے اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی دو لاکھ روپے عنایت کیے۔
سری لنکن ٹیم تین مارچ کی صبح میچ کے لیے ہوٹل سے اسٹیڈیم کے لیے نکلی‘ یہ جب قذافی اسٹیڈیم کے قریب لبرٹی چوک پہنچی تو دہشت گردوں نے حملہ کر دیا‘ یہ حملہ 20 منٹ جاری رہا‘ حملے میں کھلاڑی بچ گئے لیکن کرکٹ فوت ہو گئی‘ سری لنکا کے کھلاڑیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسٹیڈیم سے ائیرپورٹ پہنچایا گیا اور یہ وہاں سے سری لنکا روانہ ہو گئے‘ جہاز اڑا اور پھر اس کے ساتھ ہی کرکٹ بھی پاکستان سے پرواز کر گئی‘ ہمارے اسٹیڈیم‘ ہمارے کرکٹ کے میدان ویران ہو گئے‘ ہم ملک میں اب تک کرکٹ کی 8 برسیاں منا چکے ہیں‘ ہمارے ملک کے وہ تمام بچے جن کی عمریں 2009ء میں چار پانچ سال تھیں وہ اسٹیڈیم‘ کرکٹ اور میچوں کے بغیر جوان ہوئے ‘وہ پانچ مارچ 2017ء تک کسی اسٹیڈیم کے سامنے قطار میں کھڑے نہیں ہوئے‘ وہ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کی لذت تک سے واقف نہیں ہیں۔
ہماری تازہ تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہمارے اسٹیڈیمز کی پچز پر گھاس اگ آئی تھی اور نشستوں کو زنگ چاٹنے لگا تھا۔ہمیں آج یہ حقیقت ماننی ہو گی نجم سیٹھی نے قبر میں اترتی اس کرکٹ کو نئی زندگی دی‘ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) نجم سیٹھی کا ذاتی آئیڈیا تھا‘ یہ اس آئیڈیئے کے ساتھ جس سے بھی ملے اس نے انھیں ’’ڈس کریج‘‘ کیا‘ حکومت پی ایس ایل کی سب سے بڑی مخالف تھی‘ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف ہوں یا پھر وزیراعظم میاں نواز شریف ہوں کسی نے ان کے آئیڈیئے سے اتفاق نہیں کیا لیکن یہ اس کے باوجود ڈٹے رہے‘ یہ انٹرنیشنل کھلاڑیوں سے ملتے رہے اور انھوں نے اس میل ملاقات کے دوران پھٹیچروں اور ریلو کٹوں کو شلوار قمیض اور شیروانی پہننے‘ پاکستانی ترانے گانے اور پاکستانی پرچم اٹھا کر اسٹیڈیم کا چکر لگانے کے لیے قائل کر لیا‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا یہ نجم سیٹھی تھے جنہوں نے پانچ ٹیمیں بنائیں‘ 9 فروری کو دوبئی میں پی ایس ایل شروع کی اور فائنل پاکستان میں کرانے کا اعلان کیا۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا مال روڈ لاہور کے خودکش حملے اور سہیون شریف کے سانحے کے بعد لاہور میں میچ آسان فیصلہ نہیں تھا‘ اس فیصلے نے کرکٹ کے ساتھ ساتھ بے شمار لوگوں کا کیریئر کھا جانا تھا‘ وفاقی اور پنجاب حکومت دونوں کنفیوژن کا شکار تھیں‘ میری 24 فروری کو لاہور میں میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی‘ مجھے اس دن وزیراعلیٰ پنجاب ’’ڈبل مائینڈڈ‘‘ لگے‘ ان کا کہنا تھا ’’میں ذاتی طور پر لاہور میں میچ کرانا چاہتا ہوں لیکن انٹیلی جنس اطلاعات ٹھیک نہیں ہیں‘ خدانخواستہ اگر کوئی واقعہ ہو گیا تو ملک میں کرکٹ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’میاں صاحب ہم اگر آج یہ میچ نہیں کراتے تو پھر ہم یہ کبھی نہیں کرا سکیں گے‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ کرکٹ کا میچ نہیں‘ یہ دہشت گردی اور امن کا میچ ہے‘ ہم اگر یہ میچ نہیں کراتے تو دہشت گرد میچ سے پہلے یہ میچ جیت جائیں گے۔
قوم مزید ڈی مورلائزڈ ہو جائے گی‘‘ وزیراعلیٰ نے میرے نقطے سے اتفاق کیا‘ میں جانتا ہوں حکومت کے لیے یہ فیصلہ بہت مشکل تھا لیکن اس مشکل فیصلے کا کریڈٹ بھی بہرحال نجم سیٹھی کو جاتا ہے‘ یہ اگر دہشت گردی کے واقعات کے بعد پیچھے ہٹ جاتے یا پھر جب کیون پیٹرسن اور لوک رائٹ جیسے کھلاڑیوں‘ ڈینی موریسن‘ ایلن ولکنز اور ای این بشپ جیسے مبصرین اورغیرملکی براڈکاسٹرز نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا تو یہ حوصلہ ہار جاتے یا یہ نرم پڑ جاتے تو پھر دہشت گرد واقعی میچ کے بغیر یہ میچ جیت جاتے چنانچہ میں نجم سیٹھی صاحب کی تمام تر فلاسفی اور خیالات سے اختلاف کے باوجود ان کی ہمت کو داد دینے پر مجبور ہوں۔
اس میچ‘ اس کارنامے اور اس کامیابی کا سہرا بہرحال دو لوگوں کے سر جاتا ہے اور وہ لوگ نجم سیٹھی اور میاں شہباز شریف ہیں‘ نجم سیٹھی اگر پی ایس ایل کو پانچ مارچ تک نہ لاتے اور اگر میاں شہباز شریف خفیہ اداروں کی خوفناک مخالفت کے باوجود یہ میچ کرانے کا فیصلہ نہ کرتے تو یہ میچ لاہور میں کبھی نہ ہو سکتا چنانچہ ہمیں دل بڑا کر کے میاں شہباز شریف اور نجم سیٹھی دونوں کو مبارکباد بھی دینا ہو گی اور ہمیں مخالفت برائے مخالفت اور حمایت برائے حمایت کی عادت سے بھی باہر آنا ہو گا‘ ہمارا لیڈر دوزخ میں بھی فرشتہ اور دوسروں کا لیڈر جنت میں بھی شیطان ہے ہمیں اب یہ کلچر بھی بدلنا ہوگا‘ ہمیں اب لوگوں کو پرفارمنس کی بنیاد پر اچھا اور برا کہنے کی عادت ڈالنی ہو گی‘ ہمیں اب دل اور دماغ بھی بڑے کرنا ہوں گے اور ہمیں دوسروں کی کامیابیوں میں پانی ڈالنے کا سلسلہ بھی بند کرنا ہوگا‘ یہ ملک اب ان چیزوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
میری عمران خان سے درخواست ہے یہ64 سال کے ہو چکے ہیں‘ یہ سیاست میں بھی 21سال پورے کر چکے ہیں‘ یہ ایک صوبے میں حکومت بھی کر رہے ہیں اور یہ وفاق کا سب سے مؤثر اور تگڑا اپوزیشن گروپ بھی ہیں لہٰذا اب انھیں بھی میچورٹی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ یہ بھی اب چیزوں کو بلیک اور وائٹ میں دیکھنا شروع کر دیں‘ یہ اگر اس عمر میں بھی اُن سرویوین رچرڈز کو پھٹیچر اور ریلو کٹا سمجھتے ہیں جو ٹیسٹ کرکٹ کی 140 سالہ تاریخ میں سر کا خطاب پانے والے 30 کھلاڑیوں میں شامل ہیں‘ جو دنیا کے 20 عظیم کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے 1979ء میں ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ جتوایا تھا اور یہ اگر اُن ڈیرن سیمی کو بھی ریلو کٹا اور پھٹیچرسمجھتے ہیں۔
جنہوں نے پچھلے سال اپنی کپتانی میں دوسری بار ویسٹ انڈیز کو ٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ جتوایا تھا اور دنیا جنھیں 20 بہترین ٹی ٹوئنٹی کھلاڑیوں میں شمار کرتی ہے‘ یہ اگر مارلن سیموئلز کوبھی ریلو کٹا اور پھٹیچرسمجھتے ہیں جو مارچ 2016ء کے اس اسکواڈ میں شامل تھے جس نے ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ جتوایا اور جو دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں اوریہ اگر ڈیوڈ ملن اور کرس جورڈن کو بھی ریلو کٹے اور پھٹیچر سمجھتے ہیں تو پھر ان کی سیاسی مخالفت تعصب سے بھی آگے نکل چکی ہے‘ یہ مخالفت اب بیماری بن چکی ہے‘ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی ہو گی جب بیمار معاشروں کو لیڈر بھی بیمار ملنے لگیں تو پھر وہ معاشرے معاشرے نہیں رہتے‘ وہ پھٹیچر اور ریلو کٹے بن جاتے ہیں اور ہم تعصب کی اس پھٹیچر دلدل میں روزانہ کی بنیاد پر ریلو کٹے ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ ہماری بیماری موذی مرض بنتی چلی جا رہی ہے‘ مجھے خطرہ ہے یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ہم کہیں آدم خور نہ بن جائیں‘ ہم پر کہیں مُردے حلال نہ ہو جائیں۔