تحریر۔ : فضل خالق خان
آخر کار وہی ہوا جس کاڈر برسوں سے محسوس کیا جارہا تھا۔ جس بات کی نشان دہی سوات کے اہل درد گاہے بہ گاہے کرتے رہے کہ حکومت پاکستان نے اہل سوات کو کچھ دینا نہیں بلکہ اس ارض جنت میں بکھرے خزانوںکو لوٹ کر یہاں کے باسیوں کو پتھر کے زمانے کی طرز پر زندگی گزارنے کے لئے یک وتنہا چھوڑ دینا ہے ، سوات میں ٹھیک 47 سال بعد حکومت پاکستان کی جانب سے بد عہدی کی انتہا کرتے ہوئے کسٹم ایکٹ باقاعدہ طورپر نافذ کردیا گیا۔ حکومت پاکستان کے صوبے میں نمائندے اور حال ہی میں تعینات گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے پہلا کام سوات کے لوگوں پر کسٹم ایکٹ نافذ کر نے کا اعلان کردیا ۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے سمری پر نہ صرف دستخط کردئیے بلکہ اس کے فوری اطلاق کا حکم نامہ متعلقہ اداروںاور منتظمین کو بھی ارسال کردیا کہ اسے فور ی طورپر نافذ العمل بھی کیا جائے۔
28 جولائی 1969 سے قبل سوات ایک مثالی ریاست تھی جس کے اس وقت کے حکمران نے اسے دنیا بھر کے لئے انتظامی امور چلانے کے حوالے سے ایک مثالی ریاست بنایا ہوا تھا ، یہاں ہر طرف انصاف کا بول بالا تھا ،تعلیم کا شعبہ اتنا مثالی تھا کہ پاکستان کے کونے کونے سے نوابوں اور اعلیٰ خاندانوں کے خانوادے یہاں آکر تعلیم حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ، صحت کے حوالے سے اقدامات کو یاد کرکے اب بھی بزرگ سرد آہ بھرتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے جدید اسپتالوں میں آج بھی وہ سہولیات میسر نہیں جو اس وقت میسر تھے۔
اس کے علاوہ سڑکوں کا نظام اتنا بہتر تھا کہ سوات کے دوراُفتادہ اور پسماندہ علاقوں میں جانے کے لئے کسی تردود کی ضرورت نہ رہتی اور بند ہ کسی بھی وقت کسی بھی طرح گھر سے نکل کر اپنی منزل پر آسانی سے پہنچ سکتا تھا ، اس کے علاوہ امن وامان کی صورت اتنی بہتر تھی کہ بلا مبالغہ زیورات سے لدی پھندی کوئی خاتون رات کو بھی اکیلی ضرورت کے تحت گھر سے نکلتی تو راستے میں ماں ، بہن ،بیٹی کے روپ میں اسے بیٹا ، بھائی اور باپ تو ہزاروں ملتے لیکن راہزن دوربین میں بھی ملنے کے امکانا ت نہ تھے کیونکہ انصاف کا ایک مثالی نظام قائم تھا جسے کے تحت جرم کی بروقت سزا کے ڈر سے کوئی مائی کا لال جرم کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
پھر نہ جانے سوات کے لوگوںکی کیا بدقسمتی آئی! اس وقت کے حکمران جو انتہائی زیرک انسان تھے کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ریاست سوات کو حکومت پاکستان میں مدغم کرنے کی حامی بھر لی، ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ انہوں نے جو بھی فیصلہ کیا ہوگا سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا ۔ لیکن پھر بھی ایک بات مسلمہ ہے کہ انہوں نے سواتی عوام کی مفاد میںحکومت پاکستان سے کچھ معاہد ے بھی کررکھے ہیں جو یقینی طورپر داد کے قابل ہیں ۔ ان معاہدوںمیں سے ایک سوا ت کا ٹیکس فری زون ہونا بھی ہے معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان کسی صورت سوات میں ٹیکس لگانے کا مجاز نہیں، یہاں کی عوام کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن اس کے بائوجود حکومت پاکستان کی بھاگ ڈور سنبھالے مختلف اوقات کی حکومتوں نے اس حوالے سے طالع آزمائی کی ہے۔
مختلف چیزوں پر غیر محسو س انداز میں ٹیکس لگا کر سوات کے لوگوںکو لوٹنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا ادرا ک ہوتے ہی سوات کے اہل درد تاجر برادری کے صدر عبدالرحیم،ڈاکٹر خالد محمود سمیت دیگر نے گاہے بہ گاہے عدالتوںکا سہارا لے کر اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے اور بعض معاملا ت میں اس ک مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں جس پر سواتی عوا م ان کے شکر گزار ہیں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب ، ٹیکس لگانا حکومت کا حق ہے کیونکہ اس کے بغیر امور مملکت چلانا ممکن نہیں ہوتے لیکن اس سے قبل حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے یہاں کی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیںجن کا فی الوقت سوات میں دور دور تک کہیں شائبہ بھی نہیں۔ہم متذکرہ تینوں شعبوں کا ہی ذکر کریں کریں گے۔
انصاف کا یہاں تصور ہی نہیں عدالتوں میں لوگ سالہا سال سے اپنے حق کے لئے رُل رہے ہیںاور آخر کار پیوند خاک ہوکر مسائل لواحقین کے کندھو ں پر چھوڑ جاتے ہیں۔ اسپتالوںکا یہ حال ہے کہ ٹیچنگ اسپتال ہونے کے بائوجودان کی ایمر جنسی یونٹ میں سرنج تک دستیاب نہیںہوتے اور غریب لوگ باہر سے ادویات خرنے پر مجبور رہتے ہیں بہ الفاظ دیگر لوگ ان اسپتالوں میں مرنے کیلئے آتے ہیں کہ گھر میں ایڑیا رگڑنے سے بچنے کے لئے چلو علاج کے نام پر اسپتال کے بستر پر مر کر لواحقین کو تسلی رہتی ہے کہ علاج کے دوران موت آئی ا ور کھنڈرات سڑکیں ان کے بارے میں تو یہی کہوں گا کہ اب یہ پوری دنیا میں سوات کی پہچان بن چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سوات کو قدرتی حسن سے مالا مال کررکھا ہے ۔لیکن ان سے استفادہ حاصل کرنے اور بیرون سوات چاہے وہ ملک پاکستان کے سیاح ہوں یا دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاح ہوں ان کی ان سیاحتی مقاما ت تک رسائی کے لئے معیاری سڑکوں کی تعمیر حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی جس میں وہ بری طرح ناکام ہے ، سونے پر سہاگہ سوات میں 2005 کے زلزلے کے بعد سے لے کر طالبانائزیشن اور بعد ازاں سوات میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے ہونے والی تباہی کے صلے میں کیا سوات کے عوام کی داد رسی ضروری تھی کہ تباہ حال سوات کے لٹے پٹے عوام کو مزید مشکلات میں مبتلا ء کیا جانا ضروری تھا؟ میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں شاہی خاندان کی ایم این اے مسرت احمد زیب کو جنہوں نے چند یوم قبل میرے اخبارات ”روزنامہ چاند اور روزنامہ نوائے وقت ” کے لئے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے نہایت دُکھ سے بتایا کہ ہم نے گلشن کی طرح خوبصورت سوات کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا تھا جسے ناقص کارکردگی کی بناء پر کھنڈر کھنڈر بنادیا گیا ہے۔
یہاں کے گھنے جنگلات کا ستیاناس کرکے چٹیل میدانوںمیں تبدیل کردیا گیا ، سڑکوں کا یہ حال ہے کہ لنڈاکی تک کا سفر کرنیوالا پھر دو دن تک بستر سے اُٹھنے کے قابل نہیں رہتا ، تعلیمی اداروںکی حالت دیکھی جائے جنہیں نیا بنانے کی آڑ میں گرا گرا کر سوات کی اپنی تاریخی شناخت کو ختم کیا جارہا ہے ۔(چند دوستوں سے معذرت کے ساتھ کہ پرانی باتوںکو نہ دُہرایا جائے)
بات بہت لمبی ہوجائے گی اور قارئین کی طوالت مضمون سے اُکتا کر بیچ میں چھوڑ نے کے ڈر سے اس بات پر اکتفا کروں گا کہ سوات سے منتخب ممبران اسمبلی، وزراء اور مشیران جو ہر وقت سوات دھرتی کی خدمت کے دعوے کرتے نہیں تکتے ان سے نام لے کر میری گزارش ہے ۔کہ حقوق کی بات کرنے والے، ہر وقت اسمبلی میں قراردادیں جمع کرنے والے ، محسن سوات کے القابات اپنے نام کے ساتھ لگانے والے ،اسلام کے ٹھیکیدار، اپنا گھر چھوڑ کر سوات کو اپنا دوسرا گھر بنانے والے ،اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے والے اور اس قبیل کے دوسرے لوگ ایک ہوکر سوات پر پڑنے والی اس اچانک اُفتاد کا راستہ روکیںبصورت دیگر آج ایک کسٹم ایکٹ کا نفاذ ہوا تو کل کو دوسرا اور پرسوں تیسرا ایکٹ بھی نافذ کیا جائے گا۔
ایسے میں ا گر ان دعویداروں نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو الیکشن زیادہ دور نہیںپھر ان کو منہ دکھانے اور عوام کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رہے گی ،حکومت پاکستان کے ذمہ داروں سے بھی سواتی عوام کی یہی گزارش ہے کہ اگر انہیں سوات میں ٹیکس لگانے کا شوق اتنا ہی چڑھ چکا ہے تو پہلے یہاں کی عوام کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں،کشیدگی کے دوران یہاں کے تباہ حال انفراسٹرکچر کو بحال کیا جائے یہاں کی تباہ حال پلوں اور سڑکوں کو تعمیر کیا جائے یہاں صحت سہولیات فراہم کئے جائیں بچوںکو تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں تب بے شک ٹیکس لگانے کی سوچ کو یہاںکی عوام اور یہاں کے اہل درد سے شیئر کرکے اپنایا جائے۔
تحریر۔ : فضل خالق خان