تحریر: فضل خالق خان
سوات ارض پاکستان پر جنت کا ایک نمونہ ہے ‘یہاں کے سیاحتی مقامات اپنے اندر قدرتی حسن کی لازوال دولت سے مالا مال ہیں۔ پورا سال یہاں کا معتدل اور خوش گوار موسم ملک سمیت دنیا بھر کی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہوتا ہے لیکن حکومتی ذمہ داروں کی نااہلی ا ور عدم توجہی کی بناء پر آج کل ان علاقوں تک رسائی کے لئے رابطہ سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے پہنچنا جوئے شیر لانے کے متراد ف ہوگیا ہے۔ سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لئے متعلقہ سیاحتی علاقوں میں تمام تر انسانی ضروریات کی بہم رسائی اولین شرط ہے جن کی موجودگی کے باعث ان علاقوں میں باہر سے آنے والے سیاح صحیح معنوں میں ان علاقوںمیں موجود قدرت کی صناعی سے بہ احسن طریقے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے بیشتر علاقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے جلووں سے جِلا بخشی ہے لیکن ذمہ داروں کی نااہلی کی وجہ سے ان علاقوں کی ضروریات کے مطابق سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان علاقوں میں عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ماسوائے ان کے جن کے پاس ان علاقوں تک جانے کے لئے مطلوبہ سواری کا انتظام ہو ۔ سوات’ جسے عرف عام میں پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے اور جو اپنی خوبصورتی میں یکتائی کی وجہ سے حقیقی معنوں میں جنت ارضی کا ایک ٹکڑا ہے ۔ جہاں ہر سال ملک بھر سے نہیں بلکہ دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں لیکن اس کے بائوجود حکومت کی جانب سے اس علاقے کی سیاحت سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اُسے مسلسل نظرا نداز کئے جانے کی پالیسی کی وجہ سے سوات کی سیاحت سے ہر سال متوقع زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔
سوات کے سیاحتی مقامات مرغزار ،مالم جبہ میاں دم ، مدین ،بحرین ، کالام ،اُوشو، مٹلتان اور مشہور زمانہ مہوڈنڈ جھیل جہاں سال کے بارہ مہینے رنگ بدلتے موسم سیاحوں کیلئے اپنے اندر ایک مخصوص کشش کے باعث دلچسپی کا باعث بنے رہتے ہیں اور گرمی وسردی دونوں موسموں سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں ہر موسم میں موجود رہتی ہے لیکن اس کے بائوجود ہر آنے والے شخص کی زبان پر سہولیات کی فقدان اور متعلقہ علاقوں تک رسائی کا شکوہ رہتا ہے ۔ سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لئے رابطہ سڑکوں کی موجودگی کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے۔
لیکن اس حوالے سے سوات کے سیاحتی مقامات نہایت ہی بد قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ان علاقوں تک جانے والی سڑکیں گزشتہ ایک عشرے سے کھنڈرات کا نمونہ بنے ہوئے ہیں جن کی تعمیر ومرمت کے حوالے سے بلند وبانگ دعوے تو بڑے کئے جاتے ہیں لیکن عملی اقدامات کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے ۔گزشتہ حکومت میں سوات کی سڑکوں کی حالت زار دور کرنے کے لئے ایک نئی اصطلاح سامنے آئی اور علاقے سے منتخب ہر ممبر اسمبلی کے زبان پر ایک ہی فقرہ ہوا کرتا تھا کہ سوات کی سڑکوں کو کارپٹڈ بنایا جائے گا جس سے سوات کے سادہ لوح عوام بڑی مسرت محسوس کرتے ہوئے اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ اب ان کی سڑکیںبھی اُمراء کے کمروں میں بچھے قالینوں کی طرح ہموار اور خوش نما ہوجائیں گے لیکن یہ خواب خواب ہی رہا۔
ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں ان ممبران اسمبلی کے گھروںکو جانے والی سڑکیں یقینی طورپر کارپٹڈہوگئیں بلکہ دشوار گزار مقامات پر موجود اپنی جائیدادوں تک رسائی کے لئے بھی انہوں نے ایسی سڑکیں بنائیں جو ا ن کی باقی ماندہ زندگی میں خراب ہونے کا نام نہیں لیں گے لیکن سوات کے ان سیاحتی مقامات تک جانے والی سڑکیں تعمیر ومرمت کا صرف نام ہی سنتے رہے۔ بعد ازاں سال 2010ء کے تباہ کن سیلاب میںان سیاحتی مقامات کی سڑکوں کا نام ونشان تک مٹ گیا جن میں سے اب بحرین تک کی سڑک کو قابل استعمال بنایا گیا ہے اور اس پرباآسانی اور آرام سے سفر کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے آگے کالام تک کا سفر کھنڈر نما راستوں کا مرہون منت ہے۔
جس پر منٹوں کا سفر طے کرنے کے لئے پورا دن درکار ہوتا ہے اور ہزار ہا مشکلات کے بعد اگر کوئی ان بالائی علاقوں میں پہنچ بھی جائے تو سفر کی تھکان کی وجہ سے سیر وتفریح کا وہ مزہ باقی نہیں رہتا جسے سوچ کر سیاح یہاں تک پہنچتے ہیں۔ ان کے بعد تبدیلی سرکار کی حکومت آئی توانہوں نے بھی اپنے پیش رووں کی طرح سوات کی سڑکوں کی تعمیر ومرمت کے بڑے دعوے کئے لیکن ان کے دور اقتدار کو بھی دوسال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان سڑکوں کی تعمیر ومرمت توایک طرف ان کارہاسہا حلیہ بھی دیکھنے اور استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ لنڈاکی تا کالام بہ شمول مرکزی شہر مینگورہ کی سڑکیں اس قدر خستہ حال ہوچکی ہیں جنہیں دیکھ کر موہنجو ڈارو کے کھنڈرات کا گماں گزرتا ہے اوران پر اگر کوئی صحت مند انسان بھی سفر کرلیں تو وہ مریض بن جاتا ہے۔
امسال عیدالفطر پر سوات میں لاکھوں کی تعدا د میں سیاح عید کی چھٹیاں منانے اور سوات کے خوشگوار موسم سے لطف اُٹھانے کے لئے اُمڈ آئے لیکن انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں بلکہ یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے بیشتر سیاح سفر کی تکالیف سے تنگ آکر بالائی علاقوں تک پہنچنے کی بجائے جہاں تک رسائی ممکن تھی وہاں کی سیر کرکے باقی علاقوں کی حسرت دل میں لئے واپس لوٹ گئے۔بحرین تک روڈ اگرچہ درست کردیا گیا ہے لیکن اس سے آگے کالام اور بالائی علاقوںتک جانے والا رستہ انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ایک گھنٹے کا راستہ طے کرنے میں پورا دن صرف کیا ، دوسری جانب خراب اور کچا سڑک بارش کی وجہ سے کیچڑ بنا رہا جس میں سیاحوں کی گاڑیاں بری طرح پھنس کررہ گئیں اور لوگ رش میں گھنٹوں گھنٹوں کھڑے رہنے کا عذاب الگ سے سہتے رہے۔
دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے علاوہ ان سیاحتی مقامات میں لوگوں کی رہائش اور کھانے پینے کے حوالے سے بھی مسائل نے لوگوں کو پریشان کئے رکھا، جس پر عوامی حلقوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات اُٹھائیں تاکہ اس جنت ارضی کو حقیقی معنوں میں دنیا بھر کی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بنایا جاسکے اور اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ لنڈاکی سے لے کر کالام تک معیاری سڑکیں تعمیر کئے جائیں اس سے دُہرے فائدے اُٹھائے جاسکتے ہیں۔
ایک تو سیاحوں کے آنے سے یہاں کی سیاحت کے شعبے کو ترقی ملے گی جب کہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کوبھی روزگار کے ذرائع میسر ہوں گے جس سے ان کی معاشی حالت میں بہتری آئے گی ۔ ماضی قریب میں سوات کے عوام جن بدترین حالات سے گزرے ہیں ان سے نکالنے کے لئے یہاں پر روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے جس کے لئے ضرورت اس امر کی محسوس کی جارہی ہے کہ ان سیاحتی مقامات تک رابطہ سڑکوں کی حالت کو جلد ازجلد معیاری تعمیر کے ساتھ بہتر کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے سیاح بھی سفری آسانی سے مستفید ہوسکیں اس سے یقینی طورپر سیاحت کے شعبے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملکی ذرمبادلہ کوبڑھانے کا ایک آسان ذریعہ میسر ہوگا اور علاقے کے لوگ بھی خوشحالی محسوس کریں گے۔
تحریر: فضل خالق خان