تحریر : سید امجد حسین بخاری
سوات میں شدت پسندوں کے خلاف فوج کے آپریشن کا آغاز ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو سے کیا گیا۔ اس ویڈیو سے دنیا بھر میں پاکستان میں شدت پسندی کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ آ پریشن کے دوران ہی شدت پسند وں کے حوالے سے خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں کہ انہوں نے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی دوران سوات سے ایک طالبہ کی ڈائری بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے سلسلہ وار نشر کی گئی۔ ”گل مکئی ” کے نام سے ڈائری لکھنے والی طالبہ بعد ازاں ملالہ یوسف زئی کے نام سے پہچانی گئی۔ ملالہ نے ڈائری خود لکھی یا ملالہ کا نام استعمال کیا گیا اس حوالے سے تاحال بحث جاری ہے، اس تحریر کا مقصد ملالہ کی تعریف یا اس پر تنقید کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ تحریر گذشتہ روز قومی اخبارات میں شائع شدہ ایک خبر کے بارے میں ہے۔
خبر کے مطابق سوات سے ممبر قومی اسمبلی اور پاکستان سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز(ایس ڈی جی) کی ممبر عائشہ سید نے انتالیس تعلیمی اداروں کو فعال کیا جب کہ سوات بھر میں لڑکیوں کی تعلیم اور داخلے کے لئے بھرپور انتظامات کئے۔ جبکہ انہوں نے خود ایک طالبہ کا داخلہ بھی کیا۔ خبر پڑھتے ہی مجھے تجسس ہوا کہ سوات کی یہ بیٹی لڑکیوں کے تعلیمی ادارے فعال کرنے میں کیوں کر کامیاب ہوئی۔ عائشہ سید کی مصروفیات کے باعث ان سے ملاقات تو نہ ہوسکی مگر ٹیلی فون پر ان سے ہونے والی گفتگو کے بعد قوم کی اس بیٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہا۔ عائشہ سید نے بہت کم عرصے میں سوات بھر میں لڑکیوں کے باون سکولوں کو فعال کیا، ان سکولوں میں وہ سکول بھی شامل تھے جو کہ سوات آپریشن کے دوران شدت پسندوں نے تباہ کردیئے تھے۔
انہوں نے تن تنہا سیاسی جماعتوں کے نمائندوں ، مقامی قبائل کے سربراہان، نوجوانوں کے وفود اور خواتین کے ذریعے ان تعلیم اداروں کو بحال کیا۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں سوات نے ملینیئم ڈویلپمنٹ گول کے مطلوبہ اہداف مکمل کئے اور طلبہ و طالبات کی انرولمنٹ کی شرح سب سے زیادہ سوات میں ریکارڈ کی گئی جو کہ سوات کی اس بیٹی کی جد وجہد اور محنت کا ثمر ہے، سوات کے نوے فیصد تعلیمی اداروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں تھی عائشہ سید نے خصوصی توجہ دے کر مختلف این جی اوز اور صوبائی حکومت کے ذریعے پوری کی۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کے لئے بھرپور تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔انہوں نے نہ صرف سوات بلکہ صوبے کے دیگر پسماندہ اضلاع بونیر اور دیر میں بھی سو فیصد داخلہ مہم کے لئے اقدامات کئے، بونیر میں ای ڈی او ایجوکیشن ، ڈپٹی کمشنر اور لوکل باڈی کے منتخب عوامی نمائندوں سے مل کر طلبہ و طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخلوں کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کی،سوات کی یہ بیٹی اپنی دھن کی پکی ہے، جو عہد کر لے تو اسے پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر دیتی ہے۔
یقین جانئے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں طالبات کی تعلیم پر پابندی کا پروپیگنڈا پوری دنیا میں کیا جا رہا ہو۔ جہاں تعلیم پر قدغن کی خبریں شائع ہو رہی ہوں۔ انہوں نے ان تمام پروپیگنڈوں کو رد کیا، گھر گھر تعلیم کی مہم چلائی، ہر والد کو اپنی بیٹی اور بیٹے کو سکول بھیجنے کے لئے رضامند کیا۔ مگر اس جد وجہد کا کریڈٹ نہ تو اخبارات نے دیا نہ ہی قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس پر خبریں نشر کیں ، بھلا ایسی خبریں نشر کیوں جائیں؟ جی ہاں ! ایسی خبروں سے پاکستان کا حسین چہرہ سامنے آتا ہے۔ سوات کی بیٹی کی جدو جہد سامنے آتی ہے، مظلوم عورت کی بجائے جدوجہد کرنے والی، تعلیم عام کرنے والی، سوات کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے والی عورت کی داستان ظاہر ہوتی ہے۔
عائشہ سید نے نہ صرف داخلہ مہم کے ذریعے تعلیمی اداروں میں طلبہ وطالبات کے داخلے اور بند تعلیمی اداروں کو فعال کرایا بلکہ خواتین کے لئے ووکیشنل ٹرینگ سینٹرز قائم کرنے کے لئے بھی جد وجہد کی انہوں نے ان سینٹرز کے ذریعے خواتین کو فنی تربیت دینے کے لئے اقدامات کئے، ان کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے تاکہ حالات کی ستم ظریفی سے بچتے ہوئے خواتین اپناروزگار چلا سکیں اور محتاج نہ ہوں۔ عائشہ سید حکومت کو حکومت کے رویہ پر شکوے اور شکایات ہیں، کیوں کہ سرکاری سطح پر سوات میں تعلیم کے فروغ کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی خواتین کو سہولیات دینے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ سوات میں خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو ملک کے دیگر حصوں میں بھیجنے کے لئے حکومت اگر اقدامات کرے تو سوات کی خواتین معاشی اور معاشرتی طور پر خود کفیل ہو سکتی ہیں۔
سوات کی اسی بیٹی نے سوات کے انفراسٹریکچر کی بہتری کے لئے سعودی حکومت سے تین ارب منظور کرائے جو کہ سوات میں سیاحت کے فروغ کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوں گے۔سوات کی اس عظیم بیٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہے نہ ہی مضمون کا دامن انہیں سمیٹ سکتا ہے۔بہرحال عائشہ سید تمام ممبران قومی اور صوبائی اسمبلیوں ، وزرا اور بیورو کریٹس کے لئے ایک مثال ہیں۔ جنہوں نے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہوکرتعلیم ، صحت، انفراسٹریکچر کی بہتری کے لئے اقدامات کئے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کیں۔کیا ہی اچھا ہو اگر ہمارے تمام سیاست اپنی تجوریاں بھرنے کی بجائے عائشہ سید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی ترقی خوشحالی اور بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔
عائشہ سید نے اپنے کردار محنت اور عزم صمیم سے یہ ثابت کیا کہ عورت کمزور نہیں ، بلکہ طاقت ور ہے بلکہ اگر وہ اپنی طاقت کو مثبت سرگرمیوں کے فروغ اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے صرف کرنا شروع کردے تو لاکھ راستے میں روڑے اٹکائے جائیں، آندھیاں چلیں یا طوفان آئیں وہ اپنی منزل کو پالیتی ہے۔بس اسے منزل کے حصول کا طریقہ آنا چاہیے، کامیابی خود ہی آپ کی قدم بوسی کو حاضر ہو جاتی ہے، مایوسی اور اپنی منزل کا تعین نہ کرنا انسان کو دنیا کی بھیڑ میں گم کر دیتا ہے اور انسان راہوں میں ہی کھو کر رہ جاتا ہے، دنیا کی بھیڑ اس کے قدموں کے نشان تک مٹا دیتی ہے، جب نشان مٹ جائیں تو واپسی کی منزلیں بھی طویل ہو جاتی ہیں۔ایوان اقتدار کے باسیوں کو اپنے محلات کے غموں میں ہلکان ہونے کی بجائے جھونپڑیو ں کے مکینوں کی خبر گیری کرنی ہوگی تبھی جاکر یہ ملک ، یہ دھرتی اور یہ دنیا حسین بن سکے گی۔ عائشہ سید جہاں سوات کی خواتین کے لئے امید کا پیغام ہے وہیں قومی اور صوبائی سیاسی قائدین کے لئے بھی جد و جہد کا استعارہ ہے۔ سوات کی یہ عظیم بیٹی اس ملک کی پہچان ہے اس بیٹی کو اہل پاکستان کا سلام ہے۔
تحریر : سید امجد حسین بخاری