حیدرآباد (ڈاکٹر راغب دیشمکھ سے) حال ہی میں ریاست آندھراپردیش، ضلع چتور، شہر مدنپلی میں آستانۂ حضرت قادر شاہ اولیاءؒ میں ۱ک آل انڈیا غیر طرحی نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ عرس کی تقاریب کے موقع پر نعتیہ مشاعروں کا اہتمام جناب سید عبدالعظیم صاحب ہی نے شروع کیا تھا۔ اس حسین موقع پر ملک بھر سے شعراءِ کرام اور آندھرا پردیش کے ادبا ء بھی تشریف آور تھے۔ اس جلسے کی صدارت جناب پروفیسر مظفر شہ میری صدر شعبہ اردو، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد نے فرمائی، مہمانِ خصوصی جناب امتیاز احمد، کمیشنر برائے اطلاعات، حکومت آندھراپردیش رہے۔ خانقاہ کے صدر جناب مکاندار سید ہاشم صاحب کی نگرانی میں یہ تقاریب بخوبی عمل میں آئے۔
اس تقریب کے موقع پر سید عبدالعظیم صاحب کے دو تصانیف، ضلع چتور کی اسلامی تاریخ ، جس کی تحقیق اور ترتیب جناب احمد نثارؔ صاحب نے کی ہے اور اسرارِ عظیم جو کہ عظیم صاحب کی سوانح اور مجموعہ کلام ہے، کا اجراء عمل میں آیا۔
رسمِ اجراء : ضلع چتور کی اسلامی تاریخ، بدست جناب امتیاز احمد، کمیشنر برائے اطلاعات، حکومت آندھرا پردیش، اسرارِ عظیم، بدست جناب پروفیسر مظفر شہ میری، صدر شعبہ اردو، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد، عمل میں آئی۔
اس موقع پر کتابوں کے مصنف جناب سید عبدالعظیم صاحب نے کہا کہ آپ کی ان تصانیف اور تالیفات کا اصل مقصد، قدیم ورثہ کی تاریخ کو یاد دلانا اور دہرانا، اور جدید نسل کو اس ورثہ سے آشنا اور ہم آہنگ کرنا ہے۔ ساتھ ساتھ، یہ احساس اجاگر کرنا کہ ادبی ثقافتی ورثہ کو آگے تک لے جانے کی ذمہ داری جدید نسل کی ہے۔ جدید نسل سوگئی تو سارا ورثہ ختم ہوجائے گا۔اسے تاریخ کی کتاب ہی نہیں بلکہ تاریخی کتاب بھی تصورکرنا ضروری ہے، کیوں کہ ضلع چتور کی اسلامی تاریخ پر لکھی گئی یہ پہلی کتاب ہے۔ ضلع چتور کا علاقہ صرف تین یا چار سو سال کی اسلامی تاریخ نہیں رکھتا، بلکہ صحابۂ کرام کے دَور سے اس علاقہ میں مسلمانوں کی آمدو رفت ہے۔ 627سنہ عیسوی ، کیرلا میں حضرت مالک بن دینارؓ تو اُسی دور میں شہر چینئی کے کووالم میں حضرت تمیم انصاریؓ کے دینی خدمات کی تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ دینِ اسلام جنوبی ہندوستان میں 1400سال سے موجود ہے۔ اسی بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش اس کتاب میں کی گئی ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ آئندہ اس کتاب کی ترتیب بڑے پیمانے پر ہونے والی ہے ۔ عوام سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ اگر ان کے پاس ضلع چتور کی تاریخ کے حوالہ سے کوئی مواد، اطلاعات، یا نوادر کتابیں یا تصاویر موجود ہوں تو ضرور انہیں فراہم کریں تاکہ آئندہ طباعت میں ان تمام چیزوں کا اندراج ہوسکے۔Syed Abdul Azeem books Ijraجناب امتیاز احمد صاحب، کمیشنر برائے اطلاعات، حکومت آندھرا پردیش نے کہاتاریخ تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ضلع چتور کی اسلامی تاریخ رقم کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ جدید نسل اس تاریخ کو محفوظ کریں اور آئندہ نسلوں تک پہنچائیں تاکہ انہیں بھی پتہ چلے کہ ان کے آباء و اجداد، حسب و نسب کے سلسلے کیا ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ تاریخ کے پنوں کو محفوظ کریں بلکہ یہ بھی سیکھیں کہ نایاب ورثہ کو پھر سے مروج کیسے کیا جائے۔ سید عبدالعظیم صاحب نے وہ کام کیا ہے جس کاکسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ موصوف نے اس تصنیف سے افکار کو جلا بخشی ہے۔
جناب پروفیسر مظفر شہ میری، صدر شعبہ اردو، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، حیدرآبادنے آپ نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاوقت کی تیز آندھیاں، مسلمانوں اور اردو کی تاریخ کے اوراق کو اُڑالے جانے کا موسم ہے۔ جتنا ہوسکے اتنی حفاظت، اپنی تاریخ اور تمدن کی کرنی چاہئے۔ وہی قوم ترقی یافتہ کہلاتی ہے جو کتابیں پڑھتی ہے، لکھتی ہے اور لکھنے والوں کی حوصلہ افضائی کرتی ہے۔ سید عبدالعظیم صاحب کا یہ کارنامۂ عظیم، ضلع چتور کے اردو احباب اور مسلمانوں کے لئے ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ اس تحفہ کی تحریم کیجئے اور اس کی اور توسیع کرنے میں اپنا تعاون کیجئے۔ تاکہ اردو ادب کا سرمایہ رائگاں نہ جانے پائے۔
ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی، شعبہ فارسی و اردو، آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی نے کہااردو ادیبوں کا یہی سرمایہ ہے کہ وہ سماجیات کے کسی بھی عنوان پہ بخوبی لکھ سکتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ ہے سماج پر ان کی گہری نظر۔ محترم سید عبدالعظیم صاحب کی عقابی نظر اس تاریخ نامہ کی اصل بنیاد ہے۔ مورخین خواہ وہ ابن بطوطہ سے لے کر ابوالفضل تک کیوں نہ ہوں، ان کی یہی عقابی نظر آج کے دور کے لئے قطب نما و مشعل راہ ہے۔ سید عبدالعظیم صاحب کی اس تصنیف و تالیف کو میں عظیم نامہ یا عظیم کارنامہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا۔
منظوم تاثرات:
ضلع چتور کی ہے یہ تاریخ
سید عبدالعظیم کا اعجاز
کارنامے ہیں ان کے ورد زباں
اپنی خدمات سے ہیں وہ ممتاز
منہمک ہیں فروغ اردو میں
روح پرور ہے ان کا یہ انداز
اپنی تاریخ سے ہے ان کو لگاؤ
ان کا یہ کام اس کا ہے غماز
ہیں وہ شعر و ادب کے گرویدہ
ان کی مقبولیت کا ہے یہ راز
اپنے اسلاف سے ہے عشق انہیں
ان کی یہ کاوشیں ہیں مایۂ ناز
نسلِ آئندہ کے لئے برقی ؔ
درِ دانش وہ کر رہے ہیں باز
ڈاکٹر مولانا محی الدین، میرینا ملٹی میڈیا اینڈ ٹیکنولوجیز، مدنپلی نے کہامحترم المقام جناب سید عبدالعظیم صاحب تاریخ کے قدردانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تاریخ کی اہمیت کو بخوبی پہچانا اور اپنی جدو جہد سے تاریخ کے ضروری دساویزات اور واقعات کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کیا۔موصوف نے تاریخ کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی ہے۔ خصوصاً مسلم حکمران اور مذہبی شخصیات کی زندگی کا احاطہ کیا ہے۔جناب سید عبدالعظیم صاحب نے ضلع چتور کے مسلمانوں کی تاریخ کو یکجا کرنے کی گراں قدر خدمات انجام دی ہے، یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ میں اس ناقابلِ فراموش کاوش کو تہہ دل سے مبارک بادپیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اردو طبقہ اس سے فیض حاصل کرے۔ آمین ثم آمین۔
نایب شرافت علی خان، اتالیق اردو، مدنپلی نے فرمایااردو ادب میں کافی کتابیں لکھی گئیں۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالے لکھے گئے، کئی اصنافِ سخن پر کام ہوا، شعری مجموعے عام ہیں،شخصیات پر بھی کافی کتابیں لکھی گئیں۔ مطالعہ، تنقیدی مطالعہ، پس منظر، تحقیق، تبصرے، یہ تمام ادبی کارروائیاں چلے آرہے ہیں۔ لیکن ایک مختلف اور منفرد نوعیت کی کتاب آپ کے سامنے ہے، جو تاریخ پر مبنی ہے۔ وہ بھی ایسے دور میں منظرِ عام پر آئی ہے جب کہ عوام اپنی ہی تاریخ سے بے بحرہ اور بے حس ہوگئے ہوں۔ یہ قدم نہایت ہی عمدہ اور قابلِ تعریفِ تحسین کا مستحق ہے۔
موصوف کا اسلوبِ بیاں نہایت ہی سلیس، آسان اور دکنی تہذیب و تمدن پر مبنی ہے جو عوام الناس کا مطلوب اسلوب ہے۔ جبکہ معیار کے نام پر زبان کو دقیق و مکلف بنا دیا گیا تھا، نتیجتاً کتابیں بنتی گئیں مگر بالائے طاق کی نذر ہوگئیں۔ جنہیں عوام کم اور دیمک زیادہ مس کررہی ہے۔محترم سید عبدالعظیم صاحب نے اردو حلقہ کا نبض ٹھیک پہچانا اور آسان اردو کا استعمال کیا، جو ہر خاص و عام کے لئے ضروری بھی ہے اور سود مند بھی۔ حضرتِ والا سے ادباً خواستگار ہوں کہ موصوف اپنی تخلیقات کو جاری و ساری رکھیں تاکہ آنے والی نسل موصوف کے اصنافِ سخن سے مزید استفادہ حاصل کر سکے۔ موصوف کا یہ شعر حال و ماضی کا ترجمان ہے، ملاحظہ ہوں؛ ہر صبح حادثے ہیں تو ہر شام مسئلے۔۔۔صدیا گذر گئی ہیں زمانہ سفر میں ہے دورانِ گردشِ ایام میں تاریخ بھی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ بھی ایسی تاریخ جس کا علم ہر طبقہ کے لئے ضروری ہے۔ ورنہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ خود سے سوال کریں اور جواب دینے کے لئے کچھ نہ ہو۔ موصوف نے تاریخ کے ان اوراق پر روشنی ڈالی ہے جس میں ہمیں اپنا عکس نظر آتا ہے۔
سید وارث احمد، اتالیق اردو، مدنپلی، مصنف و مترجم اردو درسی کتب، یس سی ای آر ٹی، حکومت آندھرا پردیش نے کہااردو زبان کا مطلب صرف شعر و شاعری نہیں، دیگر علوم بھی اس میں شامل ہیں۔ اردو ادب میں تاریخ بھی ایک اہم شعبہ ہے جس میں کئی ماہر حضرات نے تصانیف و تالیفات رقم کئے اور مرتب بھی، اور زبانِ اردو کے گنجینے کو مالا مال ہی نہیں بلکہ سرفراز بھی کیا، جو کہ اردو زبان کا سرمایہ ہی نہیں بلکہ ادبی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔
کسی علاقے کے عالم اور مدبر، اس علاقے کی تاریخ کو اگر مرتب کرتے ہیں تو وہ تصنیف اس علاقے کی عوام کا ورثہ بن جاتی ہے۔ ورثہ اور ثقافت یہ دونوں ایسے گنجینے ہیں، جن کو کھوجنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسا کارنامہ انجام دینا گویا کہ ماضی میں گذرے وقت کی چادر لپیٹ کر اوراق میں رقم کرنا ہے۔ تاریخ لکھنے یا مرتب کرنے کے آداب کو نبھانا بھی ایک مایہ ناز کمال ہے۔ ان تمام اوصاف کو اپنے اندر سمونے والا ہی تاریخ مرتب کرسکتا ہے۔ ساتھ ساتھ اپنے اسلاف سے بے لوث محبت رکھنا بھی اس ترتیب کو جائے کمال تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتاہے۔ ان تمام اوصاف، اصناف، آدابِ تریتبِ تاریخ کو مدنظر رکھ کر جناب سید عبدالعظیم صاحب نے ضلع چتور کی اسلامی تاریخ کو مرتب کیا ہے۔ یہ تصنیف اُن تمام حُسنِ نظر والوں کے لئے گوہرِ نایاب ہے، جو تاریخ کے جوہر کو جانتے اور پہنچانتے ہیں، اور اپنے اسلاف کے ہنر کو مانتے ہیں۔
میرے خیال سے ضلع چتور کی اسلامی تاریخ لکھنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ اور امید کرتا ہوں کہ اس تالیف کو مزید توسیع کیا جائے گا۔ اور آئندہ طباعت میں مزید تفصیلات مہ تصاویر یہ تالیف دوبارہ منظرِ عام پر آئے گی۔ ضلع چتور کے تمام اردو احباب سے امید کرتا ہوں کہ ایسی تالیفات کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہوئے مورخین حضرات کی حوصلہ افضائی کی جائے۔