تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
آمنہ کے لعل نے سن ِدنیا کے پچیسویںبرس میں قدم رکھا۔شفیق تایا سیدنا ابو طالب کی دلی تمنا تھی کہ میرے عزیز بھتیجے کا گھر آباد ہو جائے۔جہاں دیدہ سردار ِبطحا کی ایمانی نگاہیں ،سیدہ ،طاہرہ، مَلِیْکَةُالْعَرَبْ کے علاوہ کسی کو پسند نہ فرماتیں۔ سیدہ طاہرہ حیات فانی کے اٹھائیسویںبرس میںتھیں۔ شام کے سفر تجارت سے واپسی پر دوسرے دن سیدالمرسلین ۖ، قصر خدیجہ تشریف لے گئے۔باتوں باتوں میںمخدومہء عرب نے فرمایا؛” میرے سردار!اگر آپ کی مرضی ہو تو میںنے آپ کے لیے ایک اچھی سی عورت پسند اور منتخب کی ہے ۔وہ مکہ ہی کی ہے،آپ کی قوم سے ہے،بڑی مالدار ہے، صاحب ِحسن و جمال ہے اور کمالات کی بلندیوں پر فائز ہے۔بڑی عفیفہ اور بے حد سخی ہے۔حیا دار اور طاہرہ ہے۔نسب میں وہ آپ سے بہت زیادہ قریب ہے۔اس کی وجہ سے سارے سلاطین اور رئوسائے عرب آپ سے حسد کرنے لگیں گے”۔ سید المرسلین ۖنے وضاحت طلب فرمائی تو بے انتہا خلوص و محبت سے فرمایا،” ھِیَ مَمْلُوْکَتِکَ خُدَیْجَةْ ””آپ کی وہ کنیز یہ خدیجہ ہے۔بخدا آپ میرے حبیب ہیں۔میں آپ کے احکام کی کبھی مخالفت نہیں کروں گی”۔اس کے بعد آپ نے شان رسالت میں نعت گوئی کی ؛ فَاحْکُمْ بمَاشِئْتَ وَمَاتَرْضیٰ فَالْقَلْبُ مٰایُرْضِیْہِ اِلَّارضٰاکَ پس حکم دیجئے آپ جو چاہتے ہیں ۔میرا دل سوائے آپ کی رضا کے کہیں اور راضی نہیں ہو گا
یہ سننے کے بعد پیغمبر اعظم ۖنے سر جھکا لیا دریائے سکوت میں غوطہ زن ہوگئے ۔آپ کی منور پیشانی پرشرم وحیا کے نورانی قطرے ظاہر ہوئے ۔آپ نے گہرے سکوت کے بعد فرمایا،”میرے چچاکی بیٹی!تم مالدار اور صاحب ثروت و جائیداد عورت ہواورمیرے پاس تو جو تم نے دیا ہے اس کے علاوہ مال دنیا سے کچھ بھی نہیںہے۔مجھے تو میری ہی طرح کی عورت چاہئے جس کا حال میرے ہی جیسا اور جس کے پاس مال بھی میرے ہی جتنا ہواور آپ تو ایک شہزادی ہیں۔بہتر ہے کہ آپ کا شوہر کوئی بادشاہ اور صاحب ِتخت و تاج ہو نہ کہ مجھ جیسا تنگدست”۔مخدومہ پاک نے فرمایا،”اگر آپ کے پاس مال کم ہے تو میرے پاس بہت زیادہ ہے اور جب میں آپ کی ہو چکی تو میرا سب کچھ آپ کا ہے ۔میں،میرا مال، میرے نوکر چاکراور جو کچھ میرے پاس آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب کچھ آپ کا ہے”۔
آپ فرماتی ہیں ؛
دَنیٰ فَرَمیٰ مِنْ قَوْس حٰاجبہِ سَھْماً
فَصٰادِفَنِیْ حَتّٰی قُتِلْتُ بہِ ظُلْماً
وَ اَسْفَرَ عَنْ وَجْہٍ وَ اَسْبَلَ شَعْرُہُ
فَبٰاتَ یُبَاھِی الْبَدْرُفِیْ لَیْلَةٍٍظُلْماً
قریب ہوئے اور اپنی نگاہوں کی کمان سے ایک تیر پھینکاجس کے نشانے کی شدت نے مجھے گھائل کردیا چہرئہ انوربے نقاب ہوا !! زلفیں شانوں پہ بکھیریں توشب ِظلمت میں بدرِکامل اترانے لگامشاورت اعمام سید المرسلین ۖوہاں سے اٹھے اور شفیق چچا سیدنا ابو طالب کے پاس آئے اور پوری سرگزشت بیان کی ۔ابو لہب نے شدید مخالفت کی اور سیدنا ابو طالب کو رائے دی کہ آپ ایسی غلطی ہر گز نہ کیجئے گا ،محمد کسی طرح خدیجہ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ابو لہب کی اس رائے پر جناب عباسکو بے حد غصہ آیااور ابو لہب کو ذلیل و رزیل کہااور رائے دی کہ خدیجہ کا عندیہ معلوم کیا جائے۔سیدنا ابو طالب نے اپنی ہمشیر ہ معظمہ سیدہ صفیہ کو روانہ فرمایا۔سیدہ خدیجہ نے حضرت صفیہ کی بڑی آئو بھگت اور عزت کی ۔انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے دروازے پر تشریف لائیں ۔اسی دوران آپ کا پائوں لباس کے ساتھ اٹکا اور وہ لرز اٹھیں ۔قریب تھا کہ گر جاتیں لیکن سنبھل گئیں ۔بے ساختہ فرمایا؛” لاَاَفْلَحَ مَنْ عَادَاکَ یَامُحَمَّدْ” ،”یا محمد ۖ!جس کسی نے آپ سے عداوت رکھی وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے گا”۔سیدہ صفیہ نے یہ بات سنی تو اسے نیک فال تصور کرتے وصل ِخیر کی خوشخبری قرار دیا۔سیدہ خدیجہ آپ کو انتہائی ادب واحترام سے قصر عالیہ میں لے کر آئیں خاطر مدارت کے بعد گلے لگا کر فرمایا؛”یَاصَفِیَّة!باللّٰہِ عَلَیْکِ اِلّااَعِنْتِیْنِیْ عَلیٰ وصَالِ مُحَمَّدْ” ،”اے صفیہ !خدا کے لیے !آپ پر لازم ہے کہ وصال ِمحمدۖ میں میری مدد فرمائیں ”۔سیدہ صفیہ نے جواب دیا،”میں یہ کام ضرور کروں گی ”۔
جناب صفیہ جس مقصد کے لیے گئی تھیں کامیاب رہیں۔سیدہ خدیجہ نے اقرار فرمایا کہ میں نے آپ کے بھتیجے کو اپنے لیے منتخب کر لیا ہے۔جب حضرت صفیہ رخصت ہو کر چلیں تو ان کو شہزادیِ عرب نے ایک خلعت فاخرہ پیش کیا۔جناب صفیہ خوش خوش آئیںاور سب کو خوشخبری سنائی ۔اس کے بعد سیدنا ابو طالب ،ہاشمی دانشمندوں اور نوجوانوں کے ہمراہ سیدہ خدیجہ کے مکان پر آئے اور رشتہ طے ہو گیا۔ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَان بے پناہ خوشیاں اور لازوال مسرتیں لیے دس ربیع الاول کی صبح نورطلوع ہوئی ۔خاتم الانبیا کو جان سے بڑھ کر چاہنے والے چچا ابو طالب نے اپنے دست مبارک سے دولہا بنایا۔نوشہ اسلام کوخلیل خدا کا پیرہن پہنایا گیا۔دوش اطہرپر حضرت الیاس کی ردا ڈالی گئی ۔سر اقدس پر سیاہ ہاشمی عمامہ سجایا گیا۔سیدناعبدالمطلب کی نعلین پائے اقدس کی زینت بنیں۔ عصائے شعیب دست مبارک میں لیا۔سبز عقیق کی انگشتری ، انگشت نبوی میں سجائی گئی۔ سرداران ِقریش،بزرگان ِمکہ،دانشمندان ِبطحا،سادات اور نوجوانان ِبنی ہاشم برہنہ شمشیریں علم کیے باوقار انداز میں سرتاج انبیا کو اپنے حلقہ میں لیے ،شہزادی عرب کے محل کی جانب روانہ ہوئے۔ بارات ِنبوت پر رحمت ِالٰہی سایہ فگن تھی۔کہکشائیں نثار ہو رہی تھیں۔بہاریں پھول برسا رہی تھیں۔ارواح انبیا مسرور و شادماں تھیں۔ملائک فرط مسرت سے جھوم رہے تھے۔ ہزارہا مسرتوں اور دعائوں کے سائے میں سیدالمرسلین ۖکے باراتی آہستہ آہستہ،سکون و اطمینان اور وقار و عظمت کے ساتھ منزل سے قریب تر ہو رہے تھے۔
ادھر شہزادی عرب نے بے حد و حساب مومی شمعوںاور فانوسوں،زرو جواہراور مختلف رنگ کے پردوں اور فرشوں سے اپنے محل کو جنت ِارضی میں تبدیل کر دیا تھا۔کئی قسم کاچراغاں کیا۔ غلاموں اور کنیزوں کو مختلف اللون حریر و دیبا کے کپڑوں سے آراستہ کیا۔ہر ایک کو قیمتی پوشاکوں اور خلعتوں کے پہننے کا حکم دیا۔کنیزوں کے سر کے بالوں کو لوء لوء و مرجان سے آراستہ کیا ۔سونے کے ہار جن میں نگینے اور جواہر لگے تھے ان کو پہنائے گئے ۔ام المومنین کا الٰہی و قرآنی خطاب حاصل کرنے والی دلہن بہترین منقش لباس میں ملبوس تھیں۔سر اقدس پرسونے کا تاج تھا جس میں مختلف النوع موتی اور جواہر جڑے تھے اور آپ بے پناہ زیورات سے آراستہ و پیراستہ تھیں۔پائے اقدس میںانتہائی قیمتی سونے کے خلخال تھے جس میں جا بجا بے حد و بے انتہا فیروزے اور یاقوت جڑے ہوئے تھے۔آپ نے طائف کے معروف ہنر مندوں کو دعوت دی کہ وہ آکر جشن کی رونقیں دوبالا کریں۔
عنبر وعطر کے چھڑکائو کے ساتھ راستوں کو پھولوں سے سجایاگیا۔ بارات جب جناب خدیجہ کے دروازے پرپہنچی تو آپ کا آستانہ بقعہء نور بن کر آنے والے مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کر رہا تھا۔معززمہمانوں کی ضیافت کے لیے مختلف قسم کے کھانوں ،میوہ جات اور مشروبات کا انتظام کیا گیا تھا۔بے شمار زرنگار کرسیاںبچھائی گئی تھیں۔معزز اور باوقار سرداروں کے لیے چند کرسیاں قدرے بلندی پر رکھی گئی تھیںاور ایک بہت ہی قیمتی کرسی سب سے بلندی پر رکھی گئی تھی۔جب کاروان ِسادات ِبنی ہاشم اور معززین ِشہر شہزادی ِعرب کے جگمگاتے محل کے سامنے پہنچا تو اس وقت جناب عباس و جناب حمزہ شمشیریں علم کیے پیغمبر اعظم ۖکے دائیںبائیںچل رہے تھے۔ بارات پہنچی تو ابوجہل سب سے بلند کرسی کی طرف بڑھا اور وہاں بیٹھنا چاہا۔سیدہ خدیجہ کے غلام میسرہ نے روکا اور وہاں نہ بیٹھنے دیا۔زراہِ تکبر وہ بدبخت ،سرور ِکونین ۖ کی بھی تعظیم و تکریم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بات بڑھ گئی اور سیدنا حمزہ نے اٹھا کر کرسی سے زمین پر پٹخنا چاہا۔دیگر حضرات کے آنے پر معاملہ رک گیامگر تھوڑی سی ہاتھا پائی کے دوران ہی میں ابوجہل زخمی ہو چکا تھا۔
مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا۔پرتکلف میو ہ جات اور مشروبات سے ان کی تواضح کی گئی ۔تھوڑی ہی دیر بعد پرسکون مجمع میں ایک آواز بلند ہوئی؛ ”اللہ کی قسم !آسمان نے سایہ نہیںکیا اور زمین نے بوجھ نہیںاٹھایاکسی کا جو محمد سے افضل ہو ۔اس لیے میںنے اپنی بچی کا شوہر قرار دینے اور ہمسر بنانے کے لیے ان ہی کو پسند کیا ہے،پس تم لوگ اس پر گواہ رہو”۔یہ آواز سیدہ خدیجہ کے چچا عمروْبن اسد کی تھی۔ا س کے بعد سردارِ مکہ سیدنا ابوطالب خطبہء عقد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا؛اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلْنَا مِنْ ذُرِّےَّةِ اِبْرَاہِیْمَ وَذَرْعِ اِسْمَاعِیْلَ وَضِئضِئی مَعْدَوَ عُنْصُرِ مَضَرِِوَجَعَلْنَاحَضَنَةَبَیْتِہِ وَسَوَّاسَ حَرْمِہِ وَجَعَل لَنَا بَیْتََا مَحْجُئوجا َوَحَرَمََا اٰمِنَا وَجَعَلَنَا الْحُکَّامَ عَلَی النّاسِ۔ ثُمَّ اِنَّ اِبْنَ اَخِیْ ھٰذَامُحَمَّدُ اِبْنُ عَبْدِ اللّٰہ ۖلَا ےُئوْ زَنُ بِرَجُلِِ اِلَّارَجَحَ بَہِ وَاِنْ کَانَ فِیْ الْمَالِ قَلَّا وَاِنَّ الْمَالَ ظِلّ ُُُ زَائِلُُ وَاَمْرَ حَائِلُ وَمُحَمَّدُُ مَنْ قَدْ عَرَفْتُمْ قَرَابَتُہُ وَ قَدْ خَطَبَ خَدِیْجَةَ بِنْتَ خُوَیْلَدِِ۔وَ قَدْ بَذَلَ لَھَا مِنْ الصِّدَاقِ مَاٰاَجَلَہُ مِنْ مَالِیْ اِِثْنَا عَشَرَةَ اَوْقِےَةَذَھَبَا۔ وَنَشَاء َوَ ھُوَوَاللّٰہِ بَعْدَ ھٰذَالَہُ نَبَائُُ عَظِیْمُ وَخَطَرُُجَلِیْلُُ جَسِیْمْ۔ ”سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد سے، حضرت اسماعیل کی کھیتی سے ،معد کی نسل سے اور مضر کی اصل سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقررفرمایا۔حمد کے بعد ،میرے برادرزادے جن کا اسم گرامی محمدۖ ابن عبداللہ ہے،ان کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو ان کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔
اگر قلت ِمال ہے تو کیا ہوا،مال تو ایک ڈھلتی چھائوں ہے ا ور بدل جانے والی چیز ہے اور محمد ۖ(جن کی قرابت کو تم جانتے ہو) نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے۔اور اللہ کی قسم !!مستقبل میں ان کی شان بہت بلند ہو گی،ان کی قدر ومنزلت بہت جلیل ہو گی”۔پھرفرمایا؛” اِنَّ اِبْنَ اَخِیْنَا خَاطِبکَریْمَتَکُمْ الْمَوْصُوْفَةُ بالْسَّخَائِ وَالْعِفَّةِوَھِیَ فَتَاتُکُمُ الْمَعْرُوْفَةُالْمَذْکُوْرَةُ فَضْلُھَاالْشَّامِخُ خَطْبِھَا ” اے دختر نیک،سخی وباعفت !!ہمارے برادرزادے آپ کے خواستگارہیں۔ان کے خواستگار ہیں جو بلند مقام خاتون ہیں جو تمہارے درمیان مشہور ومعروف ہیں ، جن کی سخاوت اور فضل لوگو ں کی زبان پر ہے اور جن کی شان نمایاں اور عظیم ہے ۔ جمال الدین محدث شیرازی،شاہ ِسمرقندی اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا ابو طالب نے مہرمئوجل میں بیس اونٹ،پانچ سو درہم،چار سو دیناراور چار سو مثقال سونا پیش کیا۔اس کے بعد عالم کتب سماوی ورقہ بن نوفل نے سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی طرف سے خطبہ عقد پڑھااور فضائل و کمالات ِبنی ہاشم کا اعتراف فرما یا اور عقد مبارک کی تقریب انجام پذیر ہوئی۔اس مبارک موقع پر جنتیںسجائی گئیں، حور و غلماں آراستہ ہوئے ،بہشتی دروازے کھول دیے گئے ،شجرہء طوبیٰ سے زروجواہر لٹائے گئے۔ملائک سجدہ ریز تھے۔زمین سے لے کر آسمان تک کی چیزوں کو زینت دی گئی اورخصوصی حکم الٰہی سے جبرائیل امین نے خانہ کعبہ پر لوائے حمد لہرایا۔پھر فضا میں آواز گونجی؛ ” اِنَّ اللّٰہَ قَدْزَوْج اَلْطَّاہِرُبالْطَّاہِرَةْ وَالْصَّادِقُ بالْصَّادِقَةْ ”، اللہ نے طاہر کو طاہرہ اور صادق کو صادقہ سے بیاہ دیا۔اس بزم رنگ و نور کے لیے منجانب اللہ فرحت بخش انتظام یہ کیا گیا تھا کہ پروردگار ِعالم نے جبرئیل امیں کو حکم دیا کہ تمام حاضرین ِمحفل پر خوشبوئوں کی بارش کی جائے ۔جبرئیل نے حکم بجالاتے مشک وعنبر کو پہاڑوں اور مکہ کے گھروں اور راستوں پربرسادیاجس سے مکہ کی پوری فضا مہک گئی اور ہر زباں سے نکلا، ” ھٰذَا مِنْ طَیّبِ خُدَیْجَةُوَمُحَمَّدٍ”،”یہ خدیجہ ومحمد کے عقد کی خوشبو ہے ‘۔
محفل عقد کے اختتام پر تمام دوسرے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور مرسل اعظم ۖاپنے چاہنے والے چچائوں کے ہمراہ خانہء ابوطالب میں تشریف لائے۔اس پرمسرت موقع پر سب مسرور تھے مگر سیدنا ابو طالب سب سے بڑھ کر مسرور و شادمان تھے۔آپ کے لب اقدس سے بار بار شکر الٰہی ادا ہو رہا تھا ۔آپ نے کئی مرتبہ آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنَّاالْکُرُوْبَ وَدَفَعَ عَنَّا الْھُمُوْم۔آپ بے پناہ مسرور وشاداں تھے۔آپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے اور آپ بار بار شکر خدا ادا فرماتے تھے۔آپ کی خوشی کے ساتھ سیدنا حمزہ بھی خوش تھے اور انہوں نے حضور ۖپربے حساب درہم و دینار نچھاور کیے۔
ولیمہء خیر الوریٰ
شادی کی پرمسرت تقریب سے فارغ ہونے کے بعد سیدنا ابو طالب نے دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایااور اس میں مکہ کے عظیم سردار نے اپنی سروری کے شایان شان انتظامات فرمائے اور پورے مکہ کو مدعو کیا۔خود سرتاجِ خدیجہ بنفس نفیس مہمانوں کا خیر مقدم کر رہے تھے۔دعوت ولیمہ کے جملہ انتظامات صغیرہ و کبیرہ کی نگرانی فرماتے رہے۔آپ کے ساتھ تمام چچا اور ہاشمی و مطلبی نوجوان دعوت ِولیمہ کے انتظامات میں سرگرم رہے۔یہ مبارک دعوت تین دن تک روز و شب جاری رہی اور اس مقدس رسم کا آغاز ہواجو آج تک اہل اسلام میں رائج ہے۔سیدنا محمد مصطفٰی ۖاور سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے مبارک عقد کے موقع پر سیدنا ابو طالب نے دعوت ِولیمہ کا آغاز کیا اور دستر خوان بچھایا۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے دعوتوں کا سلسلہ شروع کیا اور سرداران عرب اور بادشاہان وقت کو دیدار مصطفٰیۖ کے لیے مدعو کیا ۔آپ کی دعوتوں کے منتظم اعلیٰ ،آپ کے چچا جناب عمروْبن اسد تھے۔آپ کے حکم پر لنگر خانے جاری کیے گئے جس میں نہ صرف مکہ بلکہ بیرون مکہ کے تمام غربا،فقرا،مساکین،محتاج و گداگروں کو مالی ،معاشی اور ہر ممکن امداد کے علاوہ،لباس و خوراک کے تحائف وسیع پیمانے پر عنایت کیے گئے یہاں تک کہ مکہ اور اطراف و جوانب میں کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جو مطمئن نہ ہو گیا ہو۔شہزادیِ اسلام نے دل کھول کر بیوائوں،یتیموںاور غریبوں کے گھروں کو ضروریات زندگی کی اشیا سے بھر دیا۔یہ سلسلہ تحائف اور اس پرمسرت موقع کی تقریبات چھ ماہ جاری رہیں۔
قصر خدیجہ خانہء نبوت
محافل عروس کے بعد سیدنا محمد ۖنے خانہء ابوطالب میں قیام کا ارادہ ظاہر فرمایا تو ام المومنین نے کمال موَدَّت وعقیدت سے عرض کی ؛” اِلیٰ بَیْتِکَ فَبَیْتِیْ بَیْتُکَ وَاَنَا جٰاریَتُکَ”، ”میرے سردار!اپنے گھر تشریف لے چلیںکہ میرا گھر آپ کا گھرہے اور میں تو بس آپ کی کنیز ہوں ”۔
تیرے در کی گداگر ہوں یہ سارا مال و زر تیرا
میں خود تیری یہ گھر تیرا ، یہ در تیرا یہ سر تیرا
تمہارے پائے اقدس پر میری سو جان قرباں ہے
میرے ایمان کے وارث! میرا ایمان قرباں ہے
شادی کے تیسرے دن سیدالمرسلین ۖسیدناابوطالب اور دوسرے اعمام اور نوجوانان بنی ہاشم کے حلقہ میںشہزادیِ عرب اور ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کے قصر نور کی جانب روانہ ہوئے۔وہاں پہنچے تو آپ کے پیارے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ قصیدہ پیش کیا؛
اِبْشِرُوْابالْمَوَاھِبْ
یَاآلَ فَھْر ٍوَغَالِبْ
اے قریش و آل غالب ، تمہیں عنایات کی بشارت ہو۔
اِفْخُرُوْایَاآلَ قَوْمِنَا
بِالْثَّنَائِ وَالْرَّغَائِبْ
اے میری قوم و قبیلہ والو! ثنائے جمیل اور بے حساب عنایات پر فخر کرو۔
شَاع فِیْ الْنَّاس فَضْلُکُمْ
وَعُلیً فِیْ الْمَرَاتِبْ
لوگو! تمہارا فضل و شرف اور بلندیِ مراتب زمانے میں معروف ہیں۔
قَدْ فَخَرْتُمْ بِاَحْمَدٍۖ
زَیْنَ کُلّ الْطَّایبْ
تم سب افتخار بن گئے احمد ۖکے دم سے ، جو زینت ہیںہر طیب و طاہر کے لیے۔
فَھُوَ کَالْبَدْرُ نُوْرَہُ
مَشْرقُ غَیْرَغَائِبْ
ان کا نور چودہویں رات کے چاند کی مانند ہے جو ہمیشہ روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔
قَدْ ظَفَرَتْ خُدَیْجَةْ
بجَلِیْل ِالْمَوَاہبْ
اے خدیجہ! آپ کامیاب ہوئیں، بڑی جلیل و عظیم عطائوں کے ساتھ۔
بفَتٰی ھَاشِمَ الَّذِیْ
مَا لَہُ مِنْ مَنَاصِبْ
اس ہاشمی جوانمرد کے ذریعہ جو بڑے بڑے مراتب پر فائز ہے۔
جَمْعَ اللّٰہُ شَمْلَکُمْ
فَھُوَ رَبُّ الْمَطَالِبْ
خدا نے ان کے ذریعہ تمہاری جماعت کو اجتماع کی توفیق عطا کی ،پس وہی تمام مطالب کاپروردگار ہے۔
اَحْمَد سَیّدُ الْوَریٰ
خَیْرَ مَاشَ وَرَاکِبْ
احمدۖ سردارِ خلائق ہیں جو ہر پیادہ و سوار سے بہتر و افضل ہیں۔
فَعَلَیْہِ الْصَّلوٰةُ مَا
سَا رَعِیْسُ برَاکِبْ
ان پر لگاتار درود و سلام ہوتا رہے ، جب تک سواریوں پر سوار چلتے رہتے ہیں۔ْ اس قصیدہ مبارکہ کے دوران مکہ کے درو دیوار سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے سن کر فرمایا؛ اِعْلَمُوْا اَنَّ شَانَ مُحَمَّد ۖعَظِیْم وَفَضْلُہُ عَمِیْم وَجُوْدُہُ جَسِیْم،جان لوکہ محمد ۖ کی شان بہت بلند و برتر ہے اور ان کا فضل ہر کسی کے لیے عام ہے،ان کی سخاوت بڑی عظیم ہے ۔اس کے بعد آپ نے حاضر مستورات پر مال وخوشبو نچھاور کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے چہرئہ اقدس سے ایسا نور ساطع ہو رہا تھا کہ جس سے چراغوں اور شمعوں کی روشنی ماند پڑگئی ۔آپ کے منور چہرہ سے نکلنے والی نوری کرنیں دیکھ کر ہاشمی و مطلبی مستورات کو بے حد تعجب ہوااور انہوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ کا فضل و شرف اور عطیہ الٰہی ہے۔ سیدہ خدیجہ نے اس موقع پر بے انتہا قیمتی لباس فاخرہ زیب فرمایا۔سر انورسے پائے اطہر تک سونے کے زیورات پہنے تھیںجن میں مختلف انواع و اقسام کے رنگ برنگے قیمتی موتی ، یاقوت، فیروزہ و پکھراج وغیرہ جڑے تھے۔سر مبارک پر نہایت قیمتی تاج تھا۔
آپ نے ایک تاج خصوصی طور پر سرور کائنات ۖکے لیے بھی تیار کرایا تھا جو آپ ۖ کی خدمت عالیہ میں پیش کیا گیا جسے آپ نے بخوشی شرف قبولیت عطا فرمایااور سراقدس کی زینت بنایا۔خداوند عالم نے اس مبارک موقع پر جبرئیل امین کو حکم دیا کہ مشک و عنبر اور کافور مکہ کے پہاڑوں پر پھیلا دو جس کے باعث مکہ کے دردیوار،گلی کوچے،جنگلات ، آبادیاںاور گلیاں مہک اٹھیں۔فضا مشک بیزوعنبر ریز ہو گئی۔لوگ ایک دوسرے سے متعجب ہو کر پوچھتے کہ یہ خوشبو کیسی ہے تو بتایا جاتا کہ یہ محمد ۖوخدیجہ کی بدولت ہے۔تاریخ انسانیت کی یہ منفرد ،پہلی اور آخری شادی ہے جس سے پہلے کسی نے ایسی شادی دیکھی نہ اس کے بعد ، جس میں لوازمات دنیا کے ساتھ ساتھ الٰہی توجہات نے چار چاند لگا دیے تھے ۔نہ دنیاوی مال و حشمت اور تمکنت کی کمی تھی نہ الٰہی برکات و عنایات کی۔
تہنیت
اس مبارک موقع پر عبداللہ بن غنم قریشی نے تہنیت نامہ پیش کرتے کہا؛
ھَنِیئاًمَریْئاًیَاخُدَیْجَةَقَدْجَرَتْ
لَکِ الْطَّیْرفِیْمَاکَانَ مِنْکَ باَسْمَدْ
مبارک سلامت اے خدیجہ !!کہ آپ کے ہُمائے سعادت نشاں نے سوئے عرش ِعزت وشرف پرواز فرمائی
تَزَوَّجْتِ مَنْ خَیْرالْبَریَّةَکُلَّھَا
وَمَنْ ذَالَّذِیْ فِیْ الْنَّاس مِثْلَ مُحَمَّدْ
آپ اولین وآخرین میں بہترین شخص سے بیاہی گئیں اور دنیا میں محمد ۖسے کہاں ؟
بہِ بَشَرُالْبرَانِ عِیْسیٰ بْنَ مَرْیَمْ
وَمُوْسیٰ بِنْ عِمْرَان نَیَا قُرْبَ مُوْعَدْ
عیسیٰ وموسیٰ نے جن کی نبوت کی خبر دی اور بہت جلد ان کی بشارت کا اثر ظاہر ہوکے رہے گا
اِقْرَتْ بہِ الْکِتَابَ قَدْماًباَنَّہُ
رَسُوْلمِّنَ الْبَطْحَاھَادٍ وَّمُھْتَدْ
کتب ِسماوی کے قارئین کہہ چکے ہیں کہ وہ رسول ِبطحا ہدایت فرمانے والے ،ہدایت یافتہ ہیں
جہیز
دنیا کی کوئی عورت اتنا جہیز لے کر اپنے شوہر کے گھر نہ آئی جتنا سیدہ خدیجہ لے کر خانہ نبوت میں آئیں۔شہزادیِ عرب کے جہیز کا یہ سارا سامان نہ آپ کے مرحوم والد کی چھوڑی ہوئی دولت تھی نہ بھائیوں کی محبت کا نتیجہ ،بلکہ میمونہ ء کاملہ،فاضلہ و عاقلہ شہزادی نے تجارت کر کے اور اس تجارت کو بین الاقوامی فروغ دے کر خود اپنی عقل ِخداداد، بہترین صلاحیت واستعداداور حسن انتظام سے اتنا عظیم سرمایہ ا کٹھا کیا کہ عرب دنیا میں کوئی رئیس و امیر بھی اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔مَلِیْکَةُالْعَرَبْ کوجب قدرت نے ملکہء اسلام اور کائنا ت کی پہلی ام المومنین بننے کا شرف ِعظیم عطا فرمایاتو آپ نے توقعات کے مطابق اس خطاب و شرف کے ساتھ انصاف فرمایا۔اس کے بھرم اور آبرو میں اپنی نیک سیرتی ، اعلیٰ ظرفی اور بلند اخلاقی کی معراج سے چار چاند لگا دیے۔انہیں اب نہ دولت سے سروکار رہا نہ تجارت کی فکر رہی کیونکہ کائنات کی سب سے عظیم دولت نبی آخرالزمان اور سیدالمرسلین کی صورت میں مل گئی۔آپ ۖرحمت للعالمین ۖ کوپا کرملکہ ء عرب سے ملکہ اسلام اور مادر ِاہل ِایمان ہو گئیں۔
ازدواجی زندگی
سیدہ خدیجہ طاہرہ کے کامیاب ادوار ِحیات میں ایک نئے تابناک اور کامرانیوں سے بھرپور دور کا آغاز ہوا۔آپ جانتی تھیں کہ آپ کے شوہر صرف عظیم انسان ہی نہیں بلکہ خاتم الانبیا اور مرسل ِ اعظم ہیں۔ورقہ بن نوفل کی مشاورت اور پیشینگوئیوں کی تصدیق کے بعد آپ نے انہیں شام سے خریدا گیا قیمتی اور بیش بہا خلعت عنایت فرمایاجسے لینے سے ورقہ نے انکار کر دیا اور درخواست کی کہ میری دلی خواہش ہے کہ آپ ۖکے سرتاج محمد مصطفٰیۖ میری شفاعت کا وعدہ کر لیں۔سیدہ نے وعدہ فرمایا کہ ایسا ہی ہوگا۔پچیس برس پہ محیط رفاقت ِحیات میںاپنی بہترین سیرت و اخلاق اور عادات کے باعث خانہ نبوت کو نبی ِاکرم کے آرام و سکون کا گہوارہ بنا دیااور نہ صرف متولی ِکعبہ کی بہو ہونے کا حق ادا کیا بلکہ وہ مثالی کردار پیش کیا کہ جس پر ام المومنین کے ا لٰہی لقب کی فضیلتیںہمیشہ ناز کریں گی۔ام المومنین کا ہر روز،روز ِعید اور ہر شب ،شب ِبرات و لَیْلَةُالْقَدْر تھی۔ ہرلمحہ دیدارِ مصطفٰیۖ سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہو سکتی تھی۔آپ فرماتی ہیں ؛
فَلَوْ اِنَّنِیْ اَمْسَیْتُ فِیْ کُلِّ نِعْمَةٍ
وَدَامَتْ لِیَ الْدُّنْیَا وَمُلْکُ الْاَکَاسِرْ
فَمَاسَویَتْ عِنْدِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ
اِذَا لَمْ تَکُنْ عَیْنِیْ بِعَیْنِکَ نَاضِرَةٍ
اگر میں ایام کو تمام نعمتوں کی موجودگی میں گزاروں یہاں تک کہ رات ہو جائے اور میرے لیے ہمیشہ حیات ِدنیااورکسرائوں کی سلطنت ہو پھر بھی میرے لیے یہ سب کچھ ایک مچھر کے پر سے بھی کم حیثیت ہے اگر میری نگاہوں نے آپ کی مقدس آنکھوں کی زیارت نہ کی ہو رسول اللہ مسرور تھے کہ خداوند ِعالم نے انہیں ایسی زوجہ مرحمت فرمائی جو امور ِخانہ داری سے لے کر تبلیغ اسلام کی جملہ مشکلات میں معاون و مددگار رہی۔سیدنا ابو طالب مطمئن ہو گئے کہ بانی ِ اسلام کو ان کے شایان شان رفیقہ حیات ملی۔عباس محمود العقاد لکھتے ہیں؛” سرور ِکائنات نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی ۔والد کی وفات آپ کی پیدائش سے پہلے ہو چکی تھی،والدہ کا سایہ بھی زیادہ دیر تک سر پہ نہ رہااور وہ بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص منشا اور تصرف کے ماتحت ،خدیجہ جیسی پاکباز اور غمگسار خاتون کو آپ کے لیے چنا۔شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے جس دلسوزی سے آپ کی دلجوئی کی اس نے تمام مصائب اور صدمات کا مداوا کر دیاجو یتیمی کی حالت میں آپ کو اٹھانے پڑے تھے۔اعلان ِنبوت کے ساتھ ہی مصائب کا پہاڑ رسول مقبول پر ٹوٹ پڑا۔کسی قسم کی ایذا نہ تھی جو بد نہاد مشرکین نے حضور کو نہ پہنچائی ہو اور مخالفت کا کوئی دقیقہ نہ تھا جو قریش نے فروگزاشت کیا ہو۔اس حالت میں جب کہ مکہ کا چپہ چپہ حضور کا دشمن ہو رہا تھا اور آپ پر بدترین قسم کے مظالم ڈھائے جارہے تھے ا گر کسی نے حضور ۖ کی کامل رفاقت کا ثبوت دیاتو وہ حضرت خدیجہ تھیں۔
انہوں نے اپنا تن من دھن، سب کچھ رسول اللہ ۖاور اسلام کے لیے قربان کر دیااور اس دلسوزی اور جانفشانی سے آپ کی خدمت کی کہ اس کے سامنے حضور کو کفار مکہ کے مظالم کا احساس تک جاتا رہااور آپ ۖبہ اطمینان ِکامل تبلیغ واشاعت اسلام میں مصروف رہے”۔ سید المرسلین ۖاور آپ کی رفیقہ حیات خدیجہ طاہرہ نے اپنی پچیس سالہ خوشگواروقابل ِصدافتخار ازدواجی زندگی میں انسانیت کے لیے بالعموم اور زن وشوہر کے لیے بالخصوص ضابطہ حیات اور اصول و قوائد مرتب فرمادیے ۔ شادی کے پندرہ سال بعدبصورت ِقرآن آنے والے احکام انہی اصولوں کی تکمیل کرتے نظر آئے ۔ آنحضرت ۖکی خدمت کا وہ حق ادا فرمایا کہ حضور آخری دم تک آپ کی وفاشعاری اور خدمت گزاری کو یاد فرماتے رہے،یہاں تک کہ آپ نے فرمایا ؛”میں خدیجہ کو دوست رکھنے والوں سے محبت کرتا ہوں”۔ رسول اللہ گھر سے باہر نکلتے وقت ہمیشہ سیدہ خدیجہ کی مدح وثنا فرماتے اور انہیں یاد کرتے تھے۔ صاحب ِ وَمَایَنْطِقْ، مدح ِخدیجہ میں ہمیشہ رطب اللساں رہے ۔آپ فرماتے تھے ؛خُدَیْجَةْ وَمَنْ مِثْلُ خُدَیْجَةْ !! آمَنَتْ بِیْ اِذْکَفَرَالْنَّاسْ وَصَدَقْتَنِیْ اِذْکَذَّبْنَی الْنَّاسْ وَوَسْتَعْنِیْ بمَالِھَا اِذْحَرّمْنَی الْنَّاس، رَزَّقَنِیْ مِنْھَااللّٰہُ الْوَلَدَ دُوْنَ غَیْرَھَامِنَ الْنِّسَائ،خدیجہ کی مثل کہاں، مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ منکر تھے اور انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری مدد کی جب تمام لوگوں نے مجھے مال سے محروم رکھاتھا،خدا نے مجھے ان سے اولاد دی جبکہ دیگر عورتوں سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔
آپ سیدہ خدیجہ کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے ؛ اَنْتَ مَلِکَة، اِمْرَاةَ ذَاتِ الْمَال، آپ شہزادی ہیںثروتمند ہیں۔آپ کی میزبانی ومہمان نوازی کو یاد کرتے فرماتے ،” مَارَاَیْتُ مِنْ صَاحِبَةٍلاَِجِیْرٍخَیْراًمِّنْ خُدَیْجَةْ، مَاکُنّانَرْجِعُ اَنَاوَصَاحِبیْ اِلَّاوَجَدْنَاعِنْدَھَاتُحْفَةًمِّنْ طَعَامٍ تَحْبَاہُ لَنَا”میں نے خدیجہ سے بہتر صاحب ِخانہ نہیں دیکھا ۔جب بھی میں یا میرے رفقا ان کے ہاں جاتے تو ہمیشہ محبت کے ساتھ تیار کی گئی بہترین غذاپاتے ۔ تمام مورخین متفق ہیںکہ سابقون الاولون میں سب سے پہلے اسلام کے قبول کرنے کا اعلان سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے فرمایااور آپ کا اسم گرامی سید المرسلین ۖپر ایمان لانے والوں میں سرفہرست ہے۔آپ نے ایمان لانے میں ہی سبقت نہیں کی بلکہ تادم آخر اپنے کامل یقین پر باقی رہیںاور آخری سانس تک نصرت و حمایت اور حفاظت و رفاقت کا حق ادا فرماتی رہیں۔
آپ ابتدائے اسلام کے تین نمازیوںپیغمبر اسلام،مولائے کائنات اور ام المومنین میں سے ہیں اور سیدنا جعفر طیار سیدنا ابو طالب کے حکم پرچوتھے نمازی ہیں۔سیدنا ابو طالب کی نگرانی اور محافظت میں اسلامی تحریک آگے بڑھتی رہی اور اہل ِاسلام سکون و اطمینان سے اللہ کی عبادت کرتے رہے۔آپ اس عظیم تحریک کی سرگرم رکن تھیں اور نبوت کی مونس و غمخوار ،رسالت کی پشت پناہ اور اسلام کی معین و مددگار تھیں۔آپ نبی کریم کی وزیر باتدبیر اور بے بدل مشیرتھیں۔ روزانہ سونا،چاندی اور جواہرات کے اونچے ڈھیر لگاتیں اور حضور کی بارگاہ میں التجا فرماتیں کہ اپنے دست ِمبارک سے تقسیم فرما دیں۔آج صبح اٹھ کر میں نے جو آپ کے چہرئہ اقدس کی زیارت کی ہے یہ اس کا صدقہ ہے۔
تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ