تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
٦٢٣ء ،بعثت نبوی کے دسویں سال، شعب ابی طالب کا محاصرہ ختم ہوااور خانوادئہ ابوطالب آزاد ہوا۔محبوب خدا کے لیے یہ سال اور بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا اور آپ کے دونوں مضبوط سہارے خدا کو پیارے ہو گئے۔ماہ رجب المرجب دس نبوی میں سردارِ عرب سیدنا ابو طالب نے وصال فرمایااور آپ کے صرف تین ماہ بعددس رمضان المبارک کو عالمی تاریخ کا رخ موڑ دینے والی عرب کی یہ نامور خاتون،ام المومنین ،ام الزہرا،سیدہ طاہرہ خدیجہ الکبریٰ ،شعب ابی طالب کی سختیوں کے باعث،شہادت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئیں۔معروف مصری دانشور ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمان بنت الشاطی لکھتی ہیں؛
”جناب خدیجہ عمر کے ایسے حصے میں تھیں جہاں مشکلات اور سخت حالات کا مقابلہ آسان نہ تھا۔وہ ایسی خاتون بھی نہ تھیں جو معاشی بدحالی ،فاقوں اور سخت موسمی حالات کی عادی ہوں لیکن ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی جناب خدیجہ نے شعب ابی طالب میں تمام سختیوں کا صبر وتحمل سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ موت کی حدوں کو چھو لیا”۔
پیغمبر اسلام کے آستانے کے دو روشن چراغ، مکہ کے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے واصل بحق ہو گئے۔ہادیِ اکبر کے آرام کی گود نہ رہی،سکون ِمرسل اعظم کا سایہء محبت و الفت نہ رہا ۔حفاظتی تلوار نہ رہی،دعائیںدینے والی زبان نہ رہی ،حصار ِمحمدی کا مضبوط قلعہ نہ رہا۔وہ رفیقہء حیات نہ رہیںجن کی چشم محبت فرش راہ ہوا کرتی تھی۔پناہ گاہ ِرسالت نہ رہی۔محبوبہ ٔ رسول نہ رہیںجنہوں نے رسول اللہ کو ہر طرح کا سہارا دیا تھا ۔مونس و غمگسار ،شفیق مربی ،سردار ِعرب بھی تشریف لے گئے۔ ان دونوں محترم ہستیوں کی یکے بعد دیگرے اموات نے حضور نبی کریم ۖپر گہرا اثر فرمایااورآپ رنج والم سے نڈھال ہو گئے۔ اس غم والم اور درد و کرب کے باعث اس سال کو آپ نے ”عام الحزن” قرار دیا۔
حضور کی ذات بابرکات پر تمام دولت نچھاور فرمادینے والی خدیجہ نے آخری لمحات میں اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ زہر ا کو بارگہ نبوی میں بھیجا اور درخواست کی کہ میں نے ساری دولت اسلام کے رستے پر خرچ کر دی ہے،اگر میرے پاس کفن کے پیسے ہوتے تو میں آپ کو قطعاََ مجبور نہ کرتی ،آپ اپنے دوش اطہر کی چادر میرے کفن کے لیے عطا کر دیں۔
ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّاالْاِحْسَانُ اِدھر سیدئہ عالمین نے والدئہ معظمہ کی بارگاہ میں کسائے نبوی پیش کی اُدھر جبرئیل نے دربارِ رسالت ۖمیں حاضر ہو کر عرض کی ؛ ”یا رسول اللہ !خدا تعالیٰ کا سلام قبول فرمائیں اوراپنی چادر مبارک حضرت خدیجہ الکبریٰ سے واپس لے لیں ۔خالق کائنات نے فرمایا ہے کہ جو کچھ خدیجہ کے پاس تھا اُس نے میری راہ پر قربان کر دیا اب اس کا کفن ہمارے ذمہ ہے ۔ہم انہیں اپنے کرم کے لباس سے پوشیدہ فرمائیں گے اور ان کو جنت الفردوس کا کفن عطا کیا جائے گا”۔
دار البقا جب سیدہ خدیجہ کا وصال ِپرملال ہوا تو آپ کی چار سالہ دختر حضرت فاطمہ ،رسول اللہ کے ساتھ لپٹ کر ان کے گرد گھوم کر فرماتیں،”باباجان!میری اماں کہاں ہیں؟” جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کی ،”آپ کے پروردگار کا حکم ہے کہ فاطمہ کو میرا سلام کہیںاور بتائیںکہ آپ کی والدہ یاقوت،زبرجد اور مروارید کے موتیوں کے گھر میں ہیں ،جس کی چھت سونے کی اور ستون سرخ یاقوت کے ہیںاور وہ آسیہ ومریم بنت عمران کے درمیان جنت میں ہیں”۔ سیدہ فاطمہ نے عرض کی ،”بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات سلام ہے،اسی کی ذات کی طرف سلامتی ہے اور اسی کی طرف سلام ہے”۔
بابِمَدِیْنَةُالْعِلْم کا مرثیہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی وفات پر باب ِمَدِیْنَةُالْعِلْم،سیدنا علی مرتضٰی شیر خدا نے ان الفاظ میںاپنے غم کا اظہار فرمایا؛
اَعَیْنَیَّ جُوْدَا بَارَکَ اللّٰہ فِیْکُمٰا
عَلیٰ ہٰالِکَیْنِ لَاتَریٰ لَھُمٰا مِثْلاً
میری دونوں آنکھو !تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیںنازل ہوں۔تم ان دونوں بزرگ ہستیوں کے وصال پر خوب آنسو بہائو
کیونکہ ان دونوں نے اسلام کے لیے بہت ہی جانبازی اور غمگساری سے کام کیا ہے۔ان دونوں کا کوئی مثل و ثانی نہیں
عَلَیٰ سَیِّدِ الْبَطْحٰائِ وَابْنِ رَئِیسِھٰا
وَ سَیِِّدَةِ الْنِسْوَانْ اَوَّلَ مَنْ صَلَّٰٰے
ایک تو اس سردار ِمکہ حضرت ابو طالب پر روئو،جو رئیس ِمکہ ہیں اور رئیس ِمکہ حضرت عبدالمطلب کے لخت ِجگر نور ِنظر ہیں
دوسرے سیدة النساء حضرت خدیجہ الکبریٰ پر آنسو بہائو جنہوں نے سب سے پہلے نماز ادا فرمائی
مُھَذَّبَةٍ قَدْ طَیَّبَ اللّٰہ خَیْمَھٰا
مُبٰارَکَة وَاللّٰہُ سَاقَ لَھَا الْفَضَلَائ
انہیں اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ فطرت عطا فرمائی ،آپ کو زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ پاکیزہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا
آپ بہت بابرکت اور طیب طاہر تھیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات و فضائل بیان فرمائے ہیں
مُصَابُھُمَا اَدْ جیٰ لِیَ الْجوَّوَالْھَوَا
فَبِتُّ اُقَاسِیْ مِنْھُمَا الْھَمَّ وَالْثَکْلاٰ
ان دونوں کی جدائی اور فراق نے میرے لیے ہوا اور خلا و فضا کو غم و الم کے اندھیرے میں بدل دیا پس میں ان کی جدائی کی وجہ سے رنج و الم میں ڈوبا ہوا مشکل سے راتیں گزارتا ہوں ،غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں اوررات کی نیندیںاچاٹ ہو گئیں ہیں
لَقَدْ نَصَرَ فِیْ اللّٰہ دِیْنَ مُحَمَّدٍ
عَلیٰ مَنْ بغیٰ فِی الْدّیَِْنِ قَدْرَعَیَااِلّا
بے شک انہوں نے حضور کے دین کی اشاعت کے بارے میں مددو حمایت کی اور ہر اُس آدمی کا مقابلہ کیا جس نے بھی سرکشی ،بغاوت اور مخالفت کی اور اپنی حمایت و کے عہد و پیمان کا پاس کیا
یاد ِخدیجہ الکبریٰ سیدہ خدیجہ طاہرہ کے وصال پرملا ل اور دنیا سے پردہ فرما جانے بعد آپ کی یاد رہ رہ کر محمد ۖوآل محمد ۖسے آپ کے فضائل ومناقب اور شگفتہ یادیں تازہ کرواتی رہی ۔ بیشتر مقامات پر آل رسول نے آپ کی ذات گرامی پر تفاخر فرمایا؛
ایک روزسیدنا محمد مصطفٰی ۖمسجد نبوی میں تشریف فرما تھے اور حسنین کریمین کے فضائل ومناقب بیان فرما رہے تھے ؛”اَیُّھَاالْنَّاسُ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِخَیْرالْنَّاس جَدّاً وَجَدَّةً ”، ”اے لوگو!کیا میں تمہیں خبر دوں ان کے بارے میں جو اپنے جد وجدہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں ”۔حاضرین نے عرض کی ،”یا رسول اللہ !خبر دیجیے ” توآپ ۖنے فرمایا،” اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، جَدُّھُمَارَسُوْلُ اللّٰہِ وَجَدَّتُھُمَاخُدَیْجَةْبنْتِ خُوَیْلِدٍ’،”وہ حسن وحسین ہیں جن کے جد اللہ کے رسول ہیں اور جن کی جدہ خدیجہ بنت خویلد ہیں ”۔
رسول اللہ بارگاہ ِایزدی میں ابدی حاضری کے لیے رخصت ہونے لگے تو آپ کی لخت جگر سیدة النساء نے پریشانی کے عالم میں گریہ زاری کی ۔ سرکار ِدوعالم ۖنے آپ کو تسلی دیتے فرمایا؛
” میری بیٹی غم نہ کیجیے ، اِنَّ عَلِیّاً اَوَّلُ مَنْ آمَنَ باللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلِہ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ، ھُوَوَخُدَیْجَةُ اُمُّکِ”،”بے شک علی میری امت میں سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کی والدہ خدیجہ ہیں ”۔ سیدنا اما م حسن مجتبیٰ نے کوفہ میں ابایزید کی بدگوئی کے جواب میں فرمایا؛
”وَجَدَّتِیْ خُدَیْجَةْوَجَدَّتُکَ فَتِیْلَہْ ”،”میری جدہ خدیجہ ہیں اور تیری جدہ فتیلہ (زنِ زشت)ہے ”۔مدینہ منورہ میں مسجد النبی ۖکے منبر پر خطبہ دیتے آپ نے فرمایا،”وَجَدَّتِیْ خُدَیْجَةُوَجَدَّتُکَ نَثِیْلَہ”،”میری جدہ خدیجہ ہیں اور تیری جدہ نثیلہ (ناپاک)ہے ”۔ سیدنا امام حسین نے روز عاشورہ افواج یزید کو اپنے تعارف میں فرمایا؛
” اَنْشِدُکُمُ اللّٰہْ! ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ جَدَّتِیْ خُدَیْجَةَ بنْتَ خُوَیْلدٍ اَوَّلَ نِسٰائِ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ اِسْلَاماً؟ قَالُوْا بَلیٰ”،”میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم نہیں جانتے کہ میری جدہ (نانی)جناب خدیجہ بنت خویلد ہیںاور وہ اس امت کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا؟”سب حاضرین نے کہا ، ”ہاں ”۔پھر آپ نے فرمایا،”کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہارے رسول کی زوجہ جناب خدیجہ کا بیٹا ہوں”۔
سیدنا امام زین العابدین نے شام کے دربارِ یزید میں حاضرین کو اپنے تعارف میں فرمایا؛
” اَنَااِبْنُ خُدَیْجَةُ الْکُبْریٰ”، ”میں خدیجہ الکبریٰ کا بیٹا ہوں”۔
گیارہ محرم الحرام اکسٹھ ہجری ،میدان کربلا سے رسن بستہ سیدہ زینب بنت علی اپنے اعزا،بھائیوں اور بیٹوں کے بدن ریزوں سے گزریں تو دردناک کلماتِ مصائب ارشاد فرمائے جن میں اپنے جد پیغمبر خدا،اپنے والد علی مرتضٰی شیر خدا اور اپنی جدہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ کو یاد کرتے فرمایا؛
” باَبِیْ خُدَیْجَةَ الْکُبْریٰ”
سیدنا زید شہید فرزند امام زین العابدین فرمایا کرتے تھے ؛
” وَنَحْنُ اَحَقُّ بالْمَوَدَّةِ اَبُوْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَجَدَّتِنَاخُدَیْجَة ”،”ہم زیادہ حقدار ِموَدَّت ہیں کہ ہمارے جد رسول اللہ ہیں اور ہماری جدہ خدیجہ ہیں ”۔ تاجدارِ زمانہ سیدنا امام محمد مہدی آخر الزمان کی یاد میں تڑپنے والے عارفین دعائے ندبہ میں آپ کو فرزند ِخدیجہ کے نام سے یاد کرتے ہیں؛
” اَیْنَ اِبْنُ الْنَّبِیُّ الْمُصْطَفٰی وَابْنُ عَلِیّ ن ِالْمُرْتَضٰی وَابْنُ خُدَیْجَةُالْغَرَّائِ”،”فرزند نبی مصطفٰی اور علی مرتضٰی اور عظمت والی خدیجہ کے بیٹے کہاں ہیں ؟”
تاریخ سازحیات مبارکہ ام المومنین کی پاکیزہ زندگی اور سیرت طیبہ نے حقوق نسواں کی واضح تشریح فر مائی ہے۔آپ کی پوری زندگی خواتین عالم کی کامیابی و کامرانی کے لیے بہترین لائحہ عمل اور نمونہء کردار ہے۔اپنی ترپن (٥٣)سالہ دنیاوی حیات مبارکہ کے ہر موڑ پرآپ نے عظمت ِنسواں اور کمالات ِانسانی کے گرانقدر ذخائر عالم بشریت کی نذر فرمائے ہیںاور آپ کی زندگی کا ہر گوشہ قبل و بعد از عقد نورانیت و روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی ترفع اور ترقی کا بھی روشن چراغ ہے ۔آپ پیکر غیرت وحمیت ،مجسمہ ء زہد وتقویٰ ،فخر عظمت وجلالت ،تصویر صبر وشکر،نشان عظمت وسیادت ،قدردان آدمیت ،نگران اقدار انسانیت اور محافظ وناصرِرسالت تھیں۔
تجارت میںکامرانی،رفیق ِزندگی کے انتخاب میںسربلندی،حیرت انگیز عقل و بصیرت ،تبلیغ اسلام میں شراکت،سیاست ِعرب میں حصہ،حقوق زوجیت کی احسن ادائیگی،بچوں کی تربیت اور صدمہ،سیرت کی حد درجہ پاکیزگی اور کردار کی اسقدر بلندی کہ تمام عرصہ حیات کسی سے تلخ کلامی تک نہ ہوئی۔ شہزادی ہو کر بھی گھر کا سارا کام اپنے دست مبارک سے کرنا،شوہر کا خیال،امو ر خانہ داری کی دیکھ بھال اور ان سب کے باوجود عبادت ِخدا سے ذرہ بھر غفلت نہ برتنااور نسوانیت کو بام عروج پر پہنچا دینا ،تاریخ عالم میںآپ کا سب سے قد آور شخصیت ہونے کا بین ثبوت ہیں۔
مصادر تحقیق
١۔ طَبَقَاتُ الْکُبْریٰ ابن سعد کاتب الواقدی بصری متوفی٢٣٠ھ
٢۔ تاریخ اَلْاُمَمْ وَالْرُّسُلْ محمدبن جریرطبری متوفی ٣١٠ھ
٣۔ مَوَاہِبُ الْلَّدُنِّیَہْ فِیْ الْسِّیْرَةِ الْنَّبَوِیّةْ شیخ شہاب الدین احمد بن علی الخطیب قسطلانی متوفی٩٢٣ھ
٤۔ تاریخ اَلْخَمِیْس فِیْ اَحْوَالِ الْنَّفْسِ الْنَّفِیْس قاضی حسین بن محمددیار بکری مالکی متوفی٩٦٦ھ
٥۔ تفسیر اَلْدُّرَرِالْمَنْثُوْر حافظ جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی متوفی٩١١ھ
٦۔ اِسْتِعْیَابْ فِیْ مَعْرِفَةِ الْاَصْحَابْ حافظ یوسف بن عبداللہ المعروف ابن عبد البر القرطبی متوفی٤٦٣ھ
٧۔ اَلْاِصْابَةْ فِیْ تَمِیْزِالْصَحَابَةْ ابن حجر عسقلانی متوفی٨٥٣ھ
٨۔ اِعْلاَمُ الْوَریٰ فِیْ اَعْلَامِ الْہُدیٰ امین الدین فضل بن حسن طبرسی متوفی٥٤٨ھ
٩۔ بِہْجَةُ الْمَحَافِلْ شیخ یحیٰ بن ابی بکر عامری متوفی٣٩٣ھ
١٠۔ ذادالمعاد شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد ابن القیّم متوفی٧٥١ھ
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ