ماریشس (کامران غنی) اردو اسپیکنگ یونین ، ماریشس کی جانب سے 26-28 نومبر کو تیسری عالمی سہ روزہ اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ہندستانی ہائی کمیشن کی جانب سے ماریشس میں دومہینے سے چل رہے فیسٹول آف انڈیا کا اسے ایک حصہ بنایا گیا۔ ہندستانی سفارت خانے کی بھر پور معاونت کے علاوہ پاکستانی ہائی کمیشن اور وزارت فنون و ثقافت، ماریشس کے اشتراک سے یہ عالمی اردو کانفرنس نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں ہندستان، پاکستان ، جرمنی اور مصر کے مندوبین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
افتتاحی تقریب 26 نومبرکومنعقد ہوئی۔ بطور مہمان خصوصی صدر جمہوریہ ماریشس ڈاکٹر آمنہ غاریب فاکم تشریف فرما تھیں۔اردو اسپیکنگ یونین ، ماریشس (USU )کے صدر جناب شہزاد عبداللہ احمد نے اپنی استقبالیہ تقریب میں صدر جمہوریہ،وزارت فنون وثقافت عزت مآب سنتارام بابو اور تمام مندوبین اور حاضرین کا خیر مقدم کیا۔شہزاد صاحب نے خصوصی طور پر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ،استادجواہرلعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی اور سابق ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی کا شکریہ اداکیا۔
”Relevance of Urdu in the Globalized work” (ایک اکائی میں سمٹتی دنیا میں اردو کی معنویت) کے عنوان سے منعقد اس کانفرنس کا نہایت تزک واحتشام کے ساتھ آغاز ہوا۔ابتدا ماریشس اور ہندوستان کے قومی ترانے سے ہوئی۔اس کے بعد ”اردو اسپیکنگ یونین”کے صدر جناب شہزاد عبد اللہ احمد نے خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے کانفرنس کے اغراض و مقاصد نیز ماریشس میں اردو کے منظر نامے پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد ہندوستان سے تشریف لائے ساہتیہ اکادمی کے سیکریٹری جناب ڈاکٹر کے۔سری نواس رائونے خطاب کیا۔
کلیدی خطبہ مشہور ناقد، شاعر اور ماہر تعلیم مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی ،پٹنہ کے وائس چانسلرپروفیسر اعجاز علی ارشد نے پیش کیا۔صدارتی کلمات سابق ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (حکومت ہند)اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی میں ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے پروفیسر ،ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین نے پیش کیا۔اپنی مختصر سی تقریر میں پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اکیسویں صدی میں اردو کی صورت حال اور ایک اکائی میں سمٹتی ہوئی دنیامیں اردو کا پورا منظرنامہ پیش کیا۔ساتھ ہی اردو کو جدید تکنیکی وسائل اور ذرائع ابلاغ سے جوڑنے کی سمت میں جو کوششیں کی جارہی ہیں ،ان پر بھی اختصار سے روشنی ڈالی اور مستقبل میں اردو کے فروغ کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیاجائے؟اس پر بھی اظہار خیال کیا۔
اس موقعے پر کانفرنس میں موجود سفرا اور وزرا کی دل چسپی اور توجہ خاص طور پر قابل دید تھی۔ ماریشس میں ہندوستان کے ہائی کمشنر عالی جناب انوپ کمار مدگل نے بھی اردو سے اپنی محبت اور لگائوکا اظہار کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح بھرپورتعاون اور سرپرستی کا اعادہ کیا۔اسی طرح ڈپٹی ہیڈ آف مشن حکومت پاکستان عالی جناب احمد ندیم مصطفی نے ماریشس میں اردو کے فروغ کے لیے اپنے بھر پور تعاون کا اعادہ کیا۔ وزیر برائے فنون وثقافت عزت مآب سانتا رام بابو نے بھی ماریشس میں اردو زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے ہرطرح کے تعاون کے عزم کا اظہار کیااور اخیر میں صدر جمہوریہ ماریشس عزت مآب ڈاکٹر آمنہ غاریب فاکم کے ذریعے کانفرنس کا با ضابطہ افتتاح ہوا۔اس کے بعد اردو اسپیکنگ یونین کے سیکریٹری انور دوست محمد نے اظہار تشکر پیش کیا۔افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شگفتہ یاسمین(ہندوستان) نے کی۔
چائے کے وقفے کے بعد پہلا اجلاس شروع ہوا۔اس اجلاس میں دو مقالے پیش کیے گیے۔پہلا مقالہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف ناقد وادیب پروفیسر علی احمد فاطمی نے”اردو کی عالمی مقبولیت”کے عنوان سے پیش کیا۔دوسرا مقالہ معروف ادیب اور ناقد ڈاکٹر بھوپیندرسنگھ پریہار نے ”اردو اجتماعی تہذیبی روح کی زبان”کے عنوان سے پش کیا۔اس اجلاس کی صدارت پروفیسر اعجازعلی ارشد نے کی جب کہ نظامت کے فرائض جناب چندر بھان خیال نے انجام دیئے۔اجلاس کے اختتام سے پہلے شرکا نے کئی سوالات بھی پوچھے اور بحث و مباحثہ کا دور بھی چلا۔
چائے کے وقفے کے بعد دوسرا اجلاس شروع ہوا۔اس اجلاس میں بھی دو مقالے پیش کیے گئے۔پہلا مقالہ پروفیسر تحسین فاروق نے ”اردو ذریعۂ تعلیم”کے عنوان سے پیش کیا۔دوسرا مقالہ ہندوستانی زبانوں کے مرکز ،جواہرلعل نہرویونیورسٹی ،نئی دہلی کے چیئرپرسن پروفیسر انوار عالم(انورپاشا)نے”ہندوستانی تہذیب،میڈیا اور اردو ”کے عنوان سے پیش کیا۔اس اجلاس کی نظامت دہلی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر محمد کاظم نے کی۔مقالات پر سوال وجواب کا دور بھی کافی دیر تک چلا۔اس کے بعد اس اجلاس کے صدر پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین نے دونوں مقالوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔اخیرمیں ناظم جلسہ ڈاکٹر کاظم نے سامعین کے ساتھ ساتھ اردو اسپیکنگ یونین،وزارت ثقافت،حکومت ہند اور ہندوستانی ہائی کمیشن،ماریشس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کانفرنس کے دوسرے دن کے پروگرام کا اعلان کیا۔پہلے دن کے پروگرام کا خاتمہ عالمی مشاعرہ پر ہوا۔
27/نومبر 2015 کو دوسرے دن کا پہلا اجلاس شروع ہوا۔اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شگفتہ یاسمین اور صدارت کے فرائض پروفیسر علی احمد فاطمی نے انجام دئیے۔اس اجلاس میں تین تحقیقی مقالے پیش کیے گیے۔پہلا مقالہ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے”اردو اور جدید ٹکنالوجی”کے عنوان سے پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ میڈیا اور ٹکنالوجی دور حاضر میں مسلمہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بہت واضح ہے کہ آج اور آنے والے کل کی جملہ ترقی کا محور بڑی حد تک یہی شعبے ہوں گے۔ گلوبل ویلیج، الیکٹرانک عہد ،ڈیجٹل عہداور سائبر ایج جیسی اصطلاحیں عہد جدید کی برق رفتار ترقی کا استعارہ ہیں۔عہد حاضر کی بیشتر ترقیات کا انحصار ٹکنالوجی پرہے۔
اس انحصار کی نوعیت یہ ہے کہ اب یہ نہ صرف انسانی زندگی کے لیے بلکہ تمام شعبہ حیات کے لیے بھی ناگزیر ہوگیا ہے۔دوسرا مقالہ پروفیسر شافع قدوائی نے بعنوان ”عالمی تناظر میں اردو افسانوی ادب کی معنویت”پر پیش کیا۔عالم کاری کے اثرات اردو فکشن پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالم کاری یکسانیت پر حد درجہ اصرار کرکے ثقافتی استحصال کا بازار گرم کررہی ہے۔ادب عالم کاری کے مقابلے میں ایک متوازی متن تیار کرتا ہے جو انسان کی ثقافتی آرزومندوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔تیسرا مقالہ چندر بھان خیال نے پیش کیا۔ا ن کے مقالے کا عنوان” عالمی تناظر میں اردو شاعری”تھا۔انہوں نے اپنے مقالے میں کہا کہ ہندوستان کثیرالمذاہب کا ملک ہے۔
مذہبی رواداری ،فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور جذباتی اشتراکیت اس کے خمیر میں ہے۔اردو زبان اپنے سیکولر کردار کے سبب عوام کے دلوں میں رچ بس گئی ہے۔اردو قومی یک جہتی اور اتحاد کی زبان بن کر ابھری۔اردو محض زبان نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ،ایک اسلوب زیست بھی ہے۔عہد حاضر میں اردو دنیا بھر میں پھیل گئی۔شعروادب زندگی کا عکس ہے۔دوسرے اجلاس میں ڈاکٹر ریاض گوکھل نے اپنا مقالہ ”ماریشس میں اردو کی تدریس”پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ اردو کی پڑھائی نے مدرسے سے نکل کر ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ساتھ ہی انہوں نے عنایت حسین عیدن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کاوشوں سے 1970 میں اردو ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔
آج اردو کی درس و تدریس یونیورسٹیوں میں ہوتی ہے ، بے شمار طلبہ نے ہندستان کی معروف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پچاس برسوں میں کئی معروف شعرا ، افسانہ نگار ، ناول نگار اور ڈرامہ نویس یہاں موجود ہیں جو اردو کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ”اردو اسپیکنگ یونین” اور نیشنل ارود یونین نے بھی اس میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد ڈاکٹر وسیم بیگم نے اپنا مقالہ بعنوان ” اردو میں نسائی ادب : عہد حاضر ” میں پیش کیا۔جس میں انھوں نے نسائی ادب کا محاکمہ پیش کرتے ہوئے عورتوں پر ہونے والے مظالم کا بھی ذکر کیا۔ جو مختلف اصناف ادب مثلاً افسانہ ، شاعری اور ناول میں موجود ہے۔ساتھ ہی حقوق نسواں کی وکالت بھی کی۔اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ذوالقرنین ، کراچی یونیورسٹی ، پاکستان نے کی اور صدارت ڈاکٹر کرسٹینا ، ہائیڈل برگ یونیورسٹی ، جرمنی نے کی۔
آخری اجلاس میں شام غزل کاپروگرام منعقد ہو ا جس میں پاکستان کے مشہور معروف غزل سرا جناب عدیل خان بْرکی نے مشہور و معروف شعرا کے کلام کو پیش کیا اور سامعین کی فرمائشوں پر نئے او ر پْرانے ہندستانی نغموں کے علاوہ گیت اور قوالی سے سامعین کو محظوظ کیا۔عدیل نے اس انداز سے غزلیں پیش کیں کہ سامعین دم بخود سنتے رہے ، جھومتے رہے اور گنگناتے رہے۔ اگرچہ عدیل برکی نے دنیا کے کونے کونے میں اپنے فن کا جادو جگایا اور بے شمار ایوارڈ اپنے نام کیے ہیں مگر ماریشس کے عوام نے جس انداز سے انھیں سنا اور داد وتحسین سے نواز ا، وہ ان کے لیے کسی بڑے اعزاز سے کم نہ تھا۔
28 نومبر یعنی کانفرنس کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس کی نظامت ڈاکٹر وسیم بیگم نے کی اور صدارت پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی نے کی۔ اس اجلاس میں مصر سے آئے ڈاکٹر جلال الحفناوی سے اپنا مقالہ ”مصر میں اردو کتابوں کا ترجمہ ” پیش کرتے ہوئے مصر میں حکومت اور ذاتی اداروں کے ذریعے ارود کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اب تک مصر میں اردو کی دو سو سے زائد کتابوں کا ترجمہ حکومت مصر کے دارالترجمہ نے شائع کی ہیں۔اورڈاکٹر کرسٹینا ، ہائیڈل برگ یونیورسٹی ، جرمنی نے” جرمنی میں اردو ” کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اردو پہلے ہندستانی کے نام سے رائج تھی اور 1965 کے بعداردو کے نام سے پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔
فی الوقت یہاں بی اے اور ریسرچ کے طلبہ و طالبات موجود ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی بھی جرمنی میں اردو کے حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ کچھ ہندستانی اور پاکستانی احباب اردو کی مختلف تنظیموں کے ذریعے کام کر رہے ہیں جو قابل ستائش ہیں لیکن ابھی بھی اردو زبان توجہ کی طالب ہے۔ اور ڈاکٹر صابر گوڈور ، ماریشس نے ” ماریشس کی اردو تخلیقات : ایک سرسری جائزہ ” کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نیتخلیقی منظر نامے کے روشنی میں بتایا کہ کس طرح تارکین وطن نے ماریشس میں اردو کو اپنی تہذیبی وراثت کے طور پرزندہ رکھا ہوا۔ ساتھ ہی انھوں نے اب تک ماریشس میں تخلیق کیے گئے ادب کا بھر پور جائزہ پیش کیا۔
دوسرے اجلاس کی نظامت عنایت حسین عیدن نے اور اس کی صدارت پروفیسر سید محمد انوار عالم پاشا نے کی اس اجلاس میں دو مقالے پیش کیے گئے۔ پہلا مقالہ پروفیسر ذوالقرنین نے بعنوان” بر صغیر کے باہر اردو کی درس وتدریس ”پیش کیا اور یہ بتایا کہ بر صغیر کے باہر اردو کے درس و تدریس کا بنیادی کام گارسیں دتاسی کی کاوشوں سے شروع ہوا ور اب یہ پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں کہیں نہ کہیں پڑھائی جارہی ہے اس طرح اردو کا دامن وسیع ہوا ہے۔دوسرا مقالہ ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے بعنوان” ہندستان میں غیر ملکی مجلاتی صحافت ” پیش کیا۔اپنے مقالے میں انھوں نے ہندستان میں امریکن ایمبیسی، برٹش ایمبیسی اور ایران کلچرل کاونسل کے مجلوں کا جائزہ پیش کیا اور مستقبل کے امکانات پر سیر حاصل بحث کی۔
آخری نشست کی نظامت ڈاکٹر بھوپیندرسنگھ پریہار اور صدارت ڈاکٹر شافع قدوائی نے کی۔ اس میں دو مقالے پڑھے گئے۔ پہلا مقالہ راجیش ریڈی بعنوان ”تفریحی صنعت اور ابلاغ عامہ میں اردو کی معنویت ” پیش کیا جس میں انھوں نے بتایا کہ ہندیفلم انڈسٹریز کی بنیاد اردو پر مبنی ہے ، خواہ وہ مکالمے ہوں یا نغمے اردو کے بغیر ہندی فلمیں کھڑی نہیں ہوسکتیں ساتھ ہی انھوں نے فلموں سے وابستہ اردو شعرا کا بھی ذکر کیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔آخری مقالہ ڈاکٹر محمد کاظم ، دہلی یونیورسٹی نے بعنوان”اردوتھیئٹر پارسی تھیئٹر کے بعد” پیش کیا۔ اس موضوع پر جامع گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے نہ صرف پارسی اوراردو تھیئٹر کا جائزہ پیش کیا بلکہ انھوں نے ڈرامے اور ادبی ڈرامے کی روایت کے حوالے سے کئی غور طلب باتیں کیں جو ڈرامے کے فروغ میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا مقالہ نہایت ہی معلوماتی اور دلچسپ تھا۔ سامعین نے انھیں خوب داد و تحسین سے نوازا۔
کانفرنس کی آخری کڑی اختتامی تقریب تھی جس میں سابق نائب صدر ماریشس عبد الرؤف بندھن ، سفیر ہند انوپ کمار مدگل ، سفیر پاکستان کرنل رضا محمد،شہزاد احمد عبداللہ ، صدر یو ایس یو، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، ڈاکٹر سری نیواسا رواؤ، نے سامعین سے خطاب کیا۔ سب سے پہلے محترمہ آبیناز نے کانفرنس کی رپورٹ ہیش کی بعد ازاں شہزاد عبداللہ نے مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حکومت ہندکا بالخصوص شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس معاونت کے بغیر اس کانفرنس کا انعقاد ناممکن تھا ، سفیر پاکستان کا بھی شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی پروفیسر خواجہ اکرام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی یو ایس یو کے ساتھ رہی جس کے سبب خوش اسلوبی سے کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔ عبد الروف بندھن نے کہا کہ یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ کہ میں نے ایسے کامیاب کانفرنس میں شرکت کی۔ پروفیسر خواجہ اکرام نے مندوبین کی بھر پور شرکت۔
طلبہ و طالبات کے جذباتی لگاؤ ، اور ماریشس کے اہل اردوکو سراہا اور مستقبل میں اپنی معاونت کا یقین دلایا۔سفیر ہند نے اپنی جذباتی تقریر میں اردو اور ہندستانی تہذیب و ثقافت پر بہت دلچسپ گفتگو کی اور مستقبل میں ایسے پروگراموں کے انعقاد میں بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ سفیر پاکستان نے اردو کے ذریعے لوگوں کو جوڑنے پر زور دیا اور آخر میں یو ایس یو کے سکریٹری انور دوست محمد نے مقامی اور بیرونی مندوبین ، شرکا اور رضاکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ یو ایس یو کی کامیابیوں کی ایک نئی تاریخ ہے اس کانفرنس کی کامیابی سے ہمیں مزید کار کردگیوں کے لیے حوصلہ ملا ہے۔کانفرنس کی آخری شب صوفیانہ کلام کے نام رہی۔ ہندستان سے آئے نظامی برادارن نے محفل قوالی شام کو ماریشس والوں کے لیے یادگار بنا دیا۔