تحریر: حسیب اعجاز عاشر
چلتا ہے خنجر تو چلے میری رگوں پر
خودی بیچ کے اپنی میں کبھی جھک نہیں سکتا
مٹنے کو تو یہ دنیا بھی مٹ سکتی ہے لیکن
تاریخ کے اوراق سے میں مٹ نہیں سکتا
چھ ستمبر ١٩٦٥ کو جذبہ ِ جہاد اور ایمانی قوت سے یک جان ہو کروطنِ عزیز پاکستان کی سالمیت اور قوم کے تحفظ کے لئے عظیم قربانیاں دے کرہماری نڈرسویلین اوربہادر بری،بحری و فضائی افواج نے طاقت کی ایک نئی قابلِ رشک جنگی تاریخ رقم کی تھی۔ہر کوئی انفرادی و اجتماعی حثیت میں وطن عزیز پر تن من دھن قربان کر دینے کیلئے ایک دوسرے پر فوقیت کی دوڑ میں تھا۔یہی وجہ تھی کہ ہتھیاروں اور عدوی اعتبار سے ہم سے کئی گناہ بڑی طاقت کو ١٧ دن تک جاری رہنے والی جنگ میںمنہ توڑ شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اِس دن کو جسے یومِ دفاع پاکستان کے نام دیا گیا،آج ملک بھر میں روایتی اور بھرپور قومی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے تا کہ وطن عزیز کے خلاف برسرپیکار قوتوں کو ہم یک جہتی کی اعلی مثال پیش کر کے شرمندہ و خوف زدہ کر دیں۔پرچم کشائی، ملک بھر کی مساجد میں ملک و قوم کی سلامتی کے لئے خصوصی دعائوں سمیت مزارِ قائد پرچاق و چوبند گارڈز کی تبدیلی کی تقریب کے انعقاد کے علاوہ شہیدانِ وطن کے مزاروں پر دعائیہ تقاریب، مخصوص مقامات پر پاک فوج کے زیرِ استعمال اسلحے کی نمائش کی تقاریب،سول سوسائٹی کی جانب سے اظہار یک جہتی کے طور پر ریلیاں ، اور مختلف تنظیموں کے زیرِاہتمام جذبہ حب الوطنی سے بھرپور تقاریب کو انعقاد کر کے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے ۔
ایسے میں چھ ستمبر یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے ہی دو روز قبل پنجاب کمپلیکس قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہیومن جسٹس فرنٹ پاکستان(رجسٹرڈ)، سوہنا پاکستان میڈیا گروپ(رجسٹرڈ) اور رورنامہ پاکستان کے زیرِ اہتمام پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر کے اشتراک سے ”ایک شام۔۔غازیوں اور شہیدوں کے نام”تقریب کا انعقاد کی گیا۔خوبصورت اور دلکش تقریب کے انعقاد پر منتظمین خصوصاًسید محمود الحسن گیلانی، فیصل مجیب شامی، تسنیم یوسف بٹ اور مہر جنید رشید کی کاوشوں کو خوب سراہا گیا۔تقریب کا باقاعدہ آغاز اللہ تعالی کے بابرکت نام سے ہوا، ۔نظامت کے فرائض عزیز شیخ کے ہمراہ سدرہ نے حسب روایت اپنے مخصوص انداز میں سرانجام دے کر خوب پذیرائی حاصل کی۔سنگرز نے اپنی گائیکی کے خوب جوہر دیکھائے اور اپنی سریلی اور من موہنی آوازوں سے سماعتوں میں رس گھولتے رہے۔
مقبول کامیڈین طارق جیکسن(طارق محمود)نے اپنے فن سے محفل میں بھرپور رنگ جمایا شرکاء بہت لطف اندوز ہوئے اور دل کھول کر تالیوں سے پسندیدگی کی سند پیش کرتے رہے۔تقریب میں سماجی ،سیاسی، صحافتی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں کچھ معروف شخصیات کو اچیومنٹ ایوارڈ ٢٠١٦ سے بھی نوازا گیا جن میں کرنل (ر)یونس برولا، حسیب اعجاز ، ارشد بٹ، منشاء قاضی، نصیر الحق ہاشمی، بابر سلیم، محمود الحسن گیلانی، جنید ، تسنیم یوسف، حکیم آصف نذیر سمیت دیگر شامل تھے۔ چکوال سے تشریف لائیں نوجوان ادیبہ نمرہ ملک نے اپنی تصانیف کا تحفہ محمدود الحسن گیلانی کو پیش انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج مسرت کا سماع ہے اور اِس تقریب میں شرکت میرے لئے باعث اعزاز ہے اللہ کرے یہ خوشیاں بڑھتی رہیں اور غنچے کھلتے رہیں۔
کس کی ہمت ہے ہماری پرواز میں لائے کمی
ہم پروازوں سے نہیں حوصلوں سے اُڑا کرتے ہیں
نامور ادیب شاعر کالم نگار منشاء قاضی کو تقریب کی مناسبت سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آج ٦ ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ کے غازیوں اور شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں اِس دن ہمارے نوجوانوں نے قربانی کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔دشمن نے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر ہمارے سپوتوں نے ثابت کر دیا کہ اپنی دھرتی ماں کی طرف اُٹھنے والی ہر انگلی کو توڑ دینے کی ہر صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے پاک افواج کا ترک افواج سے موازنہ کرتے ہوئے کہ ہماری جرات میں بڑی مماثلت ہے ۔ ترک فوج نے روس کے خلاف خار دار تاروں پر لیٹ کر اپنے گھوڑوں کے لئے راستے ہموار کر دیئے تھے اور پاک فوج کے جوان بھی دشمنو ں کے ٹینکوں تلے لیٹ کر دشمنوں کے پرکھچے اُڑا رہے تھے۔انہوں نے بھی اپنے دشمن کے فرار کے راستے بند کر دیئے تھے اور ہم نے دشمن کو ناکوں چنے چبا ڈالے۔یہ داستانیں ہمیں شجاعت اور بہادری کا پیغام دیتیں ہیں ۔حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمیں آج بھی اُسی جذبے ،ہمت اور باہمی محبت و یک جہتی کی ضرورت ہے۔
تقریب کا رنگ بدلا اور فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی سرئوں کی ننھی ملکہ فریحہ اکرم کو اپنی گائیکی سے محظوط کر دینے کے لئے سٹیج پر مدوح کیا گیا ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی فریحہ نے اپنی سریلی آواز کے جادوسے گائیکی کے متوالوں کے دلوں کو جیت لئے ۔آغاز یوم دفاع کے حوالے سے نورجہاں کے گیت ”اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو۔۔تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں” سے ہوا ، کئی سدا بہار ملی نغموں کا انتخاب پرکشش دھنوں کیساتھ پیش کر کے شرکاء کے خون کو گرما دیا ۔شرکاء کی نعروں ،آنکھوں کی چمک اور چہرے کی شادابی عکاس تھی کہ سینے تنے ہیں اور سر فخر سے بلند ہیں۔فریحہ نے صوفیانہ کلام پیش کیا تو شرکاء جھوم جھوم اُٹھے اور ہم زبان ہو کر ساتھ ساتھ گنگائے اور سماں ہی باندھ دیا۔وقت کی رفتار تھمنے کو نا تھی اختتامی گھڑیاں دستک دے چکی تھی مگر شرکاء کی تقریب میں دلچسپی جوں کی توں تھی اور وہ فریحہ کو اُور سننے کے بے چین تھے۔ آخری کلام ”دما دم مست قلندر”پیش کیا ۔تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء سٹیج پر مہمانان کے ساتھ سٹیج پر سلفیوں اور فوٹو سیشن میں مصروف نظر آئے۔تقریب میں مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے اہل خانہ سمیت شرکت کی ۔اِس دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر کرتا ہوں کہ یا اللہ پاک سرزمین پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھنا اور اِسے رہتی دینا تک قائم دائم رکھنا۔آمین
تحریر: حسیب اعجاز عاشر